برائے اصلاح و تنقید (نظم 2)

امان زرگر

محفلین

شاعری

فغانِ غمِ دل مری نارسیدہ
ہیں الفاظ بھی گم، بیاں آبدیدہ

مرے درد کا چشمِ نم اک حوالہ
مری لوحِ قسمت بھی دامن دریدہ

سنانِ جنوں پر مری ذات ٹھہری
سو تڑپے گا لاشہ مرا سر بریدہ

مرا حال طائر انھیں جا سنائیں
کہ مخدوش ہے پیڑ، شاخیں بریدہ

ثمر ہے مرے سوز کا اشکِ خونیں
مرا دل مری جاں محبت گزیدہ

نہیں ضبط میں درد کا اب فسانہ
رہے کب تلک یوں جگر غم کشیدہ

(نہیں ضبط میں درد کا اب فسانہ
بڑی مدتوں سے مرا دل رنجیدہ)

میں کچھ تو مداوا کروں دردِ دل کا
سخن دوں میں
اب سوزِ جاں کو نمیدہ
(
سخن کچھ ملے سوزِ جاں کو نمیدہ)

کروں زیبِ تحریر ادوارِ الفت
لکھوں سوزِ دل، اشکِ جاں کا قصیدہ

ہو اوراق میں ظرف درماندگی کا
تو الفاظ میں وصفِ گریاں تپیدہ

مری وقف ہستی ہو کارِ سخن میں
پہنچ پائے تکمیل کو اک جریدہ!

سر الف عین
سر محمد ریحان قریشی
 
آخری تدوین:

عینی مروت

محفلین
ثمر ہے مرے سوز کا اشکِ خونیں
مرا دل مری جاں محبت گزیدہ

وااہ بہت اچھے۔۔
پوری غزل خوووب ہے
بہت سی داد۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
میں نے جو عام رائے دی تھی تمہاری شاعری کے بارے میں وہ اس نظم میں بھی درست ہے۔ دوسری بات زبردستی کی ترکیبیں ہیں جو اکثر بے معنی لگتی ہیں۔ جیسے وصف گریاں تپیدہ
 

امان زرگر

محفلین
میں نے جو عام رائے دی تھی تمہاری شاعری کے بارے میں وہ اس نظم میں بھی درست ہے۔ دوسری بات زبردستی کی ترکیبیں ہیں جو اکثر بے معنی لگتی ہیں۔ جیسے وصف گریاں تپیدہ
سر وضاحت کا طالب ہوں۔۔۔۔ اتنا لکھ لینا آپ کی شفقت کے باعث ہی ہے۔۔۔ کمی کوتاہی بھی اسی در سے اصلاح پائے گی۔۔۔
 

امان زرگر

محفلین

شاعری

فغانِ غمِ دل مری نارسیدہ
ہیں الفاظ بھی گم، بیاں آبدیدہ

مرے درد کا چشمِ نم اک حوالہ
مری لوحِ قسمت بھی دامن دریدہ

سنانِ جنوں پر مری ذات ٹھہری
سو تڑپے گا لاشہ مرا سر بریدہ

مرا حال طائر انھیں جا سنائیں
کہ مخدوش ہے پیڑ، شاخیں بریدہ

ثمر ہے مرے سوز کا اشکِ خونیں
مرا دل مری جاں محبت گزیدہ

نہیں ضبط میں درد کا اب فسانہ
رہے کب تلک یوں جگر غم کشیدہ

میں کچھ تو مداوا کروں دردِ دل کا
سخن اب ملے سوزِ جاں کو نمیدہ

کروں زیبِ تحریر ادوارِ الفت
لکھوں سوزِ دل، اشکِ جاں کا قصیدہ

ہوں مثلِ غَزالِ خُتَن لفظ سارے
ٹہلتے پھریں دشت میں آرمیدہ

مری وقف ہستی ہو کارِ سخن میں
پہنچ پائے تکمیل کو اک جریدہ!
سر الف عین
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مثلاً
فغانِ غمِ دل مری نارسیدہ
ہیں الفاظ بھی گم، بیاں آبدیدہ

پہلے مصرع میں واضح نہیں کہ اس وقوعے کا صیغہ کیا ہے۔ ماضی کی بات ہے، حال کی یا مستقبل کی۔
پھر فغان غم دل؟ محض دل کی فغاں تو مشہورترکیب ہے۔غم دل کی فغاں ؟
اگر یوں ہو تو بات واضح ہو جائے۔
مرے دل کی آہیں رہیں نا رسیدہ
 

الف عین

لائبریرین
ایک اور مثال
کروں زیبِ تحریر ادوارِ الفت
لکھوں سوزِ دل، اشکِ جاں کا قصیدہ
داستان الفت تو لکھی جا سکتی ہے۔ ادوار محبت کیسے ممکن ہے؟
اسکے علاوہ ’زیب تحریر‘ سے یوں لگتا ہے کہ جو لکھا جائے گا، اس سے سب کو مسرت کا حصول ہو گا۔ لیکن جو لکھنے کا ارادہ ہے وہ تو غم کی داستان ہے!!
 

امان زرگر

محفلین
شاعری

مرے دل کی آہیں رہیں نارسیدہ
ہیں الفاظ بھی گم، بیاں آبدیدہ

مرے درد کا چشمِ نم اک حوالہ
مری لوحِ قسمت بھی دامن دریدہ

سنانِ جنوں پر مری ذات ٹھہری
سو تڑپے گا لاشہ مرا سر بریدہ

مرا حال طائر انھیں جا سنائیں
کہ مخدوش ہے پیڑ، شاخیں بریدہ

ثمر ہے مرے سوز کا اشکِ خونیں
مرا دل مری جاں محبت گزیدہ

نہیں ضبط میں درد کا اب فسانہ
رہے کب تلک یوں جگر غم کشیدہ

میں کچھ تو مداوا کروں دردِ دل کا
سخن اب ملے سوزِ جاں کو نمیدہ

سپردِ قلم داستانِ ستم ہو
رقم سب ہوں احوالِ آفت رسیدہ

ہوں مثلِ غَزالِ خُتَن لفظ سارے
ٹہلتے پھریں دشت میں آرمیدہ

مری وقف ہستی ہو کارِ سخن میں
پہنچ پائے تکمیل کو اک جریدہ!

سر الف عین
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ہاں اب کافی بہتر ہے۔ کم از کم میرا اصل اعتراض تم درست سمجھ گئے ہو۔ امید ہے آئندہ بھی اس کا خیال رکھو گے۔
احوال آفت رسیدہ عجیب لگ رہا ہے۔
آخری شعر میں جریدہ قافیہ بھی درست لفظ نہیں لگتا۔
بجائے نظم کے اسے غزل ہی کہو۔ جو شاعری سے راست مفہوم کے اشعار ہیں، ان کو مسلسل کا عنوان دے دو
 

امان زرگر

محفلین

سپردِ قلم داستانِ ستم ہو
رقم ہوں سب احوالِ دل ناشَنیدہ

مری وقف ہستی ہو کارِ سخن میں
پہنچ پائے تکمیل کو یہ قصیدہ!
سر الف عین
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
اساتذہ سے اصلاح کے بعد پیشِ خدمت ہے۔

مرے دل کی آہیں رہیں نارسیدہ
ہیں الفاظ بھی گم، بیاں آبدیدہ

مرے درد کا چشمِ نم اک حوالہ
مری لوحِ قسمت بھی دامن دریدہ

سنانِ جنوں پر مری ذات ٹھہری
سو تڑپے گا لاشہ مرا سر بریدہ

مرا حال طائر انھیں جا سنائیں
کہ مخدوش ہے پیڑ، شاخیں بریدہ

ثمر ہے مرے سوز کا اشکِ خونیں
مرا دل مری جاں محبت گزیدہ

نہیں ضبط میں درد کا اب فسانہ
رہے کب تلک یوں جگر غم کشیدہ

میں کچھ تو مداوا کروں دردِ دل کا
سخن اب ملے سوزِ جاں کو نمیدہ

سپردِ قلم داستانِ ستم ہو
رقم ہوں سب احوالِ دل ناشَنیدہ

ہوں مثلِ غَزالِ خُتَن لفظ سارے
ٹہلتے پھریں دشت میں آرمیدہ

مری وقف ہستی ہو کارِ سخن میں
پہنچ پائے تکمیل کو یہ قصیدہ!
 
Top