فارسی شاعری بر مزارِ اقبال - سعید نفیسی (مع ترجمہ)

حسان خان

لائبریرین
[بر مزارِ اقبال]
به خاکِ پاکِ تو آمد غباری از ایران
گُشای چشم و سر از خواب یک زمان بردار
ز خاکِ سعدی و فردوسی آمدم برخیز
پیامِ حافظ آورده‌ام، بشو بیدار
به دستِ من گلی از بوستانِ مولاناست
به پای خیز که تا بر سرت کنیم نثار
هزار بار مرا آرزویِ دیدن بود
چه می‌شود که ببینم جمالِ تو یک بار
کنون که بختم شد راهبر به پاکستان
دریغ و درد که اقبال نیست با من یار
ز جان و دل تو نفیسی ببوس خاکِ درش
که بود امید فراوان و آرزو بسیار
(سعید نفیسی)
۴ مارچ ۱۹۵۶ء

ترجمہ:
[اے اقبال!] تمہاری خاکِ پاک پر ایران سے ایک غُبار آیا ہے؛ چشم کھولو اور ایک لمحے کے لیے سر کو خوابِ ابدی سے بیرون لے آؤ۔
میں سعدی و فردوسی کی خاک سے آیا ہوں، اُٹھو!؛ میں حافظ کا پیغام لایا ہوں، بیدار ہو جاؤ!
میرے دست میں مولانا رومی کے بوستان کا ایک گُل ہے؛ کھڑے ہوؤ تاکہ میں اُسے تمہارے سر پر افشاں کر دوں۔
مجھے ہزار بار دیدار کی آرزو تھی؛ کیا ہو جائے گا کہ اگر میں تمہارا جمال ایک بار دیکھ لوں؟
اِس وقت کہ جب میرا بخت پاکستان کی جانب راہبر ہوا ہے، دریغا و دردا! کہ 'اقبال' میرے ساتھ یار نہیں ہے۔ ×

اے نفیسی! تم جان و دل سے اُس کی خاکِ در کو بوسہ دو، کہ امید فراواں اور آرزو بِسیار تھی۔

× بیتِ پنجم میں 'اقبال' کو 'خوش بختی' اور 'علامہ اقبال' دونوں طرح تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
 
Top