برستی ہے آتش، ایک غزل عرض ہے۔

ایم اے راجا

محفلین
برستی ہے آتش ہوا کے پروں سے
نہ ایسے میں نکلے گا کوئی گھروں سے

یہ بچے جلیں گے یوں سڑکوں پہ کبتک
یہ پوچھو زمانے کے چارہ گروں سے

کہاں تک یہ طوفان چلتے رہیں گے
ردائیں سرکتی رہیں گی سروں سے

رہے کیوں اداسی ہی عاشق کی قسمت
چلو چل کہ جانیں یہ ہم دلبروں سے

جو سر پر چڑھا نشۂ غم ہے راجا
اتر بھی سکے گا یہ چارہ گروں سے؟
 

الف عین

لائبریرین
اشعار یوں تو وزن میں ٹھیک ہیں۔ لیکن کچھ لگتا ہے کہ دوسرے مصرعے پہلے سے اتنی زیادہ مطابقت نہیں رکھتے۔ جیسے بچے گلیوں میں جلیں گے تو اس آتش زدگی سے چارہ گروں کا تعلق؟ اسی طرح بپھرنے والے طوفاں سمندری ہوتے ہیں، ہوا کے نہیں جن کے باعث ردائیں گر سکتی ہیں یا سرک سکتی ہیں۔
آخری شعر میں نشہ بر وزن فعو باندھا گیا ہے۔ درست تلفظ اس کا نشّہ، بر وزن فعلن ہے۔
جو سر پر چڑھا نشۂ غم ہے راجا
اتر بھی سکے گا یہ چارہ گروں سے؟
کیسا رہے گا۔ اس میں وہ ’نا‘ یا ’ناں‘ کا سقم بھی دور ہو جائے گا۔ اور سوالیہ یا تعجب کا لہجہ شعر کو مزید حسن دے رہا ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ استادِ محترم توجہ دینے کا۔
میں نے ان بچوں کا یہاں ذکر کیا ہے جو سڑکوں پر کاغذ چنتے اور دوسرے کام کرتے ہیں، کڑی دھوپ میں کہ کیا یہ یو ہی جلتے رہیں گے، حکومتِ وقت سے یہ بات پو چھو۔
طوفان والے مصرع اور مقطع کو تبدیل کیا ہے، ذرا ملاحطہ ہو۔ شکریہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ راجا صاحب اور خرم صاحب

مصروفیت تو زندگی کا حصہ ہے سو ساتھ ساتھ ہے، لیکن جب اعجاز صاحب اپنی رائے کا اظہار کر دیتے ہیں تو میں قطعاً ضروری نہیں سمجھتا کہ میں بھی منہ کھولوں :)
 

مغزل

محفلین
آخری شعر میں نشہ بر وزن فعو باندھا گیا ہے۔ درست تلفظ اس کا نشّہ، بر وزن فعلن ہے۔
جو سر پر چڑھا نشۂ غم ہے راجا

آداب بابا جانی ۔۔
کیا نشہ اور نشّہ دونوں ہی رائج تلفظ نہیں ہیں ؟
یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام، خالی ہی دو، میں نشے میں ہوں
میر تقی میر
مشہور مصرع ہے :
نشہ ، شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل
( اس پر غزل میں نے جنابِ راج کمار قیس (ہندوستان)کی پڑھی تھی)

میں مخمصے میں ہوں ۔۔ کوئی تدبیر کیجیے ۔۔
والسلام
 

فاتح

لائبریرین
آداب بابا جانی ۔۔
کیا نشہ اور نشّہ دونوں ہی رائج تلفظ نہیں ہیں ؟

اقتباس:
یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام، خالی ہی دو، میں نشے میں ہوں
میر تقی میر

مشہور مصرع ہے :
اقتباس:
نشہ ، شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل
( اس پر غزل میں نے جنابِ راج کمار قیس (ہندوستان)کی پڑھی تھی)

میں مخمصے میں ہوں ۔۔ کوئی تدبیر کیجیے ۔۔
والسلام

مغل صاحب! آپ درست فرما رہے ہیں۔
نشہ کی املا شین کی تشدید اور سکون دونوں طرح جائز ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے دکان کے ہجے کاف کی تشدید یا سکون دونوں طرح مروج اور مستعمل ہیں۔ مثلآ:

سوتا ہے بے خبر تو نشے میں جو رات کو
سو بار میر نے تری اُٹھ اُٹھ کے لی خبر
میر تقی میر

یہ پاسِ پیر مغاں ہے کہ ضعفِ تشنہ لبی
نشہ نہیں ہے مگر لڑکھڑا کے چلتے ہیں
احمد فراز

نشہ پِلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزا تو تب ہے کہ گرتے کو تھام لے ساقی
 

فاتح

لائبریرین
خوبصورت غزل ہے راجا صاحب۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ

مطلع کے مصرع اولیٰ میں "کہ" ہے یا "کے"؟ کیونکہ اگر "کہ" (جیسا کہ لکھا ہوا ہے) پڑھا جائے تو مہمل معلوم ہوتا ہے۔ یقینآ ٹائپو ہی ہے اسے درست کر لیجیے۔
 

الف عین

لائبریرین
محمود اب مجھے یاد نہیں کہ راجا نے اصل میں کیا لکھا تھا (انہوں نے اسی جگہ تصحیح کر دی ہے)۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں، درست تلفظ نشّہ ہے، شدہ کے ساتھ، لیکن نشہ بھی باندھا گیا ہے اور اس کو بھی درست مانا جاتا ہے۔ لیکن نشہ یا نشے کے ساتھ کوئی ترکیب بنانا غلط ہے۔ نشۂ مے فصیح نہیں مانا جاتا، نشّۂ مے فصیح ہے۔ اضافت ہو تو یہ ہمیشہ شدہ کے ساتھ نظم ہوتا ہے۔
 
Top