وہاب اعجاز خان
محفلین
”میراجی“
بقول سر سہیل ”میرا جی کو سمجھنے کے لئے انسان کو میراجی بننا پڑتا ہے۔“
ترقی پسند تحریک کے زور و شور کے زمانے میں 1939ءمیں حلقہ ارباب ذوق کا قیام عمل میں آیا۔ مجموعی طور پر حلقہ ترقی پسند تحریک کا ردعمل تو نہ تھا۔ لیکن دونوں کے ادبی رویے مختلف ضرور تھے۔ حلقہ کے لوگ عصری شعور رکھتے تھے لیکن وہ ادب میں یک رنگی کے قائل نہ تھے وہ انسان کو اس کی کلیت کے حوالے سے دیکھنا اور سمجھنا چاہتے تھے۔ اسی طرح ادب کے مطالعے سے بھی وہ کسی مخصوص نقطہ نظر تک محدود نہ تھے۔ حلقہ اربابِ ذوق کے شاعروں کی اصل شناخت ان کی نظم نگاری ہے۔ ان حضرات نے قدیم روایت سے انحراف کرتے ہوئے نظم کے مروجہ تصور میں بھی تبدیلی پیدا کی جو ان کے نظریہ شعر سے پوری طرح ہم آہنگ تھی۔ ٦٣٩١ءکے آس پاس شعر ی موضوعات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نظم کی ہیت میں بھی تبدیلی واقع ہوئی اس دوران آزاد نظم کی ہیئت کو مقبولیت ملی۔ حلقہ کے شاعروں نے اس ہیئت کو کچھ اس طرح برتا کہ اسے تحریک کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ ن۔م راشداور تصدق حسین خالد کو آزاد نظم کا بانی کہا جاتا ہے۔ لیکن آزاد نظم میں ایک بہت ہی مقبول نام ”میراجی “ کابھی ہے۔
میراجی ، جن کا اصل نام محمد ثنا اللہ تھا ۔ منشی محمد مہتاب الدین کے ہاں ٥٢ مئی ٢١٩١ءکو لاہور میں پیداہوئے۔ پہلے ”ساحری“ تخلص کرتے تھے۔ لیکن ایک بنگالی لڑکی ”میراسین“ کےیک طرفہ عشق میں گرفتار ہو کر ”میراجی“ تخلص اختیار کر لیا۔ میراجی کی ذات سے ایسے واقعات وابستہ ہیں کہ ان کی ذات عام آدمی کے لئے ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔ اُن کا حلیہ اور ان کی حرکات و سکنات ایسی تھیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا انہوں نے سلسلہ ملامتیہ میں بیعت کر لی ہے۔ لمبے لمبے بال ،بڑی بڑی مونچھیں ، گلے میں مالا ، شیروانی پھٹی ہوئی، اوپر نیچے بیک وقت تین پتلونیں، اوپر کی جب میلی ہوگئی تو نیچے کی اوپر اور اوپر کی نیچے بدل جاتی۔ شیروانی کی دونوں جیبوں میں بہت کچھ ہوتا۔ کاغذوں اور بیاضوں کا پلندہ بغل میں دابے بڑی سڑک پر پھرتا تھااور چلتے ہوئے ہمیشہ ناک کی سیدھ میں دیکھتا تھا۔ وہ اپنے گھر اپنے محلے اور اپنی سوسائٹی کے ماحول کو دیکھ دیکھ کر کڑتا تھا اس نے عہد کر رکھا تھا کہ وہ اپنے لئے شعر کہے گا۔ صرف ٧٣ سال کی عمر میں ٣ نومبر 1949ءکو مرگئے۔ اس مختصر سی عمر میں میراجی کی تصانیف میں ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ”اس نظم میں “”نگار خانہ“”خیمے کے آس پاس“ شامل ہیں۔ جبکہ میراجی کی نظمیں ، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ بھی شاعر ی کے مجموعے ہیں، آئیے میراجی کی شاعری کی فکری اور فنی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں،
مغربی شعراءکا اثر:۔
میراجی فرانس کے ایک آوارہ شاعر ”چارلس بودلئیر“ سے بہت متاثر تھے۔ بودلیئر دوستوں کو دشمن بنانے میں یدطولیٰ رکھتا تھا ۔ میراجی بھی ان سے کم نہ تھے۔ ”مشرق و مغرب کے نغمے“ میں میراجی نے بودلئیر کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے کئی نظمیں اپنی ذات کے لئے لکھی ہیں۔ میراجی کی ابتدائی دور کی شاعری اپنی ذات کے لئے ہے۔ بودلیئر کے بارے میں میراجی نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ لاشعور کا شاعر تھا وہ نئے احساسات ، نئے لہجے ، نئے انداز بیاں اور نئی زبان کا شاعر تھا۔ یہی کام میراجی نے بھی کیا
اس کے علاوہ وہ امریکہ کے تخیل پرست شاعر ”ایڈ گر ایلن پو “ سے بہت زیادہ متاثر ہیں ۔ اُس کی بیوی اُس کے لئے ایک ایسا سایہ بن جاتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور میراجی کے ہاں بھی ”سایہ “ کی علامت بار بار آتی ہے۔”پو“عورت کے بجائے عورت کے تصور کی پوجا کرتا تھا۔ میراجی کی شاعر ی کے بارے میں نقادوں نے لکھا ہے کہ میراجی کو تصور سے پیار ہے۔ تصور میراجی کا آدرش ہے۔ منظر بھی منظر بن کر نہیں تصور بن کر ان کی شاعر ی میں آتا ہے۔
ویشنو مت یا ہندو مت کا اثر:۔
میراجی کی نظموں میں وشنو مت کے بہت زیادہ اثرات ہیں۔ ویشنو بھگتی تحریک دراصل قدیم ہندوستان کے تہذیبی ابال کی ایک صورت تھی۔ جو براہمنوں کی اجارہ داری کے مقابلے میں ذات پات کو ختم کرنے کے رجحان آریائوں کے خاص مذہبی روایات کے مقابلے میں زمین کی زرخیزی سے متعلق دیوتائوں اور اوتاروں کی تخلیق اور سنسکرت کے مقابلے میں دیس کی اپنی بولیوں کے احیاءمیں ڈھل کر نمودار ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے ہندوستا ن نے اسے قبول کرلیا۔
یہ تحریک دکن سے شروع ہوئی او ر شمالی ہند میں اس نے خوب ترقی کی راما نند ، کبیر اور تلسی داس نے بھگتی کی اس تحریک کو پروان چڑھایا۔ اس تحریک سے پہلے رام اور سیتا کی پوجا ہوتی تھی۔ لیکن ان لوگوں نے کرشن اور رادھا کی پوجا شروع کی اور اپنی شاعری میں اُسے جگہ دی۔جو کہ ایک ناجائز معاشقے کی داستان ہے۔
میراجی کی نظموں کے مطالعہ کے سلسلے میں ویشنو بھگتی تحریک کے دو پہلو زیادہ اہم ہیں۔ ان میں ایک تو کرشن اور رادھا کی محبت سے متعلق ہے۔ کرشن ایک چرواہا تھا اور رادھا ایک بیاہتا شہزادی تھی اور ان کی محبت ملن اور سنجوک سے کہیں زیادہ فراق اور دوری اور مفارقت کی محبت تھی۔ پھر جہاں ملن کے سمے آتے تھے وہاں کہانی کا وہ پہلو زیادہ نمایاں ہوتا تھا جسے”مدھر“ کا نام دیا گیا ہے اور جو دراصل مرد اور عورت کی ناجائز جنسی محبت کے والہانہ پن اور شدت کو اجاگر کرتا ہے۔دوسرا پہلو ”کالی“ اور ”شو“ سے متعلق ہے اور اس نے جنسی علامتوں علامتوں کے بارے میں میرا جی کا خوب ساتھ دیا ہے۔ویشنو مت بھگتی تحریک کے تصورات میں جنسی پہلو بڑی شدت کے ساتھ اجاگر ہوا ہے۔ اور میراجی کی نظموں میں جنسی پہلو کو نمایاں کرنے کی دھن دراصل ویشنو بھگتی تحریک کے ان اثرات کا نتیجہ ہے۔
جنسی حوالہ:۔
میراجی کی شاعر ی میں جنسی پہلو وشنو بھگتی تحریک کے ان اثرات کا نتیجہ ہے جو دراصل مرد اور عورت کی ناجائز جنسی محبت کے والہانہ پن اور شدت کو اجاگر کرتا ہے۔ ”مدھر“ میں جنسی ملاپ کی پوری عکاسی ہوتی ہے۔ کالی اور شو کے حوالے سے جنسی علاقوں کی پوجا ہندومت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ لہذا ان دونوں رجحانات کو میراجی کی شاعری میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ”حرامی “ ،”دوسری عورت“، ”دور کنارا“ ، ”ایک نظم“ ، ”عدم کا خلا“ اور ”دور نزدیک“ کے علاوہ کئی نظموں میں جنسی آزادہ روی ، جنسی تعلقات کا موضوع ملتا ہے۔عورت اُن کی مکمل کمزوری نہیں وہ اپنی نظم ”خود نفسی“ میں محرومی سے بچنے کا ایک اور راستہ ”خود لذتی“ کی صورت میں تلاش کر لیتے ہیں۔
جوانی میں ساتھ ہے جو اضطراب
نہیں کوئی اس کا علاج
مگر ایک عورت
کھلے جب نہ مجھ پر وسیلوں کے باب
ملے جب نہ چاہت کا تاج
تو پھر کیا کروں میں
عورت اور مر د کی محبت میں جنسی پہلو کو نمو، ناجائز جنسی تعلقات اور اس کے سراہنے کی روش میراجی کی نظموں میں عام ہے۔ مثلاً میراجی کی نظم”حرامی“ میں شاعر نے ناجائز جنسی تعلقات کے ثمر کو زندگی کا حاصل قرار دیاہے۔ میراجی نے ناجائز محبت کے ضمن میں عام سماجی ردعمل کو قطعاً نظر انداز کر دیا ہے۔
قدرت کے پرانے بھیدوں میں جو بھید چھپائے چھپ نہ سکے
اس بھید کی تو رکھوالی ہے
اپنے جیون کے سہارے کو اس جگ میں اپنا کر نہ سکی
یہ ہے کوئی دن آئے گا وہ نقش بنانے والی ہے
میں تھکا ماندہ مسافر ہوں چلا جائوں گا
اک گھڑی راہ میں تم مجھ کو بسر کرنے دو
تصّور:۔
بقول ڈاکٹر جمیل جالبی
” میراجی کی شاعری میں چیزیں نہیں بلکہ چیزوں کا تصور ملتا ہے ۔ انہیں عورت سے زیادہ عورت کا تصور عزیز ہے۔ منظر بھی منظر بن کر نہیں بلکہ تصور بن کر ان کی شاعر ی میں آٹا ہے۔“
میراجی کی بدنام زمانہ نظم ”لب جوئبارے“ میں اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو،
ایک ہی پل کے لئے بیٹھ کے پھر اُٹھ بیٹھی
آنکھ نے صرف یہ دیکھا کہ نشستہ بت ہے
پھر بصارت کو نہ تھی تاب کہ وہ دیکھ سکے کیسے تلوار چلی کےسے زمیں کا سینہ
ایک لمحے کے لئے چشمے کی مانند بنا
میراجی کو اشیا ءسے زیادہ ان کے تصور عزیز تھے خود میراسین بھی ایک تصور ہی ہے۔ بہت سے نقاد میراسین کو میراجی کی نظموں کا لاشعوری موڑ قرار دیتے ہیں۔ لیکن میراسین کا وجود میراجی کے ہاں ایک شعوری وجود سے زیادہ کچھ نہیں ۔ تصور سے بھرپور نظمیں ہمیں میراجی کے ہاں ملتی ہیں۔ جن میں ”دکھ دل کا دارو“ ”سنجوک“، ”ایک عورت“ ”اجنبی انجان عورت“، ”لب جوئبارے“ ، ”افتاد“ ، ”محبت“ ، ”دھوکہ“، شامل ہیں
سفید بازو گداز اتنے
زباں تصور میں حظ اُٹھائے
اور انگلیاں بڑھ کے چھونا چاہیں مگر انہیں برق ایسی لہریں
سمٹتی مٹھی کی شکل دے دیں
ماضی پرستی:۔
میراجی ماضی پرست انسان ہیں۔ وہ ٹھوس حقائق سے آنکھیں بند کرکے دیومالائی عہد میں زندہ رہنا چاہتا ہے۔ مگر یہ رائے مکمل طور پر درست بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اندھیرے اور اجالے کے تضاد اور تصادم کو جو احساس عام ذہن کے لئے قابل ِ قبول سچائی ہے۔ میراجی اس سے گریز نہیں کرتے ۔ میراجی کے ہاں یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزم کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں ۔ اس لئے کہ کہ میراجی ماضی پرست ہونے کے ساتھ ساتھ جدید خیالات ، اور احساس کابھی خیرمقدم کرتا ہے۔
جہاں میں اور بھی تھے مجھ سے تم سے بڑھ کے کہیں
جو اجنبی تھے جنہیں اجنبی ہی رہنا تھا
دوری:۔
میراجی ہر چیز کو دور کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہو گئے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی محبوبہ میرا سین کو بھی اس نے اتنی دور سے دیکھا کہ اس کا کوئی واضح نقش اس کی نظم میں نہیں ابھر سکا۔ اُس نے میراسین کو ماضی کی دھندلکوں میں دھکیل دیا ۔ اور پھر وہ کہیں رادھا بنی ، کہیں بادل ، کہیں دریا، کہیں ندی۔
میراجی کو دوری ہی میں حسن نظر آتا ہے۔ اس دور ی نے ہجر کے کرب ناک لمحوں کو بھی جنم دیا جو کہ ناقابل برداشت تھے لیکن ایسا خال خال ہی ہوا ہے۔ بےشتر جگہوں پر دوری کے احسا س کو لے کر میراجی نے خوبصورت شعری پیکر تراشے ہیں ۔ جن کی کوئی مثال اردو شاعری میں نہیں نظر آتی۔
ترا دل دھڑکتا رہے گا
مرا دل دھڑکتا رہے گا
مگر دور دور
زمیں پر سہانے سمے آتے جاتے رہیں گے
یونہی دور دورستارے چمکتے رہیں گے
یونہی دور دور
لیکن محبت
یہ کہہ رہی ہے
ہم دور ہی دور
اور دور ہی دور چلتے رہیں گے
خارجیت:۔
میراجی کو لوگ داخلیت ذدہ شاعر مانتے ہیں لیکن اُن کی پوری شاعری سمندر ، پہاڑ ، نیلا گہرا سمان، بل کھاتی ندیاں ، تالابوں ، جنگلوں ، چاند سورج اور ستاروں ، کاجل کی لکیر ، پھولوں کی سیج، سرسراتے ملبوس اور بدن کا لہو کی آگ کی شاعری ہے۔ میراجی کی نظموں کا منظر نامہ اتنا پھیلا ہوا اور متنوع ہے کہ اس پرداخلیت پسندی کا گزر ہی نہیں ہو سکتا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انہوں نے اس خارجی منظر نامے اور وسیع کینوس کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھا اور بیان کیا ہے۔ میراجی پر داخلیت پسندی اور بیمار ذہنیت کے الزامات وہ لوگ لگاتے ہیں جو میراجی کی نظموں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے۔ ورنہ میراجی کے ہاں داخل اور خارج کو جو توازن ملتا ہے وہ اردو شاعروں میں بہت کم ہے
یوں سامنے کچھ دور
چپ چاپ کھڑا ہے
آکاش کا پربت
اور چوٹی پہ اُس کی
ہے سوریہ کا مندر
اذّیت پسندی:۔
میراجی چونکہ بھگتی تحریک سے متاثر تھے لہٰذا بھگتی تحریک کا ایک اہم پہلو اذیت کوشی بھی ہے۔ لہٰذا میراجی کی نظموں میں اذیت پسندی کا رجحان بڑا واضح ہے۔ اس اذیت پسندی میں ایک پہلو محبت میں دوری اور مفارقت ہے۔ خود رادھا اور کرشن کی محبت میں لمحہ بھر کے ملاپ کے بعد ایک طویل مفارقت کا وقفہ آتا ہے جو آنے والے ملن کے لمحات کی شدت کو دو چند کر دیتا ہے ۔ میراجی کی نظموں میں دوری اور مفارقت کی اس کیفیت کی بہت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔
ایک تو ایک میں دور ہی دور ہیں
آج تک دور ہی دور ہر بات ہوتی رہی
دور ہی دور جیون گزر جائے گا اور کچھ بھی نہیں
ابہام:۔
جنسیت کے ساتھ ہی ابہام کا مسئلہ جڑاہوا ہے۔ جسے میراجی نے اپنے باغیانہ تصورات کے اظہار کے لئے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا۔ میراجی نے خود ایک جگہ لکھا ہے کہ
”’ میری نظموں کا نمایاں پہلو ان کی جنسی حیثیت ہے۔“
جنس کے بارے میں یہ بات واضح رہے کہ جنس ابہام کے پردوں میں چھپ کر ہی جمالیاتی سطح کو چھو سکتی ہے ۔ میراجی نے جب شاعری کا آغاز کیا تو اس وقت جنس کی بات کرنا مروجہ اخلاقیات کی سطح پر ایک ناپسندیدہ فعل تھا۔ اردو شاعری میں محبوب اس لئے مذکر تھا کہ پردہ نشین محبوب کے پردہ کا پورا خیال رکھا جائے۔ میراجی کے ہاں ابہام کی وجہ مغرب کے شعراءبودلیئر اور ملارمے کی تقلید بھی ہے۔ضمیر علی ایک جگہ لکھتے ہیں۔
” ملارمے کا اثر میراجی کی ادبی شخصیت کا اہم موڑ تھا ۔ ملارمے نے اسے ابہام کی فنی اہمیت سے روشنا س کیا۔“
یا د ہے اب بھی مجھ کان ہوئے تھے بیدار
خشک پتوں سے جب آئی تڑپنے کی صدا
اور دامن کی ہر اک لہر چمک اُٹھی تھی پڑ رہا تھا اُسی تلوار کا سایہ شائد
جو نکل آئی اک پل میں نہاں خانے سے
علامت نگاری:۔
جنسی مسائل اگر جوں کے توں بیان کر دیئے جائیں تو یہ اپنی اعلیٰ جمالیاتی قدروں کے ساتھ شعر میں نہیں کھپ سکتے ۔ چونکہ میراجی بیشتر اسی جنسی داشتہ کے گرد گھومتے رہے ہیں ۔ اس لئے علامت کا سہارا اشد ضروری تھا۔ انہیں علامتوں کی زبان آتی تھی بلکہ وہ علامتوں ہی کے شاعر تھے۔
چاند میراجی کی نظموں میں محبت کی علامت ہے۔ رات کی علامت میراجی کے ہاں جنسی جذبہ کی علامت ہے۔ اس کے مقابلے میں دن کی علامت غیر جنسی زندگی کی علامت ہے ۔ یعنی رات کے سائے کے مقابلہ پر دن کا سایہ پیدا ہوتا ہے۔ اسے جنس سے حقیقی تسکین حاصل نہیں ہوتی۔
رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہیں
رات اک بات ہے صدیوں کی، کئی صدیوں کی
یا کسی پچھلے جنم کی ہوگی
سمندرکی علامت بھی میراجی کو بہت محبوب ہے۔ اپنی ایک نظم دھوکا میں انہوں نے اسے استعمال کیاہے۔ سمندر غیر شخصی جذبہ ہے۔ جبکہ کنواں وہ جنسی جذبہ ہے جو شخصی ہو کر رہ جائے ۔ نظم کا موضوع ایک ایسی عورت ہے جو خود کو کنواں سمجھتی ہے مگر صحیح جنسی تجربے کے بعد وہ سمندر بن جاتی ہے۔
اتھاہ کائنات کے خیال کو غلط سمجھ رہے ہیں ہم ستاروں کی مثال
اتھا ہ کائنات اک کنواں نہیں یہ بحرہے
میراجی کے ہاں ایک اور علامت جنگل کی ہے جنگل وحدت کی بجائے کثرت کی علامت ہے ۔ اس کے علاوہ میراجی کے ہاں ساڑھی اور روزن بھی جنسی علامتیں ہےں۔ لیکن میراجی کے ہاں سورج ایک رقیب ہے۔ ”آمد صبح “ میں وہ لکھتا ہے۔
وہ لو سورج بھی اپنی سیج پر اب جاگ اُٹھا ہے
گئی رات اور دن آیا
کردار نگاری:۔
میراجی اپنی نظموں میں بعض اوقات کرداروں کو تخلیق کرتے ہیں جو کہ ایک ڈرامے یا افسانے کی طرح یہ کردار آگے بڑھتے ہیں اور اس نظم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کرداروں کا اثر نظم پر اول سے آخر تک ہوتا ہے۔ نظموں کے اندر بالکل کہانی کا سا انداز آجاتا ہے۔ ”کلرک کا نغمہ“ اس حوالے سے اس کا نمائندہ نظم ہے ۔
دنیا کے انوکھے رنگ ہیں
جو میرے سامنے رہتا ہے اس گھر میں گھر والی ہے
اور دائیں پہلو میں ایک منزل کا ہے مکاں ، وہ خالی ہے
اور بائیں جانب اک عیاش ہے جس کے ہاں ایک داشتہ ہے
اور ان سب میں اک میں بھی ہوں لیکن بس تو ہی نہیں
اسلوب:۔
ابہام میراجی کی شاعری کی نمایاں خصوصیت ہے اور ان کی انفرادیت کی سب سے بڑی پہچان ہے جو کہ ان کی بے باک عریاں نگاری کے لئے ایک لطیف پردے کا کام کرتاہے۔ اُن کا اصل رنگ انہیں نظموں میں نظر آتی ہے جن میں بیان کی لطیف پیچیدگی ہے۔ لیکن میراجی نے ایسی نظمیں بھی کہی ہیں جن کا اندازِبیاں واضح اور غیر مبہم ہے۔مثال کے طور پر کلرک کا نغمہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نظم کا موضوع غیر جنسی ہے۔،
سب رات میری سپنوں میں گزر جاتی ہے اور میں سوتا ہوں
پھر صبح کی دیوی آتی ہے
اپنے بستر سے اُٹھتا ہوں منہ دھوتا ہوں
لایا تھا کل جو ڈبل روٹی
اس میں سے آدھی کھائی تھی
باقی جو بچی وہ میرا آ ج کا ناشتہ ہے۔
میراجی کی اکثر نظمیں تصاویر یا مناظر کی حامل ہوتی ہیں۔ ان مناظر کی پیشکش میں میراجی ڈرامے کی تکنیک کا پورا پورا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ جبکہ خود کلامی یا تخاطب یا کسی واقعے کے بیان کے ذریعے ایک تاثر کو ابھارتے ہیں اور یکا یک منظر بدل کر نظم کو ایک نیا موڑ دے دیتے ہیں۔ جو زیادہ تر فلش بیک کی شکل میں ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر میراجی کی امیجری ،جوان کے اسلوب کی ایک نمایاں خصوصیت ہے ۔ اتنی دلکش ہوتی ہے کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
یہ بستی یہ جنگل یہ بہتے ہوئے راستے اور دریا یہ پربت
اچانک نگاہوں میں آتی ہوئی کوئی اونچی عمارت
یہ اجڑے ہوئے مقبر ے اور مرگ مسلسل کی صورت مجاور
یہ ہنستے ہوئے ننھے بچے
یہ گاڑی سے ٹکراکے مرتا ہوا کوئی اندھا مسافر
میراجی کے ہاں فارسی اور ہندی ذدہ اسلوب پایا جاتا ہے اُ ن کے اسلوب کے تین اہم سٹائل ہیں جن میں ہندی ، فارسی اور اردو سٹائل شامل ہیں۔ لیکن اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو کلیات میراجی کی ابتدائی نظموں پر ہندی سٹائل غالب ہے
دل بے چین ہوا رادھا کا کون اسے بہلائے گا؟
جمناتٹ کی بات تھی ہونی ، اب تو دیکھا جائے گا
چپکی سہے گی رنگ و رادھا جو بھی سر پر آئے گا
اودھو شیام پہیلی رہتی دنیا کو سمجھائے گا
میراجی کا ایک اور اسلوبی سٹائل فارسی کاہے۔ جہاں میراجی فلسفیانہ انداز اپناتا ہے وہاں وہ فارسی سے بہت زیادہ مدد لیتے ہیں۔
میں تجھے جان گیا روح ِ ابد
تو تصور کی تمازت کے سوا کچھ بھی نہیں
چشم ظاہر کے لئے خوف کا سنگیں مرقد
اور مرے دل کی حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
اور مرے دل میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
میراجی کی نظموں پر ”اردو سٹائل“ کے بھی بہت سے اثرات پائے جاتے ہیں ”آبگینے کے اس پار ایک شام“ ”دور کنارا“ ”مجھے گھر یاد آتاہے“ یگانگت۔ وغیرہ اسی سٹائل کی نمائندہ نمائندہ نظمیں ہیں۔
زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے
فقط اک تسلسل کا جھولا رواں ہے
یہ میں کہہ رہا ہوں
مجموعی جائزہ:۔
جہاں تک اردو نظم کا تعلق ہے۔ میراجی کی حیثیت منفر اور یکتا ہے۔ اردو نظم گو شعراءمیں سے شائد ہی کسی نے اپنے موضوع سے اس قسم کی جذباتی وابستگی ، شغف اور زمین سے ایسے گہرے لگائو کا ثبوت بہم پہنچایا جیسا کی میراجی کے ہاں نظر آتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں میراجی کی شاعری نے اس کی اپنی جنم بھومی سے خون حاصل کیا۔ اور اسی لئے اس میں زمین کی خوشبو ، حرارت اور رنگ نمایاں ہے۔ میراجی کی عظمت بڑی حد تک اس کے اسی رحجان کے باعث ہے۔ پھر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ میراجی کے بعد آنے والے بہت سے نظم گو شعراءنے میراجی سے بڑے واضح اثرات قبول کئے ہیں اور اس کی علامتوں ، اشاروں سوچنے کے خاص انداز اور بیان کے مخصوص پیرائے کو پیش نظر رکھا ہے۔ چنانچہ اردو نظم کا وہ طالب علم جس نے میراجی کی نظموں کا مطالعہ کیا ہے۔ بڑی آسانی سے جدید نظم گو شعراءکے ہاں میراجی کے اثرات کی نشان دہی کر سکتا ہے۔ دراصل میراجی نے خاص رجحان کے تحت اردو نظم کو ایک نئے مزاج اور ایک نئے ذائقے سے آشنا کیا ۔ اور نظم کے دھارے کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔
بقول سر سہیل ”میرا جی کو سمجھنے کے لئے انسان کو میراجی بننا پڑتا ہے۔“
ترقی پسند تحریک کے زور و شور کے زمانے میں 1939ءمیں حلقہ ارباب ذوق کا قیام عمل میں آیا۔ مجموعی طور پر حلقہ ترقی پسند تحریک کا ردعمل تو نہ تھا۔ لیکن دونوں کے ادبی رویے مختلف ضرور تھے۔ حلقہ کے لوگ عصری شعور رکھتے تھے لیکن وہ ادب میں یک رنگی کے قائل نہ تھے وہ انسان کو اس کی کلیت کے حوالے سے دیکھنا اور سمجھنا چاہتے تھے۔ اسی طرح ادب کے مطالعے سے بھی وہ کسی مخصوص نقطہ نظر تک محدود نہ تھے۔ حلقہ اربابِ ذوق کے شاعروں کی اصل شناخت ان کی نظم نگاری ہے۔ ان حضرات نے قدیم روایت سے انحراف کرتے ہوئے نظم کے مروجہ تصور میں بھی تبدیلی پیدا کی جو ان کے نظریہ شعر سے پوری طرح ہم آہنگ تھی۔ ٦٣٩١ءکے آس پاس شعر ی موضوعات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نظم کی ہیت میں بھی تبدیلی واقع ہوئی اس دوران آزاد نظم کی ہیئت کو مقبولیت ملی۔ حلقہ کے شاعروں نے اس ہیئت کو کچھ اس طرح برتا کہ اسے تحریک کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ ن۔م راشداور تصدق حسین خالد کو آزاد نظم کا بانی کہا جاتا ہے۔ لیکن آزاد نظم میں ایک بہت ہی مقبول نام ”میراجی “ کابھی ہے۔
میراجی ، جن کا اصل نام محمد ثنا اللہ تھا ۔ منشی محمد مہتاب الدین کے ہاں ٥٢ مئی ٢١٩١ءکو لاہور میں پیداہوئے۔ پہلے ”ساحری“ تخلص کرتے تھے۔ لیکن ایک بنگالی لڑکی ”میراسین“ کےیک طرفہ عشق میں گرفتار ہو کر ”میراجی“ تخلص اختیار کر لیا۔ میراجی کی ذات سے ایسے واقعات وابستہ ہیں کہ ان کی ذات عام آدمی کے لئے ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔ اُن کا حلیہ اور ان کی حرکات و سکنات ایسی تھیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا انہوں نے سلسلہ ملامتیہ میں بیعت کر لی ہے۔ لمبے لمبے بال ،بڑی بڑی مونچھیں ، گلے میں مالا ، شیروانی پھٹی ہوئی، اوپر نیچے بیک وقت تین پتلونیں، اوپر کی جب میلی ہوگئی تو نیچے کی اوپر اور اوپر کی نیچے بدل جاتی۔ شیروانی کی دونوں جیبوں میں بہت کچھ ہوتا۔ کاغذوں اور بیاضوں کا پلندہ بغل میں دابے بڑی سڑک پر پھرتا تھااور چلتے ہوئے ہمیشہ ناک کی سیدھ میں دیکھتا تھا۔ وہ اپنے گھر اپنے محلے اور اپنی سوسائٹی کے ماحول کو دیکھ دیکھ کر کڑتا تھا اس نے عہد کر رکھا تھا کہ وہ اپنے لئے شعر کہے گا۔ صرف ٧٣ سال کی عمر میں ٣ نومبر 1949ءکو مرگئے۔ اس مختصر سی عمر میں میراجی کی تصانیف میں ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ”اس نظم میں “”نگار خانہ“”خیمے کے آس پاس“ شامل ہیں۔ جبکہ میراجی کی نظمیں ، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ بھی شاعر ی کے مجموعے ہیں، آئیے میراجی کی شاعری کی فکری اور فنی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں،
مغربی شعراءکا اثر:۔
میراجی فرانس کے ایک آوارہ شاعر ”چارلس بودلئیر“ سے بہت متاثر تھے۔ بودلیئر دوستوں کو دشمن بنانے میں یدطولیٰ رکھتا تھا ۔ میراجی بھی ان سے کم نہ تھے۔ ”مشرق و مغرب کے نغمے“ میں میراجی نے بودلئیر کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے کئی نظمیں اپنی ذات کے لئے لکھی ہیں۔ میراجی کی ابتدائی دور کی شاعری اپنی ذات کے لئے ہے۔ بودلیئر کے بارے میں میراجی نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ لاشعور کا شاعر تھا وہ نئے احساسات ، نئے لہجے ، نئے انداز بیاں اور نئی زبان کا شاعر تھا۔ یہی کام میراجی نے بھی کیا
اس کے علاوہ وہ امریکہ کے تخیل پرست شاعر ”ایڈ گر ایلن پو “ سے بہت زیادہ متاثر ہیں ۔ اُس کی بیوی اُس کے لئے ایک ایسا سایہ بن جاتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور میراجی کے ہاں بھی ”سایہ “ کی علامت بار بار آتی ہے۔”پو“عورت کے بجائے عورت کے تصور کی پوجا کرتا تھا۔ میراجی کی شاعر ی کے بارے میں نقادوں نے لکھا ہے کہ میراجی کو تصور سے پیار ہے۔ تصور میراجی کا آدرش ہے۔ منظر بھی منظر بن کر نہیں تصور بن کر ان کی شاعر ی میں آتا ہے۔
ویشنو مت یا ہندو مت کا اثر:۔
میراجی کی نظموں میں وشنو مت کے بہت زیادہ اثرات ہیں۔ ویشنو بھگتی تحریک دراصل قدیم ہندوستان کے تہذیبی ابال کی ایک صورت تھی۔ جو براہمنوں کی اجارہ داری کے مقابلے میں ذات پات کو ختم کرنے کے رجحان آریائوں کے خاص مذہبی روایات کے مقابلے میں زمین کی زرخیزی سے متعلق دیوتائوں اور اوتاروں کی تخلیق اور سنسکرت کے مقابلے میں دیس کی اپنی بولیوں کے احیاءمیں ڈھل کر نمودار ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے ہندوستا ن نے اسے قبول کرلیا۔
یہ تحریک دکن سے شروع ہوئی او ر شمالی ہند میں اس نے خوب ترقی کی راما نند ، کبیر اور تلسی داس نے بھگتی کی اس تحریک کو پروان چڑھایا۔ اس تحریک سے پہلے رام اور سیتا کی پوجا ہوتی تھی۔ لیکن ان لوگوں نے کرشن اور رادھا کی پوجا شروع کی اور اپنی شاعری میں اُسے جگہ دی۔جو کہ ایک ناجائز معاشقے کی داستان ہے۔
میراجی کی نظموں کے مطالعہ کے سلسلے میں ویشنو بھگتی تحریک کے دو پہلو زیادہ اہم ہیں۔ ان میں ایک تو کرشن اور رادھا کی محبت سے متعلق ہے۔ کرشن ایک چرواہا تھا اور رادھا ایک بیاہتا شہزادی تھی اور ان کی محبت ملن اور سنجوک سے کہیں زیادہ فراق اور دوری اور مفارقت کی محبت تھی۔ پھر جہاں ملن کے سمے آتے تھے وہاں کہانی کا وہ پہلو زیادہ نمایاں ہوتا تھا جسے”مدھر“ کا نام دیا گیا ہے اور جو دراصل مرد اور عورت کی ناجائز جنسی محبت کے والہانہ پن اور شدت کو اجاگر کرتا ہے۔دوسرا پہلو ”کالی“ اور ”شو“ سے متعلق ہے اور اس نے جنسی علامتوں علامتوں کے بارے میں میرا جی کا خوب ساتھ دیا ہے۔ویشنو مت بھگتی تحریک کے تصورات میں جنسی پہلو بڑی شدت کے ساتھ اجاگر ہوا ہے۔ اور میراجی کی نظموں میں جنسی پہلو کو نمایاں کرنے کی دھن دراصل ویشنو بھگتی تحریک کے ان اثرات کا نتیجہ ہے۔
جنسی حوالہ:۔
میراجی کی شاعر ی میں جنسی پہلو وشنو بھگتی تحریک کے ان اثرات کا نتیجہ ہے جو دراصل مرد اور عورت کی ناجائز جنسی محبت کے والہانہ پن اور شدت کو اجاگر کرتا ہے۔ ”مدھر“ میں جنسی ملاپ کی پوری عکاسی ہوتی ہے۔ کالی اور شو کے حوالے سے جنسی علاقوں کی پوجا ہندومت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ لہذا ان دونوں رجحانات کو میراجی کی شاعری میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ”حرامی “ ،”دوسری عورت“، ”دور کنارا“ ، ”ایک نظم“ ، ”عدم کا خلا“ اور ”دور نزدیک“ کے علاوہ کئی نظموں میں جنسی آزادہ روی ، جنسی تعلقات کا موضوع ملتا ہے۔عورت اُن کی مکمل کمزوری نہیں وہ اپنی نظم ”خود نفسی“ میں محرومی سے بچنے کا ایک اور راستہ ”خود لذتی“ کی صورت میں تلاش کر لیتے ہیں۔
جوانی میں ساتھ ہے جو اضطراب
نہیں کوئی اس کا علاج
مگر ایک عورت
کھلے جب نہ مجھ پر وسیلوں کے باب
ملے جب نہ چاہت کا تاج
تو پھر کیا کروں میں
عورت اور مر د کی محبت میں جنسی پہلو کو نمو، ناجائز جنسی تعلقات اور اس کے سراہنے کی روش میراجی کی نظموں میں عام ہے۔ مثلاً میراجی کی نظم”حرامی“ میں شاعر نے ناجائز جنسی تعلقات کے ثمر کو زندگی کا حاصل قرار دیاہے۔ میراجی نے ناجائز محبت کے ضمن میں عام سماجی ردعمل کو قطعاً نظر انداز کر دیا ہے۔
قدرت کے پرانے بھیدوں میں جو بھید چھپائے چھپ نہ سکے
اس بھید کی تو رکھوالی ہے
اپنے جیون کے سہارے کو اس جگ میں اپنا کر نہ سکی
یہ ہے کوئی دن آئے گا وہ نقش بنانے والی ہے
میں تھکا ماندہ مسافر ہوں چلا جائوں گا
اک گھڑی راہ میں تم مجھ کو بسر کرنے دو
تصّور:۔
بقول ڈاکٹر جمیل جالبی
” میراجی کی شاعری میں چیزیں نہیں بلکہ چیزوں کا تصور ملتا ہے ۔ انہیں عورت سے زیادہ عورت کا تصور عزیز ہے۔ منظر بھی منظر بن کر نہیں بلکہ تصور بن کر ان کی شاعر ی میں آٹا ہے۔“
میراجی کی بدنام زمانہ نظم ”لب جوئبارے“ میں اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو،
ایک ہی پل کے لئے بیٹھ کے پھر اُٹھ بیٹھی
آنکھ نے صرف یہ دیکھا کہ نشستہ بت ہے
پھر بصارت کو نہ تھی تاب کہ وہ دیکھ سکے کیسے تلوار چلی کےسے زمیں کا سینہ
ایک لمحے کے لئے چشمے کی مانند بنا
میراجی کو اشیا ءسے زیادہ ان کے تصور عزیز تھے خود میراسین بھی ایک تصور ہی ہے۔ بہت سے نقاد میراسین کو میراجی کی نظموں کا لاشعوری موڑ قرار دیتے ہیں۔ لیکن میراسین کا وجود میراجی کے ہاں ایک شعوری وجود سے زیادہ کچھ نہیں ۔ تصور سے بھرپور نظمیں ہمیں میراجی کے ہاں ملتی ہیں۔ جن میں ”دکھ دل کا دارو“ ”سنجوک“، ”ایک عورت“ ”اجنبی انجان عورت“، ”لب جوئبارے“ ، ”افتاد“ ، ”محبت“ ، ”دھوکہ“، شامل ہیں
سفید بازو گداز اتنے
زباں تصور میں حظ اُٹھائے
اور انگلیاں بڑھ کے چھونا چاہیں مگر انہیں برق ایسی لہریں
سمٹتی مٹھی کی شکل دے دیں
ماضی پرستی:۔
میراجی ماضی پرست انسان ہیں۔ وہ ٹھوس حقائق سے آنکھیں بند کرکے دیومالائی عہد میں زندہ رہنا چاہتا ہے۔ مگر یہ رائے مکمل طور پر درست بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اندھیرے اور اجالے کے تضاد اور تصادم کو جو احساس عام ذہن کے لئے قابل ِ قبول سچائی ہے۔ میراجی اس سے گریز نہیں کرتے ۔ میراجی کے ہاں یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزم کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں ۔ اس لئے کہ کہ میراجی ماضی پرست ہونے کے ساتھ ساتھ جدید خیالات ، اور احساس کابھی خیرمقدم کرتا ہے۔
جہاں میں اور بھی تھے مجھ سے تم سے بڑھ کے کہیں
جو اجنبی تھے جنہیں اجنبی ہی رہنا تھا
دوری:۔
میراجی ہر چیز کو دور کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہو گئے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی محبوبہ میرا سین کو بھی اس نے اتنی دور سے دیکھا کہ اس کا کوئی واضح نقش اس کی نظم میں نہیں ابھر سکا۔ اُس نے میراسین کو ماضی کی دھندلکوں میں دھکیل دیا ۔ اور پھر وہ کہیں رادھا بنی ، کہیں بادل ، کہیں دریا، کہیں ندی۔
میراجی کو دوری ہی میں حسن نظر آتا ہے۔ اس دور ی نے ہجر کے کرب ناک لمحوں کو بھی جنم دیا جو کہ ناقابل برداشت تھے لیکن ایسا خال خال ہی ہوا ہے۔ بےشتر جگہوں پر دوری کے احسا س کو لے کر میراجی نے خوبصورت شعری پیکر تراشے ہیں ۔ جن کی کوئی مثال اردو شاعری میں نہیں نظر آتی۔
ترا دل دھڑکتا رہے گا
مرا دل دھڑکتا رہے گا
مگر دور دور
زمیں پر سہانے سمے آتے جاتے رہیں گے
یونہی دور دورستارے چمکتے رہیں گے
یونہی دور دور
لیکن محبت
یہ کہہ رہی ہے
ہم دور ہی دور
اور دور ہی دور چلتے رہیں گے
خارجیت:۔
میراجی کو لوگ داخلیت ذدہ شاعر مانتے ہیں لیکن اُن کی پوری شاعری سمندر ، پہاڑ ، نیلا گہرا سمان، بل کھاتی ندیاں ، تالابوں ، جنگلوں ، چاند سورج اور ستاروں ، کاجل کی لکیر ، پھولوں کی سیج، سرسراتے ملبوس اور بدن کا لہو کی آگ کی شاعری ہے۔ میراجی کی نظموں کا منظر نامہ اتنا پھیلا ہوا اور متنوع ہے کہ اس پرداخلیت پسندی کا گزر ہی نہیں ہو سکتا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انہوں نے اس خارجی منظر نامے اور وسیع کینوس کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھا اور بیان کیا ہے۔ میراجی پر داخلیت پسندی اور بیمار ذہنیت کے الزامات وہ لوگ لگاتے ہیں جو میراجی کی نظموں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے۔ ورنہ میراجی کے ہاں داخل اور خارج کو جو توازن ملتا ہے وہ اردو شاعروں میں بہت کم ہے
یوں سامنے کچھ دور
چپ چاپ کھڑا ہے
آکاش کا پربت
اور چوٹی پہ اُس کی
ہے سوریہ کا مندر
اذّیت پسندی:۔
میراجی چونکہ بھگتی تحریک سے متاثر تھے لہٰذا بھگتی تحریک کا ایک اہم پہلو اذیت کوشی بھی ہے۔ لہٰذا میراجی کی نظموں میں اذیت پسندی کا رجحان بڑا واضح ہے۔ اس اذیت پسندی میں ایک پہلو محبت میں دوری اور مفارقت ہے۔ خود رادھا اور کرشن کی محبت میں لمحہ بھر کے ملاپ کے بعد ایک طویل مفارقت کا وقفہ آتا ہے جو آنے والے ملن کے لمحات کی شدت کو دو چند کر دیتا ہے ۔ میراجی کی نظموں میں دوری اور مفارقت کی اس کیفیت کی بہت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔
ایک تو ایک میں دور ہی دور ہیں
آج تک دور ہی دور ہر بات ہوتی رہی
دور ہی دور جیون گزر جائے گا اور کچھ بھی نہیں
ابہام:۔
جنسیت کے ساتھ ہی ابہام کا مسئلہ جڑاہوا ہے۔ جسے میراجی نے اپنے باغیانہ تصورات کے اظہار کے لئے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا۔ میراجی نے خود ایک جگہ لکھا ہے کہ
”’ میری نظموں کا نمایاں پہلو ان کی جنسی حیثیت ہے۔“
جنس کے بارے میں یہ بات واضح رہے کہ جنس ابہام کے پردوں میں چھپ کر ہی جمالیاتی سطح کو چھو سکتی ہے ۔ میراجی نے جب شاعری کا آغاز کیا تو اس وقت جنس کی بات کرنا مروجہ اخلاقیات کی سطح پر ایک ناپسندیدہ فعل تھا۔ اردو شاعری میں محبوب اس لئے مذکر تھا کہ پردہ نشین محبوب کے پردہ کا پورا خیال رکھا جائے۔ میراجی کے ہاں ابہام کی وجہ مغرب کے شعراءبودلیئر اور ملارمے کی تقلید بھی ہے۔ضمیر علی ایک جگہ لکھتے ہیں۔
” ملارمے کا اثر میراجی کی ادبی شخصیت کا اہم موڑ تھا ۔ ملارمے نے اسے ابہام کی فنی اہمیت سے روشنا س کیا۔“
یا د ہے اب بھی مجھ کان ہوئے تھے بیدار
خشک پتوں سے جب آئی تڑپنے کی صدا
اور دامن کی ہر اک لہر چمک اُٹھی تھی پڑ رہا تھا اُسی تلوار کا سایہ شائد
جو نکل آئی اک پل میں نہاں خانے سے
علامت نگاری:۔
جنسی مسائل اگر جوں کے توں بیان کر دیئے جائیں تو یہ اپنی اعلیٰ جمالیاتی قدروں کے ساتھ شعر میں نہیں کھپ سکتے ۔ چونکہ میراجی بیشتر اسی جنسی داشتہ کے گرد گھومتے رہے ہیں ۔ اس لئے علامت کا سہارا اشد ضروری تھا۔ انہیں علامتوں کی زبان آتی تھی بلکہ وہ علامتوں ہی کے شاعر تھے۔
چاند میراجی کی نظموں میں محبت کی علامت ہے۔ رات کی علامت میراجی کے ہاں جنسی جذبہ کی علامت ہے۔ اس کے مقابلے میں دن کی علامت غیر جنسی زندگی کی علامت ہے ۔ یعنی رات کے سائے کے مقابلہ پر دن کا سایہ پیدا ہوتا ہے۔ اسے جنس سے حقیقی تسکین حاصل نہیں ہوتی۔
رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہیں
رات اک بات ہے صدیوں کی، کئی صدیوں کی
یا کسی پچھلے جنم کی ہوگی
سمندرکی علامت بھی میراجی کو بہت محبوب ہے۔ اپنی ایک نظم دھوکا میں انہوں نے اسے استعمال کیاہے۔ سمندر غیر شخصی جذبہ ہے۔ جبکہ کنواں وہ جنسی جذبہ ہے جو شخصی ہو کر رہ جائے ۔ نظم کا موضوع ایک ایسی عورت ہے جو خود کو کنواں سمجھتی ہے مگر صحیح جنسی تجربے کے بعد وہ سمندر بن جاتی ہے۔
اتھاہ کائنات کے خیال کو غلط سمجھ رہے ہیں ہم ستاروں کی مثال
اتھا ہ کائنات اک کنواں نہیں یہ بحرہے
میراجی کے ہاں ایک اور علامت جنگل کی ہے جنگل وحدت کی بجائے کثرت کی علامت ہے ۔ اس کے علاوہ میراجی کے ہاں ساڑھی اور روزن بھی جنسی علامتیں ہےں۔ لیکن میراجی کے ہاں سورج ایک رقیب ہے۔ ”آمد صبح “ میں وہ لکھتا ہے۔
وہ لو سورج بھی اپنی سیج پر اب جاگ اُٹھا ہے
گئی رات اور دن آیا
کردار نگاری:۔
میراجی اپنی نظموں میں بعض اوقات کرداروں کو تخلیق کرتے ہیں جو کہ ایک ڈرامے یا افسانے کی طرح یہ کردار آگے بڑھتے ہیں اور اس نظم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کرداروں کا اثر نظم پر اول سے آخر تک ہوتا ہے۔ نظموں کے اندر بالکل کہانی کا سا انداز آجاتا ہے۔ ”کلرک کا نغمہ“ اس حوالے سے اس کا نمائندہ نظم ہے ۔
دنیا کے انوکھے رنگ ہیں
جو میرے سامنے رہتا ہے اس گھر میں گھر والی ہے
اور دائیں پہلو میں ایک منزل کا ہے مکاں ، وہ خالی ہے
اور بائیں جانب اک عیاش ہے جس کے ہاں ایک داشتہ ہے
اور ان سب میں اک میں بھی ہوں لیکن بس تو ہی نہیں
اسلوب:۔
ابہام میراجی کی شاعری کی نمایاں خصوصیت ہے اور ان کی انفرادیت کی سب سے بڑی پہچان ہے جو کہ ان کی بے باک عریاں نگاری کے لئے ایک لطیف پردے کا کام کرتاہے۔ اُن کا اصل رنگ انہیں نظموں میں نظر آتی ہے جن میں بیان کی لطیف پیچیدگی ہے۔ لیکن میراجی نے ایسی نظمیں بھی کہی ہیں جن کا اندازِبیاں واضح اور غیر مبہم ہے۔مثال کے طور پر کلرک کا نغمہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نظم کا موضوع غیر جنسی ہے۔،
سب رات میری سپنوں میں گزر جاتی ہے اور میں سوتا ہوں
پھر صبح کی دیوی آتی ہے
اپنے بستر سے اُٹھتا ہوں منہ دھوتا ہوں
لایا تھا کل جو ڈبل روٹی
اس میں سے آدھی کھائی تھی
باقی جو بچی وہ میرا آ ج کا ناشتہ ہے۔
میراجی کی اکثر نظمیں تصاویر یا مناظر کی حامل ہوتی ہیں۔ ان مناظر کی پیشکش میں میراجی ڈرامے کی تکنیک کا پورا پورا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ جبکہ خود کلامی یا تخاطب یا کسی واقعے کے بیان کے ذریعے ایک تاثر کو ابھارتے ہیں اور یکا یک منظر بدل کر نظم کو ایک نیا موڑ دے دیتے ہیں۔ جو زیادہ تر فلش بیک کی شکل میں ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر میراجی کی امیجری ،جوان کے اسلوب کی ایک نمایاں خصوصیت ہے ۔ اتنی دلکش ہوتی ہے کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
یہ بستی یہ جنگل یہ بہتے ہوئے راستے اور دریا یہ پربت
اچانک نگاہوں میں آتی ہوئی کوئی اونچی عمارت
یہ اجڑے ہوئے مقبر ے اور مرگ مسلسل کی صورت مجاور
یہ ہنستے ہوئے ننھے بچے
یہ گاڑی سے ٹکراکے مرتا ہوا کوئی اندھا مسافر
میراجی کے ہاں فارسی اور ہندی ذدہ اسلوب پایا جاتا ہے اُ ن کے اسلوب کے تین اہم سٹائل ہیں جن میں ہندی ، فارسی اور اردو سٹائل شامل ہیں۔ لیکن اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو کلیات میراجی کی ابتدائی نظموں پر ہندی سٹائل غالب ہے
دل بے چین ہوا رادھا کا کون اسے بہلائے گا؟
جمناتٹ کی بات تھی ہونی ، اب تو دیکھا جائے گا
چپکی سہے گی رنگ و رادھا جو بھی سر پر آئے گا
اودھو شیام پہیلی رہتی دنیا کو سمجھائے گا
میراجی کا ایک اور اسلوبی سٹائل فارسی کاہے۔ جہاں میراجی فلسفیانہ انداز اپناتا ہے وہاں وہ فارسی سے بہت زیادہ مدد لیتے ہیں۔
میں تجھے جان گیا روح ِ ابد
تو تصور کی تمازت کے سوا کچھ بھی نہیں
چشم ظاہر کے لئے خوف کا سنگیں مرقد
اور مرے دل کی حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
اور مرے دل میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
میراجی کی نظموں پر ”اردو سٹائل“ کے بھی بہت سے اثرات پائے جاتے ہیں ”آبگینے کے اس پار ایک شام“ ”دور کنارا“ ”مجھے گھر یاد آتاہے“ یگانگت۔ وغیرہ اسی سٹائل کی نمائندہ نمائندہ نظمیں ہیں۔
زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے
فقط اک تسلسل کا جھولا رواں ہے
یہ میں کہہ رہا ہوں
مجموعی جائزہ:۔
جہاں تک اردو نظم کا تعلق ہے۔ میراجی کی حیثیت منفر اور یکتا ہے۔ اردو نظم گو شعراءمیں سے شائد ہی کسی نے اپنے موضوع سے اس قسم کی جذباتی وابستگی ، شغف اور زمین سے ایسے گہرے لگائو کا ثبوت بہم پہنچایا جیسا کی میراجی کے ہاں نظر آتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں میراجی کی شاعری نے اس کی اپنی جنم بھومی سے خون حاصل کیا۔ اور اسی لئے اس میں زمین کی خوشبو ، حرارت اور رنگ نمایاں ہے۔ میراجی کی عظمت بڑی حد تک اس کے اسی رحجان کے باعث ہے۔ پھر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ میراجی کے بعد آنے والے بہت سے نظم گو شعراءنے میراجی سے بڑے واضح اثرات قبول کئے ہیں اور اس کی علامتوں ، اشاروں سوچنے کے خاص انداز اور بیان کے مخصوص پیرائے کو پیش نظر رکھا ہے۔ چنانچہ اردو نظم کا وہ طالب علم جس نے میراجی کی نظموں کا مطالعہ کیا ہے۔ بڑی آسانی سے جدید نظم گو شعراءکے ہاں میراجی کے اثرات کی نشان دہی کر سکتا ہے۔ دراصل میراجی نے خاص رجحان کے تحت اردو نظم کو ایک نئے مزاج اور ایک نئے ذائقے سے آشنا کیا ۔ اور نظم کے دھارے کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔