کاشفی

محفلین
آفتاب آیا
(بہزاد لکھنوی)
بزم میں ساغرِ شراب آیا
یعنی گردش میں آفتاب آیا

جب بھی آیا مجھے خیالِ سکوں
رقص میں دل کا اضطراب آیا

ان سے نظروں کے چار ہوتے ہی
زندگی میں اک انقلاب آیا

کچھ سمجھ میں نہ آسکی یہ بات
مجھ سے کیوں آپ کو حجاب آیا

منظرِ عام پر وہ کیا آئے
کل زمانے پہ اک شباب آیا

چار جانب بکھر گئے جلوے
سامنے وہ جو بےنقاب آیا

آیا بہزاد بزم میں، کہ کوئی
حاملِ عالمِ خراب آیا
 
Top