بدن ہے کاغذی اور آگ سر پر۔اسلم کولسری

بدن ہے کاغذی اور آگ سر پر
اسی حالت میں نکلا ہوں سفر پر
مجھے تو آپ اپنی جستجو ہے
کہیں باہر ہی ملتا ہوں نہ گھر پر
کہیں ایسا نہ ہو واپس نہ آئے
نظر رکھتا ہوں میں اپنی نظر پر
مرے سائے کی رنگت دیکھتے ہو
کہا تھا، مت چلو مری ڈگر پر
بھلے اتریں بلائیں ہی بلائیں
مگر ایسی حیات مختصر پر!
انڈیلے ہیں اسی نے سر پہ شعلے
جبیں رکھی ہے جس کے سنگ در پر
مجھے اپنا گماں ہوتا ہے اسلمؔ
چمن کے درمیاں سوکھے شجر پر
 
Top