برائے اصلاح

فسانہ یہ محبت کا اگر کامل نہ ہوا
جاں لے گا یہ گھاؤ بھی اگر مندمل نہ ہوا
مل جائےجہاں بھی کچھ حاصل نہ حصول
دیدار دید آشنا اگر حاصل نہ ہوا
مزا ہی کیا عشق میں گر بلا روک چلے
جہاں سارا رقابت میں اگر شامل نہ ہوا
ڈھونگ لاکھ رچائیں ہیں کہ یہ درد ٹلے
اس مرض لا دوا پر اثر مگر عامل نہ ہوا
اسامہ یہ شام ہجراں بدلے گی وصل میں
حکم گردوں سے جدائی کا اگر نازل نہ ہوا
 
Top