برائے تنقید، تبصرہ اور اصلاح

مانی عباسی

محفلین

جب تجلی تری ہر سو دیکھیں
کیوں لب و عارض و گیسو دیکھیں

وہ جو گزریں تو گل و گلشن بھی
دہر کو ساقطِ خوشبو دیکھیں

بے ٹھکانہ ہے صنم تو دل لے
آ چلیں حسن کی پھر خو دیکھیں

وادیِ غم کا سفر یاد آئے
"تم" کو ہوتے کبھی جو "تو" دیکھیں

چشمِ ریگِ وطنِ مجنوں میں
نامِ قیس آتے ہی آنسو دیکھیں
 

الف عین

لائبریرین
خوب غزل ہے مانی۔ عروضی غلطی تو بس ایک ہی ہے، جس خامی کی طرف متوجہ کر رہا ہوں۔
مطلع میں ایطا ہے۔ ہر سو، اور گیسو دونوں قوافی ’سو‘ پر ختم ہو رہے ہیں۔ مطلع میں یہ ہونے سے سقم پیدا ہو جاتا ہے۔الگ الگ شعروں میں قوافی ہوں تو درست ہے۔ یہاں گیسو کی جگہ کچھ اور قافیہ لانے کی ضرورت ہے جو فی الھال میری سمجھ میں بھی نہیں آیا ہے۔ تم ہی غور کرو۔
درمیانی تینوں اشعار میں اتنا ابہام ہے کہ سمجھ میں ہی نہیں آ سکے۔
 

مانی عباسی

محفلین
خوب غزل ہے مانی۔ عروضی غلطی تو بس ایک ہی ہے، جس خامی کی طرف متوجہ کر رہا ہوں۔
مطلع میں ایطا ہے۔ ہر سو، اور گیسو دونوں قوافی ’سو‘ پر ختم ہو رہے ہیں۔ مطلع میں یہ ہونے سے سقم پیدا ہو جاتا ہے۔الگ الگ شعروں میں قوافی ہوں تو درست ہے۔ یہاں گیسو کی جگہ کچھ اور قافیہ لانے کی ضرورت ہے جو فی الھال میری سمجھ میں بھی نہیں آیا ہے۔ تم ہی غور کرو۔
درمیانی تینوں اشعار میں اتنا ابہام ہے کہ سمجھ میں ہی نہیں آ سکے۔

درمیان کے شعروں میں ابہام شاید ہے بھی اور شاید نہیں بھی ۔۔۔۔۔۔نظر کا فرق سے ابہام پیدا ہوتا ہے واقعی ۔۔۔۔۔۔مطلع یہی نہیں چل سکتا ؟؟؟؟
 

الف عین

لائبریرین
اگر تم زبردستی چلانا چاہو مطلع کو، تو پھر تو چلے گا ہی۔ لیکن ایطا کا سقم بھی رہے گا ہی، اور استادان فن فنی نقص کا الزام بھی دیتے ہی رہیں گے!!
 

مانی عباسی

محفلین
اگر تم زبردستی چلانا چاہو مطلع کو، تو پھر تو چلے گا ہی۔ لیکن ایطا کا سقم بھی رہے گا ہی، اور استادان فن فنی نقص کا الزام بھی دیتے ہی رہیں گے!!


صحیح ہے کچھ یوں کر لیتے ہیں
کیوں لب و عارض وخوش رو دیکھیں
مگر ایک اور نقطہ کی وضاحت کا طلبگار ہوں ۔۔۔۔۔ عارض و گیسومیں و
عطفی کا وزن گر رہا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟؟؟؟؟
 

الف عین

لائبریرین
واو عطف کا گرنا جائز ہے اور میرے خیال میں متفق علیہ۔
اس مصرع میں لب و عارض تو اسم ہیں، لیکن خوش رو تو صفت ہو جاتا ہے۔ محض رو استعمال کریں۔
میرے خیال میں دوسرا مصرع اچھا رواں ہے، ؛پہلا مصرع ہی بدل دیا جائے، ہر سو کے بدلے کچھ اور استعمال کر کے۔
 
محض میری رائے میں۔


جب تجلی تری ہر سو دیکھیں
کیوں لب و عارض و گیسو دیکھیں
÷÷درست ہے۔
قافیہ میں سقم نہیں ہے۔ ”سو“ کا استعمال اس وقت ایطا ہوتا جب دونوں ”سو“ ایک ہی معانی میں ہوتے۔ مثلاً ”ہر سو“ اور ”چار سو“۔ جس لفظ کی تکرار ایک ہی معنی میں ہو اور اس سے پہلے کے الفاظ میں روی کی مخالفت ہوجائے وہ ایطا کہلاتا ہے۔ ایک اور مثال سمجھیں: ”حاجت مند“ اور ”درد مند“۔ دونوں میں مند کی تکرار ہے جو ایطا ہے۔ اگر شعر میں ”دولت مند“ اور ”حاجت مند“ قافیہ ہوتے تو ایطا نہیں تھا کیونکہ دولت اور حاجت ہم قافیہ ہوتے ہیں اور روی دونوں میں ت ہے۔ اسی لئے زیرِ بحث مطلع میں ”سو“ الگ معانی میں الگ قافیہ ہے۔ اور گیسو ایک الگ لفظ ہے جس میں ”سو“ لفظ کا حصہ ہی ہے۔ اسی وجہ سے یہ ایطا نہیں ہے۔


وہ جو گزریں تو گل و گلشن بھی
دہر کو ساقطِ خوشبو دیکھیں
÷÷مفہوم واضح کریں تو کچھ کہا جائے۔ دہر کون ہے؟ خود گل و گلشن؟ گل اور گلشن کا اس طرح جمع ہونا بھی سوالیہ نشان بن سکتا ہے۔
محمد یعقوب آسی صاحب کیا فرمائینگے؟


بے ٹھکانہ ہے صنم تو دل لے
آ چلیں حسن کی پھر خو دیکھیں
÷÷ربط بڑی بے دردی کے ساتھ مضروب ہوا ہے۔
”دل لے“ تو ہوں کہا جیسے کوئی مکان کرائے پر لینا ہو :) (مذاق)
دوسرے مصرعے کا پہلے سے تعلق؟


وادیِ غم کا سفر یاد آئے
"تم" کو ہوتے کبھی جو "تو" دیکھیں
÷÷ مفہوم؟؟ وہی بے ربط دو فقرے۔

چشمِ ریگِ وطنِ مجنوں میں
نامِ قیس آتے ہی آنسو دیکھیں
÷÷پہلے مصرعے میں ترکیب فارسی بہت زیادہ قبیح ہے۔
شعر اچھا ہے۔ نام جگہ ”ذکر“ ہوتا تو میرے نزدیک فصیح تر تھا۔

آخر میں یہ کہونگا کہ ابہام تو بہرحال ہے۔
اور یہ ابہام دانستہ نہیں ہے غزل سے واضح ہوتا ہے۔ مگر نو آموزی کی بنا پر اس ابہام کو کہیں کہیں معاف کیا جاسکتا ہے کہ ابلاغ پر ملکہ ہر کسی کا کام نہیں۔
 

مانی عباسی

محفلین
واو عطف کا گرنا جائز ہے اور میرے خیال میں متفق علیہ۔
اس مصرع میں لب و عارض تو اسم ہیں، لیکن خوش رو تو صفت ہو جاتا ہے۔ محض رو استعمال کریں۔
میرے خیال میں دوسرا مصرع اچھا رواں ہے، ؛پہلا مصرع ہی بدل دیا جائے، ہر سو کے بدلے کچھ اور استعمال کر کے۔
سوچتا ہوں اس بارے میں
 

مانی عباسی

محفلین
محض میری رائے میں۔
بے ٹھکانہ ہے صنم تو دل لے
آ چلیں حسن کی پھر خو دیکھیں
÷÷ربط بڑی بے دردی کے ساتھ مضروب ہوا ہے۔
”دل لے“ تو ہوں کہا جیسے کوئی مکان کرائے پر لینا ہو :) (مذاق)
دوسرے مصرعے کا پہلے سے تعلق؟


یہاں یہ بیان کرنی کی کوشش کی ہے کہ حسن دلوں میں گھر کر لیتا ہے صدا بس جاتا ہے
 

مانی عباسی

محفلین
چشمِ ریگِ وطنِ مجنوں میں
نامِ قیس آتے ہی آنسو دیکھیں
÷÷پہلے مصرعے میں ترکیب فارسی بہت زیادہ قبیح ہے۔
شعر اچھا ہے۔ نام جگہ ”ذکر“ ہوتا تو میرے نزدیک فصیح تر تھا۔
ذکر زیادہ اچھا ہے یہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔شکریہ
 
جب تجلی تری ہر سو دیکھیں
کیوں لب و عارض و گیسو دیکھیں
ایطا سے قطع نظر ’’ہرسو‘‘ اور ’’گیسو‘‘ (مطلع کے دونوں مصرعوں میں) ’’۔۔سو‘‘ مشترک ہے تو باقی شعروں میں اکیلا واوِ معروف بہر حال الجھن پیدا کر رہا ہے۔ ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ’’ ہر سو‘‘ دو لفظوں کا مرکب ہے اور ’’گیسو‘‘ ایک لفظ ہے۔ اس کو کہیں تو نقص گردانا جاتا ہے اور کبھی نہیں گردانا جاتا۔ اسی اور اس سے ملتی جلتی تاویلات کے باعث قوافی کے قواعد اور مقامات میرے لئے ہمیشہ مشکل رہے ہیں۔ جناب مزمل شیخ بسمل اور جناب اعجاز عبید کی آرا پر کوئی اضافہ نہیں کر سکوں گا۔ تاہم مناسب یہی ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بدل دیا جائے۔​
 
وہ جو گزریں تو گل و گلشن بھی
دہر کو ساقطِ خوشبو دیکھیں
’’گل و گلشن‘‘ اس ترکیب میں کوئی حرج نہیں۔ گل و گلزار، شاخ و شجر، دست و بازو کے مصداق میرے نزدیک یہ درست ہے۔
نظر لگے نہ کہیں ان کے دست و بازو کو​
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں​
’’ساقطِ خوشبو‘‘ کی ترکیب البتہ میری سمجھ میں نہیں آئی۔
 

مانی عباسی

محفلین
ایک کام اور کیجئے جناب مانی عباسی صاحب۔
یہ جو آپ نے غزل کا فونٹ بولڈ+اٹالک کر دیا ہے، اس سے پڑھنے میں دقت ہوتی ہے۔ اسے کسی طور سادہ کر لیجئے تو بہتر ہے۔


جب تجلی تری ہر سو دیکھیں
کیوں لب و عارض و گیسو دیکھیں

وہ جو گزریں تو گل و گلشن بھی
دہر کو ساقطِ خوشبو دیکھیں

بے ٹھکانہ ہے صنم تو دل لے
آ چلیں حسن کی پھر خو دیکھیں

وادیِ غم کا سفر یاد آئے
"تم" کو ہوتے کبھی جو "تو" دیکھیں

چشمِ ریگِ وطنِ مجنوں میں
نامِ قیس آتے ہی آنسو دیکھیں
 
Top