چوہیا کی دم پکڑ کر قیمہ مشین میں ڈال دیا اور ہینڈل گھما کر نفیس کبابوں کا قیمہ تیار کر لیا ۔ لیکن یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ہم معلم الملکوت کے استاد معظم تھے اور ہماری ہر شرارت کو ہمارے بزرگ بچپن کہا کرتے تھے ۔ اس کے بعد سے تو یہ حال ہو ا کہ جس قدر عمر بڑھتی گئی ، بزدلی میں اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ ہمارے واسطہ کسی کی ختنہ کی تقریب میں شرکت کرنا یا لڑکیوں کے کان چھیدنے کا نظارہ بھی قیامت ہو گیا اور رفتہ رفتہ ہم اس قوم کے ایک فرد بن گئے جو تیغوں کے سائے میں پل کر جوان ہوتے ہے لیکن بندوق بلا لائسنس نہیں رکھ سکتا ۔ شکار ہم نے کبھی نہیں کھیلا مرغ یا کسی پرندے کو ذبح کرنے کا اتفاق ہم کو کبھی نہیں ہوا ۔ علم جراحی سے ہم کو کبھی کوئی دلچسپی نہیں ہوئی ۔ پھر بھلا ہم سے یہ کیونکر ممکن تھا کہ بقر عید کے دن بکرا اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے لیکن یہ بات کچھ ایسی آن پڑی تھی کہ اگر ذبح نہیں کرتے تھے تو مردانگی میں فرق آتا جاتا تھا اور ذبح کرتے تو کیسے کرتے جب کہ اس کے خیال سے ہی پسینہ آ جاتا تھا ۔ عجیب شش و پیچ میں پڑے ہوئے تھے کہ بیگم نے کہا :''ایسا بھی کوئی مرد ہے جو ایک معمولی سا بکرا بھی ذبح نہ کر سکے '' ہم نے تن کر جواب دیا ۔ ''اجی بکرا ؟ بکرے کی کیا حقیقت ہے ؟ ''مجھ سے کہے تو میں ہاتھی ذبح کر دوں''۔
منہ چڑھا کر کہنے لگیں ۔''جی ہاں بڑے بیچارے ہاتھی ذبح کرنے والے ایسے ہی توہوتے ہیں ''۔
اب آپ ہی بتائیے کہ اس تمسخر کے بعد ہم کو کس قدر اشتعال پیدا ہو سکتا تھا ۔ واللہ دل تو یہ چاہتا تھا کہ اسی وقت ایک چھُڑی اٹھا کر تمام دنیا کے بکروں اور بکریوں کو ذبح کر کے ڈال دیں۔ مگر ہم نے ضبط سے کام لیا اس لئے تو بیگم کے تمام لعن تشنیع کا خندہ پیشانی سے جواب دیا ۔ اور اس غیر دل چسپ بحث کو ٹال کر وہاں سے ٹل گئے ۔ ابھی وقت بھی کافی تھا کہ اس معرکہ کے لئے پوری رات پڑی تھی لیکن بیگم یہ چاہتی تھی کہ کل کی قربانی کے لئے آج ہی ہم سے وعدے لے لیںتاکہ سال گزشتہ کی طرح عین موقع پر ہم فرار ہی نہ ہو جائیں ۔ اس لئے یہ بحث بارہ گھنٹے پہلے قبل چھڑ گیااور ہماری ساری رات یا تو اسی الجھن میں جاگ کر کٹی ، ورنہ جہاں آنکھ جھپکی نہایت ہی خوفناک خواب دیکھے۔
ایک جھٹکے کے ساتھ ہماری آنکھ کھل گئی اس وقت بھی ہم پسینہ میں غرق تھے اور معلوم ہو رہا تھا کہ واقعی چھری نے ہمارا تعاقب کیا ہے ۔ سانس پھولی ہوئی تھی اور دل کی دھڑکن پنجاب میل بنی ہوئی تھی ۔ ہم نے لاحول پڑھ کر پسینہ خشک کیا اور کلمہ پڑھتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئے اس لئے کہ صبح قریب تھی ۔ ایک جانور ککڑوں کرتے ہوئے ہمیں نماز کی یاد دلا رہا تھا ۔ چنانچہ مرغ سحر کی اذان سے ہم کونماز پڑھنے کا خیال آیا وضو، کیا اور ایک سچے مسلمان کی طرح نماز پڑھ کر دعا مانگی :''اے عزت دینے والے اور اے آبرو کے مالک ، توہی اس قربانی کے امتحان میں ثابت قدم رکھے گا ۔توہم سرخرو ہو سکیں گے ورنہ ایک عورت کی نظر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ذلیل ہو جائیں گے ''۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز کے بعد دل سے ایک بوجھ سا اتر گیا اور ہم خودبخود کچھ مطمئن ہو گئے ۔ گھرمیں سب جاگ چکے تھے بہرحال گھر میں تہواری فضائیں پیدا ہو چکی تھیں ایک ہم ہی تھے جو افیونیوں کی طرح قربانی کی پنک میں غین تھے ۔ گھر میں کچھ نہا رہے تھے کچھ نہا کر کپڑے پہن رہا تھے کہ بیگم نے بھوچال کی طرح کمرے میں آکر زناٹے سے کہا :''ارے آپ نہائے نہیں ''۔
ہم نے چونک کر کہا : نہیں میں تو نہیں نہایا''
تو کہنے لگیں '' تو اب کب نہائیے گا ''۔ معلوم ہے بقر عید کی نماز جلد ہو جاتی ہے ۔
ہم نے ٹرنک سے کپڑے نکالتے ہوئے کہا ''غسل خانہ خالی ہے ؟''
کہنے لگیں : جی خالی ہے جایئے نہا دھو کر آئے ۔'' قربانی کو دیر ہو رہی ہے ''
بس ظالم نے قربانی کا کہہ کر ہمارے تمام حوصلے پست کر دیئے لیکن ہم نے نہایت مضبوطی کے ساتھ کہا ''ایسی بھی کیا جلدی ہے ؟''
آنکھیں نکال کر کہنے لگیں : ''جلدی ہی کیا ہے یعنی سات بجنے کو ہیں اگر گوشت جلدی نہ بنا تو کس طرح کھانا جلدی تیار ہو گا ۔ جایئے نہا ئیں ۔۔۔ قربانی سے پہلے تو نماز بھی پڑھنی ہے ''۔