برائے اصلاح ، بس تری باتیں کی ہیں

سمر رضوی

محفلین
اساتذہ کرام الف عین صاحب، محمد ریحان قریشی صاحب، راحیل فاروق سید عاطف علی

جب سے دیکھا ہے تجھے، بس تری باتیں کی ہیں
بس میں تھی بس نہ مرے، بس تری باتیں کی ہیں
ہونگے کچھ کارِ جہاں، کارِ خرد، کارِ جنوں
ہے یہی کام مجھے، بس تری باتیں کی ہیں
معجزہ ہے کہ کھلے پھول خزاں موسم میں
جب بھی گلشن میں گئے،بس تری باتیں کی ہیں
کوئی سمجھا تجھے بت، کوئی خدا کوئی صنم
بن ترا نام لئے، بس تری باتیں کی ہیں
جب بھی محفل میں رقیبوں کی کبھی بیٹھے ہیں
کوئی رنجش نہ گلے، بس ترے باتیں کی ہیں
گفتگو چاند سے شب بھر یوں رہی ہے اکثر
دونوں خاموش رہے بس تیری باتیں کی ہیں
حسنِ لیلی سے سوا حسن ترا ہے واللہ
جب بھی مجنوں سے ملے بس تری باتیں کی ہیں
بس میں جب تک تھا ترا نام چھپایا سب سے
اور جب ہو گئے بے بس تری باتیں کی ہیں
اور کیا کرتے نمازوں میں بھلا رب سے کلام
دونوں عاشق تھے ترے بس تری باتیں کی ہیں
بات کرنے کا سلیقہ نہ لب و لہجہ کمال
وقت بھی تھم کے سنے، بس تری باتیں کی ہیں
جانے شاعر کیوں سمجھتے ہیں مجھے لوگ سمر
میں نے کب شعر کہے، بس تری باتیں کی ہیں
 

الف عین

لائبریرین
واہ واہ، اچھی غزل کہی ہے۔ بس دو ایک مصرعوں میں مجھے خامی محسوس ہوئی÷
بس میں تھی بس نہ مرے، بس تری باتیں کی ہیں
شاید مراد جو ہے، وہ نثر میں یوں ہو گی کہ بس، میرے بس میں نہیں تھا (کہ کچھ اور کرتا)، بس تری۔۔۔۔
لیکن الفاظ سے لگتا ہے کہ محترمہ Bus میں بیٹھ کر جا رہی تھیں جس پر آپ کا بس نہیں چل سکا!!!

دونوں خاموش رہے بس تیری باتیں کی ہیں
÷÷خاموش رہ کر باتیں؟ اس کو یوں کہو تو
اور کچھ کہہ نہ سکے، بس تری۔۔۔

بات کرنے کا سلیقہ نہ لب و لہجہ کمال
÷÷÷ ’لب و لہجہ کمال‘ میں بات مکمل نہیں ہو رہی ہے۔ نہ سلیقہ ہے، نہ لب و لہجہ، اور نہ کمال، شاہد یہ کہنا چاہا ہے۔ ایک عدد لفظ کم کر کے واضح کر سکتے ہیں۔
جیسے
بات کرنے کا سلیقہ ہے ، نہ لہجہ نہ کمال
بات کرنے کا سلیقہ ہی مرا ہے نہ کمال وغیرہ وغیرہ
 
Top