برائے اصلاح و تنقید (غزل 36)

امان زرگر

محفلین
حریمِ دل میں عجب کیف ہے خماری ہے
شرارِ عشق سے ہلکان جاں ہماری ہے
یا
حریمِ دل میں یہ کیسی بے اختیاری ہے
شرارِ عشق سے ہلکان جاں ہماری ہے

فروغِ حسن صنم ساز دیکھ کر حیراں
صنم کدے کا ہر اک بام و در پجاری ہے

سکوتِ لب سے قیامت بپا ہوئی جائے
سماعتوں کو عجب خوئے بے قراری ہے

چراغ راہِ عدم پر جلانے والے سن!
حیات تیرہ شبی میں سبھی گزاری ہے

نہ راستوں سے تعلق نہ منزلوں پہ نگاہ
سفر بے فیض سا صدیوں سے ایسے جاری ہے


سر الف عین
سر محمد ریحان قریشی
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
حریمِ دل میں عجب کیف ہے خماری ہے
شرارِ عشق سے ہلکان جاں ہماری ہے
یا
حریمِ دل میں یہ کیسی بے اختیاری ہے
شرارِ عشق سے ہلکان جاں ہماری ہے
دوسرے والا شعر صحیح رہے گا۔ اول الذکر کی صورت میں غزل کے دیگر قوافی باطل ٹھریں گے۔
 

امان زرگر

محفلین
حریمِ دل میں تڑپ ہے، بے اختیاری ہے
شرارِ عشق سے ہلکان جاں ہماری ہے

فروغِ حسن صنم ساز دیکھ کر حیراں
صنم کدے کا ہر اک بام و در پجاری ہے

سکوتِ لب سے قیامت بپا ہوئی جائے
سماعتوں کو عجب خوئے بے قراری ہے

چرا غ راہِ عدم پر جلانے والے سن!
حیات تیرہ شبی میں ابھی گزاری ہے

نہ راستوں سے تعلق نہ منزلوں پہ نگاہ
سفر بے فیض سا صدیوں سے ایسے جاری ہے
 

الف عین

لائبریرین
'بے' کو محض 'ب' تقطیع نہیں کیا جا سکتا۔ مطلع اور آخری شعر میں یہی غلطی ہے۔ پچھلے مطلع میں لا المی کا درست اعتراض تھا کہ ایطا کی غلطی ہو رہی تھی۔
دوسرا شعر دو لخت لگتا ہے۔
ہوئی جائے' کا بیانیہ بھی پسندیدہ نہیں۔
ابھی یا سبھی گزاری جیسے بھرتی کے الفاظ سے چھٹکارا مل سکتا ہے اگر الفاظ ہی بدل دیے جائیں
 

امان زرگر

محفلین
سر الف عین
سر محمد ریحان قریشی

حریمِ دل میں عجب کیف ہے خماری ہے
شرارِ عشق سے ہلکاں ہوں جاں نزاری ہے

فروغِ عجز صنم ساز دیکھ کر حیراں
صنم کدے کا ہر اک بام و در پجاری ہے
یا
فروغِ حسنِ صنم کا سرور دو آتش
نشاطِ عجز میں ہر بام و در پجاری ہے
یا
فروغِ حسنِ صنم کا سرور دو آتش
نشاطِ دید میں ہر اک نظر پجاری ہے

سکوتِ لب سے قیامت بپا ہے عالم میں
سماعتوں میں عجب خوئے بے قراری ہے

چراغ راہِ عدم پر جلائے جب دیکھا
حیات تیرہ شبی کی فریب کاری ہے

جنوں نے دامِ سفر میں پھنسا لیا مجھ کو
سفر ازل سے بس اک
دائرے میں جاری ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ہلکان ہندی النسل ہے، اس کو شاید ہلکاں نہیں بنایا جا سکتا۔
سکوتِ لب سے قیامت بپا دو عالم میں
÷÷دو عالم کی کیا ضرورت ہے۔
سکوتِ لب سے قیامت بپا ہے عالم میں
کافی ہو گا۔ اور بہتر بھی۔
اسی طرح
سفر ازل سے کسی دائرے میں جاری ہے
کو
سفر ازل سے بس اک دائرے میں جاری ہے
کہیں تو شاید بات زیادہ واضح ہو جائے۔
صنم ساز والے شعر کے دونوں روپ اب بھی میری دل کو نہیں لگے۔
 

امان زرگر

محفلین
ہلکان ہندی النسل ہے، اس کو شاید ہلکاں نہیں بنایا جا سکتا۔
سکوتِ لب سے قیامت بپا دو عالم میں
÷÷دو عالم کی کیا ضرورت ہے۔
سکوتِ لب سے قیامت بپا ہے عالم میں
کافی ہو گا۔ اور بہتر بھی۔
اسی طرح
سفر ازل سے کسی دائرے میں جاری ہے
کو
سفر ازل سے بس اک دائرے میں جاری ہے
کہیں تو شاید بات زیادہ واضح ہو جائے۔
صنم ساز والے شعر کے دونوں روپ اب بھی میری دل کو نہیں لگے۔
فروغِ حسنِ صنم کا سرور دو آتش
نشاطِ دید میں ہر اک نظر پجاری ہے
یا
فروغِ حسنِ نظر کا سرور دو آتش
نشاطِ دید میں ہر بام و در پجاری ہے
یا
فروغِ حسنِ نظر کا سرور دو آتش
نشاطِ دید میں ہر اک نظر پجاری ہے
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
ہلکان ہندی النسل ہے، اس کو شاید ہلکاں نہیں بنایا جا سکتا۔
۔
یک بہ یک تو نے یہ کیسا رنگ بدلا اے فلک

تیری گردش سے کہیں کیا سخت جی ہلکاں ہوا
(انتخاب کلام جرأت ۔۔۔ قلندر خان جرأت، جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید)
 

الف عین

لائبریرین
نشاط میں پجاری ہونا ہی سمجھ میں نہیں آتا۔ میرے خیال میں پچھلے شعر میں ہی افر یوں کر دیا جائے تو بات واضح ہو سکتی ہے
فروغِ عجز صنم ساز دیکھ
حیراں ہے/ مہر بلب
صنم کدے کا ہر اک بام و در پجاری ہے
ہلکاں کی تو سند لے آئے تو کچھ کہہ نہیں سکتا۔ مگر پسند نہیں مجھے
 

الف عین

لائبریرین
نشاط میں پجاری ہونا ہی سمجھ میں نہیں آتا۔ میرے خیال میں پچھلے شعر میں ہی اگر یوں کر دیا جائے تو بات واضح ہو سکتی ہے
فروغِ عجز صنم ساز دیکھ
حیراں ہے/ مہر بلب
صنم کدے کا ہر اک بام و در پجاری ہے
ہلکاں کی تو سند لے آئے تو کچھ کہہ نہیں سکتا۔ مگر پسند نہیں مجھے
 

امان زرگر

محفلین
نشاط میں پجاری ہونا ہی سمجھ میں نہیں آتا۔ میرے خیال میں پچھلے شعر میں ہی اگر یوں کر دیا جائے تو بات واضح ہو سکتی ہے
فروغِ عجز صنم ساز دیکھ
حیراں ہے/ مہر بلب
صنم کدے کا ہر اک بام و در پجاری ہے
ے

میری کم علمی کہ شعر میں تجویز کردہ تبدیلی سمجھ نہیں پایا۔۔ استادِ محترم سے شفقت کا طالب ہوں۔۔۔
 

امان زرگر

محفلین
سر الف عین

حریمِ دل میں عجب کیف ہے خماری ہے
شرارِ عشق میں جلتا ہوں جاں نزاری ہے

سکوتِ لب سے قیامت بپا ہے عالم میں
سماعتوں میں عجب خوئے بے قراری ہے

چراغ راہِ عدم پر جلائے جب دیکھا
حیات تیرہ شبی کی فریب کاری ہے

جنوں نے دامِ سفر میں پھنسا لیا مجھ کو
سفر ازل سے بس اک دائرے میں جاری ہے

گراں سرشت محبت ہے پر فغاں''زرگر''
فگار سینہ ہوں فریاد و آہ و زاری ہے
 
Top