بخاری شریف اور حدیث رسول صلعم کے متعلق کچھ معلومات

فرید احمد

محفلین
اپنے عنوان کے لحاظ سے اس پوسٹ کو سیرت سرور کائنات میں ہونا چاہیے ، مگر چونکہ مذکور باتیں فاروق سرور خاں صاحب کے جاری مذاکرہ کا حصہ ہیں ، پس اس فریق کے نزدیک یہ باتیں تاریخ تو یقینا ہے ۔

یہ باتیں " اسلام کو نہیں ، مسلمانوں کو درپیش چیلنج " میں ایک ضمنی بحث میں آگئیں ، مگر چونکہ معلومات اس عنوان سے الگ اور مستقل حیثیت ہیں اس لیے یہاں نقل کرتا ہوں ، اور مزید معلومات بھی اسی پر پیش کر دوں گا۔

پہلے فاروق صاحب کا وہ پورا اقتباس جو میرے ان جوابات کی بنیاد ہے
فرید احمد صاحب - شکریہ، مفید معلومات کا اور مفید خیالات کا۔ اس مضمون کا لہجہ نرم ہے اور آپ کے بیان سے جو سوالات جنم لیتے ہیں درج کئے ہیں۔

میرا بیان:
1۔میری ذاتی ریسرچ کے مطابق اصل کتاب بخاری کا سراغ‌نہیں ملتا، لہذا اصل کتاب کی غیر موجودگی میں امام بخاری کسی بھی الزام سے مبراء ہے۔

2۔ صحیح بکاری کی طرح، بیشتر کتب روایات، کئی کتب سے مل کر وجود میں آئی ہیں۔ یہ علم واعلام پر ضرور مبنی ہیں لیکن کسی بھی تصنیف میں یہ روایات رسول اللہ کے اقوال کے مطابق قرآن کی روشنی میں پرکھے جانے ضروری ہیں۔
3۔ یہ کتب روایات مسلم ایمان کا حصہ نہیں، جیسا کہ کچھ حضرات مصر ہیں۔ اگر کوئی ایسا فرقہ ہے تو اس کا ایمان اس کے لئے۔


اقتباس:
اصلی پوسٹ بذریعہ فرید احمد
یہ صحیح بخاری کی شرحیں ہیں ، متن نہیں ۔۔۔۔۔
ان کی شناخت کے لیے ایک مستقل فن "اسمائ الرجال " کا ہے ، اس میں ہر ایک پیدائش ، وفات ، دینی حالت ، عقائد ، تعلیم و تعلم ، شیوخ و تلامذہ کی تفصیل ، مختصرا یا مفصلا ، درج ہے ۔

اس انفارمیشن پر شکریہ۔کیا آپ نے فراہم کیا ہوا لنک بھی دیکھا ؟ کیا اس لنک پر فراہم کی ہوئی معلومات درست ہیں؟ یہ لوگ کتب حدیث نیٹ پر بیچتے ہیں۔ اور سوالات کے جوابات بھی دیتے ہیں۔
میں خاص طور پر ان لوگوں کے اس بیان کی تصدیق کسی شخص سے چاہتا ہوں جو وثوق کے ساتھ یہ بتا سکیں کہ امام بخاری کی اصل کتاب ایک کتاب نہیں تھی بلکہ امام بخاری کی درجنوں کتابوں سے مل کر بنائی گئی؟
مزید یہ کہ کیا ان کتب روایات میں درج ذیل 4 قسم کی احادیث شامل ہیں؟
صحیح، حسن، ضعیف اور منکر اقسام کی احادیث
جیسا کہ اس اسٹور کا دعوی ہے؟


اقتباس:
اصلی پوسٹ بذریعہ فرید احمد
اس طرح یہ انہی حضرات کی روایت ۔۔۔۔ اگر کسی نے بخاری میں غلط طریقہ سے لکھی ہے تو دوسری کتابوں میں اس راوی کی حدیث سے صحیح الفاظ متعین ہو جاتے ہیں ۔

بہت شکریہ اس انفارمیشن کا۔

اقتباس:
اصلی پوسٹ بذریعہ فرید احمد
یہ اعتراض بالکل بے معنی اور بے وزن ہے کہ کتب احادیث 250 سال بعد لکھی گئی ہیں ،
اس لیے کہ ان مرتب کرنے والوں نے جن احادیث لی ہیں ، انہوں نے ان کئے حافظہ کی بنیاد پر لی ہیں ، ان حضرات نے اپنی راوی در راوی حافظہ سے محفوظ کی ہوئی روایات جمع کی ہیں ،

بہت شکریہ۔ تمام معلومات نسل در نسل حافظہ سے منتقل ہوتی رہیں۔ تمام روایات حافظہ میں رکھنے کا سلسلہ کب ختم ہوا؟

اقتباس:
اصلی پوسٹ بذریعہ فرید احمد
میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کو کسی کے حافظہ سے بیان کی ہوئی باتوں پر اعتماد ہے یا نہیں ؟
لگتا ہے آپ کے نزدیک حافظہ کا کوئی اعتبار ہی نہیں ۔
آخر کار فن اسماء الرجال ، کتب حدیث کی شرحیں ، اس پر طول طویل بحثیں اسی لیے لیں کہ حدیث کے نام پر کوئی دوسری خلاف اسلام بات در نہ آئے ۔۔

مجھے حافظے سے بتائی باتوں کے بتانے والے پر اعتماد نہیں۔ اس کی وجہ؟
1۔ سنی سنائی بات کی گواہی کی اہمیت قران سے ثابت نہیں۔
2۔ یہ سلسلہ اگر امام بخاری کی کتاب کی تصنیف کے بعد منقطع ہوا تو وہ 'اصل بخاری' کہاں ہے؟
3۔کسی کتب روایات کے حفظ کرنے کے اور اس عمل کے جاری رہنے کی روایت نہیں ملتی اور آج بھی یہ سلسہ موجود نہیں ہے۔
4۔ درج ذیل حدیث کیا قابل قبول ہے؟
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔


اقتباس:
اصلی پوسٹ بذریعہ فرید احمد
اس سے قبل ایک پوسٹ میں آپ نے ایک آیت کے ضمن میں کچھ حسابات درج کیے تھے ، کیوں پیش کیے ؟ کیا وہ قرآن کی طرح لازم ایمان ہیں ؟ اس کے بغیر قران فہمی ممکن نہیں ؟ اس کی حیثیت کیا ہے ؟ اس میں کوئی غلطی کا امکان ہے یا نہیں ؟

گو کہ یہ سوال کچھ مبہم ہے، وضاحت فرمائیے تو بہتر ہوگا۔ پوسٹ کا لنک فراہم کردیجئے۔

اگر آپ یہ کہنا چاھتے ہیں کہ انسانوں‌سے غلطی کا احتمال ہے تو آپ نے بالکل درست بات کی طرف اشارہ کیا کہ انسانوں کی تصنیف شدہ کوئی بات، کوئی کتاب، مسمان ایمان کا باعث نہیں۔

اپ کی پوسٹ سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں، یہ سوالات آپ کی آسانی کے لئے یکجا کردئے ہیں تاکہ آپ کو جواب دینے میں‌آسانی رہے۔ اور اس ہم، آپ کے علم سے مستفید ہو سکیں:

1۔ کیا امام بخاری کی اصل کتاب ایک کتاب نہیں تھی بلکہ صحیح بخاری، امام بخاری کی درجنوں کتابوں سے ملا کر بنائی گئی ہے؟
2۔ کیا اس اسٹور کا دعوی درست ہے کہ ان کتب روایات میں درج ذیل 4 قسم کی احادیث شامل ہیں؟ صحیح، حسن، ضعیف اور منکر اقسام کی احادیث ؟
3۔ کیا یہ کتب روایات، ہمارے ایمان کا حصہ ہیں یا انسانی علم و اعلام ہیں؟
4۔ اگر یہ کتب روایات ہمارے ایمان کا حصہ ہیں تو ان کو ہمارے ایمان کا حصہ کس نے بنایا؟ یہ حوالہ درکار ہے۔
5۔ تمام معلومات نسل در نسل حافظہ سے منتقل ہوتی رہیں۔ تمام روایات حافظہ میں رکھنے کا سلسلہ کب ختم ہوا؟

6۔ درج ذیل حدیث کیا قابل قبول ہے یا منسوخ شدہ ہے؟
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔

اقتباس:
1۔ 1میری ذاتی ریسرچ کے مطابق اصل کتاب بخاری کا سراغ‌نہیں ملتا، لہذا اصل کتاب کی غیر موجودگی میں امام بخاری کسی بھی الزام سے مبراء ہے۔

یہ سراسر غلط ہے ، اصل نسخہ ہونا ضروری نہیں ، نہ دنیا میں موجود تمام کتابوں کے اصل مسودات موجود ہیں ۔
اور رہی بات ایمان کی ، تو جناب وہ نسخہ قران ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کروایا تھا ، کس کے پاس ہے ؟ حضرت عثمان کا نسخہ آپ کو ملے گا، وہ حضرت عثمان کے دور میں جمع ہوا تھا ۔
میرے خیال سے یا تو یہ اعتراض بہت سطحی ہے یا پھر حدیث سے اپنے جہالت اور بلکہ دلی کدورت اور بعد کی وجہ سے آپ کو اس میں وزن معلوم ہوتا ہے ۔
قران میں ہے
ولا یجمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا
یعنی عدل کا دامن ہاتھ سے نہ جانے پاءے ۔


ا
قتباس:
2۔ صحیح بکاری کی طرح، بیشتر کتب روایات، کئی کتب سے مل کر وجود میں آئی ہیں۔ یہ علم واعلام پر ضرور مبنی ہیں لیکن کسی بھی تصنیف میں یہ روایات رسول اللہ کے اقوال کے مطابق قرآن کی روشنی میں پرکھے جانے ضروری ہیں۔
یہ کتابیں مختلف کتابوں سے نہیں بلکہ محدثین کی بیان کردہ احادیث کو جمع کرنے سے وجود میں آئی ہیں ، اور محدثین حدیثوں سند کے ساتھ کو اسی طرح بلفظہ یاد کرتے تھے ، جس طرح قران یاد کرتھے اور کرتے ہیں ، اج کتابوں میں سب کچھ ضبظ ہو جانے کے باوجود بھی بھی کسی اچھے مدرسے میں استاد حدیث کو جا کر سن لیں ، یا حرمین میں بعض معتبر اساتذہ حدیث کا درس دیتے ہیں ، ان کے درس حدیث میں شریک ہو لیں ، صفحات کے صفحات احادیث کے پڑھ سناتے ہیں ، اور وہ بھی اس وضاحت کے ساتھ اس حدیث کو فلاں نے فلاں نے ، اس نے فلاں سے تا آخر اور پھر ان میں ہر ایک راوی کے احوال اور سند کے اعتبار سے اس کی حالت کو بھی ۔ ہند و پاک میں بھی بحمد اللہ ایسے افراد موجود ہیں ۔

اقتباس:
3۔ یہ کتب روایات مسلم ایمان کا حصہ نہیں، جیسا کہ کچھ حضرات مصر ہیں۔ اگر کوئی ایسا فرقہ ہے تو اس کا ایمان اس کے لئے۔

میں نے پہلے آپ سے پوچھا تھا کہ نماز کا حکم قرآن میں ہے ، مگر اس کی رکعات کی تفصیل ، اوقات کی تفصیل ابتدا اور انتہائی وضاحت کے ساتھ ، طریقہ نماز وغیرہ باتیں قرآن میں نہیں ، اگر قرآن کے حکم صلوۃ پر ایمان ہے تو اس پر عمل کیسے ہوگا ؟ ان احادیث پر ایمان ضروری ہے جن میں حکم صلوۃ پر عمل کر نے کا طریقہ ہے ، یہی بات زکوۃ ، حج ، وغیرہ کے بارے میں ہے ، چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے ، قران میں " ید " کا لفظ ہے ، معنی ہے ہے " ہاتھ " کیا پورا ہاتھ بغل سے کاٹ دیا جائے ؟
قرآن میں زنا سے منع کیا ہے ، اس کی سزا ہے ، مگر جرم زنا کے ثبوت اور اور سزا کے اجرائ کا طریقہ کیا ہوگا ؟

قران میں ہے احل اللہ البیع و حرم الربو ، بیع اور ربا کو فرق کہاں سے معلوم ہوگا ؟ قرآن میں ہی کفار کا یہ قول ہے کہ " انما البیع مثل الربو " یعنی بیع کی ربا کی طرح حلال چیز ہے، ( کفار بیع کو ربا کی طرح درست کہتے تھے، نہ کہ ربا کو بیع کی طرح )
ایسے سینکروں مسائل ہے ، جو قران سے فرائض ہیں اور بدون احادیث ان پر عمل کرنا ممکن نہیں، اور قرآن پر ایمان کا مطلب یہ تو ہرگز آپ کے نزدیک نہ ہوگا کہ بس مان کہ نماز کا حکم ہے ۔ قرآن پر ایمان ہو گیا ۔ پڑھنے سے کوئی سروکار نہیں ۔

اقتباس:
اس انفارمیشن پر شکریہ۔کیا آپ نے فراہم کیا ہوا لنک بھی دیکھا ؟ کیا اس لنک پر فراہم کی ہوئی معلومات درست ہیں؟ یہ لوگ کتب حدیث نیٹ پر بیچتے ہیں۔ اور سوالات کے جوابات بھی دیتے ہیں۔
میں خاص طور پر ان لوگوں کے اس بیان کی تصدیق کسی شخص سے چاہتا ہوں جو وثوق کے ساتھ یہ بتا سکیں کہ امام بخاری کی اصل کتاب ایک کتاب نہیں تھی بلکہ امام بخاری کی درجنوں کتابوں سے مل کر بنائی گئی؟

میں نے لنک دیکھا ، میری انگریزی کمزور ہے ، سائٹ والوں سے ، اور مضمون نگار مفتی ابراہیم دیسائی سے واقف ہوں ، اس پر بکاری شریف کے بارے میں بالکل ابتدائی معلومات فراہم ہے ، میں تو کتب روایات پر تابڑتوڑ آپ کے حملوں کی وجہ سے سمجھتا تھا کہ آپ کو اس سے کہیں زیادہ بخاری کے بارے میں معلوم ہوگا ، خیر بتا دوں کہ " الجامع الصحیح للامام بخاری " ان کی مستقل تصنیف ہے ، متعدد کتابوں سے مرتب نہیں دی گئی ، امام بخاری کی اور بھی تصانیف ہے ، مثلا الادب المفرد، جز رفع یدین ، وغیرہ ۔ ہو سکتا ہے کہیں یہ لکھا ہو کہ یہ کتاب انہوں نے اتنے اجزاء پر مرتب کی تھی ،
پہلے زمانہ میں اور اج بھی یہ ہوتا تھا کہ مصنفین اپنے مسودہ کو مختلف اجزاء میں تقسیم کر لیتے ہیں ، تا کہ پورا مسودہ ہر جگہ لے کر پھرنا نہ پڑے ، ( بخاری نارمل سائز کے جدید کمیوٹر ٹائب کے بھی دو تین ہزار صفحات کی کتاب ہو سکتی ہے ، ) پس ان اجزاء کو کسی نے مختلف کتابیں قرار دے دی ۔


اقتباس:
مزید یہ کہ کیا ان کتب روایات میں درج ذیل 4 قسم کی احادیث شامل ہیں؟
صحیح، حسن، ضعیف اور منکر اقسام کی احادیث
جیسا کہ اس اسٹور کا دعوی ہے؟
اس کتاب میں درج قسم کی احادیث ہونے کی بات اس لنک پر نہیں کی گئی، بلکہ اس کے فٹ نوٹ میں ہونے کو کہا گیا ہے ، فٹ نوٹ سے یہ تو متعین ہے کہ اصل کتاب مراد نہیں ، یہ انگریزی لفظ ہے ، خیر اس کے دو مطلب ہے ، اس لنک پر یہ معلومات ہندستانی نسخے کی بیان کی گئی ہے ۔ بخاری کے ہندستانی نسخے بڑی سائز کے یعنی ڈیڑھ فٹ لمبے، ایک فٹ چوڑے ہوتے ہیں ، اس میں تین طرف حاشیہ ہوتا ہے ، ممکن ہے حاشیہ میں کسی نے ایسی احادیث نقل کی ہو ، ورنہ امام بخاری کی کتاب کا نام ہی " الجامع الصحیح " ہے ۔ امام بخاری کا طرز یہ ہے باب قائم کرکے اس کے ضمن میں احادیث پیش کرتے ہیں ، جیسے
باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقول الله جل ذكره { إنا أوحينا إليك كما أوحينا إلى نوح والنبيين من بعده }

[ 1 ] حدثنا الحميدي عبد الله بن الزبير قال حدثنا سفيان قال حدثنا يحيى بن سعيد الأنصاري قال أخبرني محمد بن إبراهيم التيمي أنه سمع علقمة بن وقاص الليثي يقول سمعت عمر بن الخطاب رضى الله تعالى عنه على المنبر قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه

اول اس میں عنوان ہے اور پھر حدیث پوری سند کے ساتھ ہے ۔

کبھی امام بخاری عنوان کے ساتھ کوئی قول رسول ذکر کرتے ہیں مگر اس کی سند بیان نہیں کرتے ۔ جیسے اس باب کو دیکھیں

باب المعاصي من أمر الجاهلية ولا يكفر صاحبها بارتكابها إلا بالشرك لقول النبي صلى الله عليه وسلم إنك امرؤ فيك جاهلية وقول الله تعالى { إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء }
[ 30 ] حدثنا سليمان بن حرب قال حدثنا شعبة عن واصل الأحدب عن المعرور قال لقيت أبا ذر بالربذة وعليه حلة وعلى غلامه حلة فسألته عن ذلك فقال إني ساببت رجلا فعيرته بأمه فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم يا أبا ذر أعيرته بأمه إنك امرؤ فيك جاهلية إخوانكم خولكم جعلهم الله تحت أيديكم فمن كان أخوه تحت يده فليطعمه مما يأكل وليلبسه مما يلبس ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم فأعينوهم

اس میں اولا باب کا عنوان ہے اور اس کے ساتھ حدیث النبي صلى الله عليه وسلم إنك امرؤ فيك جاهلية نقل کی ہے مگر سند نہیں ، البتہ اس کے بعد 30 نمبر کی حدیث پوری سند کے ساتھ ہے ۔

محققین ایسی احادیث کو جو باب کے تحت بلا سند ہے ، ان کو تعلیقات کہتے ہیں ، ایسی تعلیقات بعض ضعیف اور منکر ہیں ۔ مگر اس کی نشاندہی مکمل طور پر کر دی گئی ہے ۔

اور میں گذارش کروں گا کہ پہلے حسن ضعیف ، اور منکر کی تعریف بھی دیکھ لیں ۔

صحیح لذاتہ
جس کے تمام راوی "عادل " "تام الضبط " ہوں ، اس کی سند " متصل " ہو ، اور وہ " معلل " و" شاذ " نہ ہو ۔ ( عادل ، تام الضبطم متصل ، معلل اور شاذ پانچوں اصطلاحیں ہیں )


حسن لذاتہ
وہ حدیث جس کا کوءی راوی خفیف الضبط ہو ، البتہ صحیح لذاتہ باقی چار شرطیں اس میں موجود ہوں۔


ضعیف
یہ ایک عام اصطلاح ہیں ،
یعنی اس کے ضمن الگ الگ قسمیں شراءط کے اعتبار سے شامل ہوں گی پھر بھی اس کی وضاحت یہ ہے کہ
وہ حدیث ہے جس میں صحیح اور حسن کی شرطوں میں سے کوءی ایک یا سبھی شرطیں نہ پاءی جاءیں ۔
منکر
ضعیف راوی کی وہ روایت جو ثقہ کی روایت کے خلاف ہو
 

فرید احمد

محفلین
فرید احمد
یہ اعتراض بالکل بے معنی اور بے وزن ہے کہ کتب احادیث 250 سال بعد لکھی گئی ہیں ،
اس لیے کہ ان مرتب کرنے والوں نے جن احادیث لی ہیں ، انہوں نے ان کئے حافظہ کی بنیاد پر لی ہیں ، ان حضرات نے اپنی راوی در راوی حافظہ سے محفوظ کی ہوئی روایات جمع کی ہیں ،

فاروق صآحب :
بہت شکریہ۔ تمام معلومات نسل در نسل حافظہ سے منتقل ہوتی رہیں۔ تمام روایات حافظہ میں رکھنے کا سلسلہ کب ختم ہوا؟

اولا امام بخاری کا زمانہ درست کر لیں ، یہ فریب ہی کہا جاءے گا کہ امام بخاری کا زمانہ بیان کرنے کو آپ نے ان کا آخری زمانہ درج کیا ، ان کا زمانہ 194 تا 256 ہے ۔
امام مالک کا زمانہ 93 تا 179 ہے ۔
امام احمد بن حنبل 164 تا 241
اور تینوں ہی حدیث کی کتاب کے جمع کنندہ ہیں ۔
دونوں کتابیں اس وقت موجود ہیں ۔

تمام روایات حافظہ میں رکھنے کا سلسلہ کب ختم ہوا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی ختم نہیں ہوا ، آج بھی ہند و پاک اور عربستان کے مدارس میں جا کر دیکھ لیں یہ سلسلہ جاری ہیں ، ایسے افراد سعودیہ ، مصر و شام اور ہند و پاک میں اس وقت بھی ہیں جنہیں ہزاروں احادیث زبانی بلفظہ ، طوطی وار یاد ہیں ۔ میں اوپر بھی یہ لکھ دیا ہے ۔
ہاں اب اتنا ہے کہ یہ یاد رکھنے والے کتابوں کے حوالہ دیتے ہیں ، پہلے لوگ جن سے انہوں نے سنی ان کا حوالہ دیتے تھے ۔
 

فرید احمد

محفلین
فرید احمد
میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کو کسی کے حافظہ سے بیان کی ہوئی باتوں پر اعتماد ہے یا نہیں ؟
لگتا ہے آپ کے نزدیک حافظہ کا کوئی اعتبار ہی نہیں ۔
آخر کار فن اسماء الرجال ، کتب حدیث کی شرحیں ، اس پر طول طویل بحثیں اسی لیے لیں کہ حدیث کے نام پر کوئی دوسری خلاف اسلام بات در نہ آئے ۔۔
فاروق صاحب :
مجھے حافظے سے بتائی باتوں کے بتانے والے پر اعتماد نہیں۔ اس کی وجہ؟
1۔ سنی سنائی بات کی گواہی کی اہمیت قران سے ثابت نہیں۔

یہ کہنا کہ سنی سناءی باتو ں کی اہمیت قران سے ثابت نہیں ، قران سے جہل ہے ، بلکہ قران پر الزام ہے ، کیا قران یہ یہ کہتا ہے کہ کسی مسلمان کی بات کو اہمیت مت دو ،
یعنی کوئی شخص اپ کو تمہارے والد کے مرنے کی خبر دے ،
تمہاری تنخواہ کے زیادہ ہونے کی خبر دے ، نیوز چینل پر ریدر خبریں سنائے ، ریڈیو پر خبریں سناءی جاءیں تو اس کا اعتبار نہ کرو یا اہمیت مت دو ! ! !
فیا للعجب

قران میں ہے

اذا جاء کم فاسق بنبا فتبینوا ، ان تصیبوا قوما بجہالۃ فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین ۔

جب تمہارے پاس کوءی فاسق خبر لے کر اءے تو اس کی تحقیق کرو ( یہ جملہ بتاتا ہے کہ ینک ادمی کی بات قابل قبول ہے ) کہیں ایسا نہ ہو کہ نادانی سے کسی قوم کو تم نقصان پہنچادو ، پھر تم اپنے کیے پر نادم ہونے لگو ۔
( ترجمہ نہیں ، مطلب ادا کرنے کی کوشش کی ہے )

اگر تمہیں قران کے اس شکل میں ہونے اور اس کے جمع ترتیب و تدوین کے احوال کا علم ہوتا تو یہ اعتراض ہر گز نہ کرتے ۔ ذرا تدوین قران کی تاریخ پڑھ لیں ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اولا اپنے زمانہ میں حضرت عمر کے اصرار سے حضرت زید اور دیگر صحابہ کو بشمول حضرت عمر رضی اللہ عنہم مقرر کیا ، جو حفاظ تھے ، کہ لوگوں کے پاس لکھے قران اجزاء لے اءیں ، اور ہر ایک پر دو گواہ کہ اس نے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر لکھا ہے ، پھر یہ لوگ اس کا موازنہ اپنے حافظہ سے کرتے ۔ ایک دوسرے کے پاس سے آئے لکھے ہوئے مواد سے کرتے ، اور جمع قران میں صحابہ کی یاد داشتوں کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا ان کے لکھے ہوئے اجزاء کا ۔
پوری تفصیل کتابوں میں درج ہے ، ہواوں میں تیر چلانے سے ، یا عدم علم پر عدم وجود کا دعوی نہ کیا جاءے ۔

مختصرا کہوں تو قران بھی خدانے مکتوب نہیں دیا، جبریل نے رسول کو سنایا ، رسول نے صحابہ کو ، رسول نے خود نہیں لکھا یہ بھی متعین ہے ، اب اپ بیان کریں کہ کسی کی کہی اور کس کی سناءی باتیں ہیں اور ان کی اہمیت نہیں،
قران کا نام قران اس لیے ہے کہ وہ پڑھا جاتا ہے ، ( جو پڑھا جاتا ہے وہ سنا جاتاہے )
سورہ فاتحہ کو قران میں سبعا من المثانی ، بار بار پڑھی جانے والی کتاب کہا گیا ہے ،
رسول تلاوت ایات کرتے تھے،
دوسروں کی تعلیم کوئی بھی کرے بول کر اور سن کر ہوتی ہے ۔
اگر تم کو تمہارے والدین نے بتایا کہ تمہارا نام فلاں ہے ، تم نے اس کو سچ مان لیا ۔ فلاں تمہارا ماموں ، نانا دادا ہے تم نے مان لیا ۔
اس پر تو جتنا تم سوچوگے تم کو ہنسی ائے گی ۔
 

دوست

محفلین
شک کرنا ٹھیک ہے۔ لیکن ہٹ دھرمی الگ قسم کی چیز ہے۔
میں نے آج سے دو سال پہلے ایک کتاب پڑھی تھی "طلاق؟" صاحب کا نام یاد نہیں لیکن انھوں نے طلاق کے سلسلے کے سارے احکام براہ راست قرآن کریم کی آیات کے تراجم سے اخذ کیے۔ مجھے بڑا عجیب سا لگا۔ چونکہ وہ ایک جگہ ترجمے سے یہ ثابت کررہے تھے کہ طلاق ہوجانے کے بعد بھی جب چاہیں میاں بیوی نکاح کرسکتے ہیں۔ میری مراد تین طلاقوں کے بعد سے ہے۔ لیکن مجھے بڑا عجیب سا لگا تھا۔ بعد میں غور کیا تو انکشاف ہوا یہ صاحب قرآن سے ڈائریکٹ فیض لینے کے قائل ہیں۔
تب سے اب تک ایک بات پلے سے بندھی ہوئی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو بائی پاس کرکے قرآن کو سمجھنا ایک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ہے نعوذ بااللہ، دوسرے پھر رحمت زحمت بن جاتی ہے۔ کہیں کی بات کہیں جانکلتی ہے۔
ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی ایک بھی چیز خالص نہیں موجود۔ شاید دوسرے مذاہب کی طرح جنھوں نے اپنے انبیاء علیھم اسلام کی زندگیوں کو دیو مالا بنا ڈالا۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری طرح انسان کہا گیا ہے اور ان کی زندگی کا ایک ایک پل ہمارے سامنے موجود ہے۔
یہ حجت کرنا کہ جانے کیا کیا ہوگیا ہوگا، یہ ہوگیا ہوگا، وہ ہوگیا ہوگا دل کے مرض کی نشانی ہیں۔ ہونے کو تو کچھ بھی ہوسکتا ہے، لیکن ہستی وہ ہے جس پر کم از کم تمام مسلمان متفق ہیں۔۔صلی اللہ علیہ وسلم۔۔واقعہ کربلا پر میں یہ دلیل مان سکتا ہوں کہ اس میں ہر ایک نے من پسند انداز میں‌ تبدیلیاں‌ کرڈالی ہونگی ۔۔۔لیکن حدیث رسول کے سلسلے میں کبھی نہیں۔۔۔۔ہاں کچھ احادیث ہوسکتا ہے قرآن سے میل نہ کھاتی ہوں اور وہ یقینًا ضعیف ہیں جن پر کئی کئی بار تحقیق ہوچکی ہوگی۔۔۔سو ان کو نہ لیا جائے۔۔۔لیکن یہ کیا کہ پوری کی پوری کتاب کو مسترد کردیا جائے۔۔۔۔
مجھے تو اتنا معلوم ہے جتنا بھی بے غیرت ہوں۔--بہت گنہار ہوں--لیکن اپنے رسول سائیں سے مجھے بہت محبت ہے ۔۔۔میں نے انھیں نہیں دیکھا بس ان کے بارے میں سنا ہے لیکن پھر بھی مجھے ان سے بہت محبت ہے۔۔
اور وہ جنھوں نے ان کو دیکھا۔۔صلی اللہ علیہ وسلم۔۔جنھوں نے ان کے دیکھنے والوں کو دیکھا۔۔۔۔۔صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ان کی محبت کیسی ہوگی۔۔۔بے شک وہ مجھ سے بہتر ہونگے۔۔بے شک انھوں نے ان کی زندگی کا ایک ایک پل محفوظ کرنے کے لیے محنت کی ہوگی۔۔۔
مجھے کوئی شک نہیں کہ میرے رسول سائیں صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میرے سامنے ایسے ہے جیسے میں انھیں کھاتے پیتے چلتے پھرتے تصور کرسکتا ہوں۔۔۔
مجھے کوئی شک نہیں کہ وہ سراپا قرآن تھے اور ان کے چاہنے والوں نے ان کی زندگی کو بعد میں آنے والوں تک پہنچانے کے لیے نہایت مخلصانہ اور محبانہ کوششیں کیں۔۔۔
 

فرید احمد

محفلین
2۔ یہ سلسلہ اگر امام بخاری کی کتاب کی تصنیف کے بعد منقطع ہوا تو وہ 'اصل بخاری' کہاں ہے؟
3۔کسی کتب روایات کے حفظ کرنے کے اور اس عمل کے جاری رہنے کی روایت نہیں ملتی اور آج بھی یہ سلسہ موجود نہیں ہے۔

سلسلہ منقط ع ہوا ہی نہیں ، جناب والا یہ حدیث کی خدمت کرنے والے میرے تمہارے جیسے نہیں ہوتے ، دن بھر قران و حدیث ہی مشغلہ ہوتا ہے ، راتوں کی نیند برائے نام ہوتی ہے ، گناہوں سے دور ، لغویات سے دور ۔ سالوں نامحرم عورتوں کو دیکھنے کی نوبت نہیں آتی ۔ بالغ ہونے کے بعد سے 60- 70 سال اور مرنے تک تہجد نہیں چھوٹتی ۔ انہیں ہزاروں حدیثیں یاد کر لینا آسان کام ہے ۔ اور وہ کرتے ہیں ۔ یقین نہ آتا ہو تو حفظ قرآن کے سلسلہ کو تو تم دیکھتے ہی ہوگے !
ہاں اب یہ مت کہنا کہ اس کو زبانی یاد کرنا اصل مقصود نہیں ، سمجھنا اور " اجتماعی نظام " دریافت کر لینا 1400 سال بعد اصل کام ہے ۔

رہی بات اصل نسخہ کی تو ، تو جناب کچھ اس زمانہ کے احوال جان لیں ،
اس وقت چھاپ خانے نہ تھے ، عکس کاپی کرنے تصور نہیں ۔ ہوتا یہ تھا کہ کوئی استاد پہلے سے اپنی کتاب ، یا مجموعہ شاگردوں کو دیتا وہ اسے رات بھر نقل کرتے اور دن میں استاد پڑھاتا۔ کچھ کا طریقہ یہ تھا کہ درس پڑھاتے اور دوران درس ہی طلبہ لکھ لیتے ۔ خیر اس طرح ایک استاد کی کتاب کے سینکڑوں نسخے ہو جاتے ۔ کبھی ایسا ہوتا کہ چکھ سالوں کے بعد استاد کو کوئی حدیث اعلی سند سے مل جاتی ، یعنی بجائے پانچ واسطوں کے چار سے ، تو وہ پڑھاتے ، اب بعد والے شاگردوں کے نسخوں میں وہ حدیث ہوتی ، نسخوں کا اختلاف یہ معنی رکھتا ہے ، بخاری کے چند نسخے ، ابو داود کے الگ الگ نسخے ، موطا کے چند نسخے ، اسی طرح کے ہیں ، اب کیا ضرورت تھی امام بکاری کا مسودہ بھی کسی میوزیم میں محفوظ کیا جاتا ، یا بینک لوکر میں ابوالکلام آزاد کی طرح محفوظ کرنا پڑتا ۔
بخاری کے اصل نسخہ کے اس طرح کے سوال سے لگتا ہے اپ یوں سمجھتے ہو کہ جو باتیں اس میں ہے وہ کسی دوسری کتاب میں ہے ہی نہیں‌‌، ایسا نہیں جناب ، جن لوگوں سے بخاری نے حدیثیبں لی ہے ان سے پڑھنے والے حدیثیں سننے والے اور بہر سے ہیں ، اور اس طرح بہت سے مصنفین کی کتابیں ہیں ، البتہ امام بخاری نے اپنی اس کتاب میں خاص کر بہت کڑے اصول کے ساتھ حدیثیں نقل کی ہیں ، یعنی راویوں کے بارے میں مضبوط ہونے کا بڑا سخت معیار اپنایا ، ایسا معیار گو انہوں نے اپنی دوسری کتابوں میں بھی نہیں اپنایا ۔

طلبہ سے مراد 15 سال جوان ہی نہ ہوتے ، 30 ۔ 40 ۔ 50 سالہ حضرات بھی ہوتے ۔ پھر یہ لوگ درس کے بعد ساتھیوں کی کاپیوں سے موازنہ کر لیتے یا استاڈ کی کاپی سے موازنہ کرتے ۔ ایک محدث کا وقعہ یاد پڑتا ہے کہ ساتھیوں کے ساتھ درس میں شریک ہوتے ، کاپی قلم نہ لاتے ، ساتھی طلبہ نے ایک دن ڈانٹا کہ بیکار وقت ضائع کرتے ہو ، انہوں نے ایک دن تنگ آکر کہا کہ اچھا سنو ، اور پھر پورے درس کی احادیث یک لخت سنا دیں اور سب ساتھیوں نے اس کو کاپیوں سے جانچا ۔ امام ابو یوسف نے 29 سال تک فجر کی نماز امام ابو حنیفہ کے ساتھ پڑھی ، یعنی اپنے گھر سے اتنی جلدی امام صاحب کی مسجد میں چلے آتے ، بیٹا مر گیا تو اس کی تجہیز و تکفین رشتہ داروں کے حوالہ کر دی اور درس ناغہہ نہ کیا ، تب جا کر انہیں لوگوں نے محدث کہا ، اور انہیں حافظ کہا گیا ۔ ( حافظ اس کو کہتے ہیں جسے ایکھ لاکھ حدیثیں زبانی یاد ہو )

3۔ فاروق صاحب :کسی کتب روایات کے حفظ کرنے کے اور اس عمل کے جاری رہنے کی روایت نہیں ملتی اور آج بھی یہ سلسہ موجود نہیں ہے۔
یہ بات جیسا کہ پہلے بتا دیا بے بنیاد ہے ، اپنے عدم علم کی بنیاد پر عدم وجود کا حکم لگانا ہے ، حفظ کرنے کی روایات پہلے سے ہے آج تک ہے ، اور اتنی کثرت سے ہے کہ انکار مشکل ، معاف کریں یہ کویں کے مینڈک والی بات ہے ۔ تلخی معاف کریں ، اور مثال دے دوں میرا چھوٹا بچہ کبھی ہم سے دل لگی کرتا ہے ، اور آنکھ بند کرکے کہتا ہے " بجلی چلی گئی " پھر کھول کر کہتا ہے " بجلی آ گئی " احادیث کے بارے میں آپ کی بہت سے معلومات ایسی ہی ہیں ۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
السلام علیکم!

جزاکم اللہ خیرا

بہت مفید اور علمی انداز میں قرآن و سنت کے اوپر بات چیت ہو رہی ہے

قرآن کو صاحب قرآن کے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا

فرمود حق تعالی لع۔۔۔۔۔۔۔مرک در آیت۔۔۔۔۔۔۔۔ی
سوگند کردگار بج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان محم۔۔۔۔د است

اللہ تعالی نے قرآن میں لعمرک کے لفظ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کی قسم کھائی ہے

قرآن شناسی کا تقاضا تو یہ ہے کہ قرآن عظیم نے جس حیات طیبہ کی قسم کھائی ہے اس حیات طیبہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ایک فعل کو ایک ایک قول کو مجسم قرآن تسلیم کیا جائے کیونکہ قرآن حکیم اپنے خلاف واقع ہونے والی کسی چیز کی قسم نہیں کھا سکتا
اس لیے میرا کیا ہر مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ حیات طیبہ پوری کی پوری قرآن سے ماخوذ ہے اور سیرت نبوی میں کوئی ایسا عمل ہوہی نہیں سکتا جو قرآن کی تعلیمات سے متعارض ہو یا اس کے خلاف ہو

عربوں کا حافظہ بھی ضرب المثل ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب حافظہ کے بل بوتے پر ہی کتابت کی جانب کم مائل تھے اہل عرب میں اگر کاتبوں کی تعداد کم تھی تو اس کا مطلب ہر گز نہیں کہ اھل عرب میں علوم وفنوں کی آگہی نہیں تھی بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اھل عرب کو اپنے بلا کے حافظہ پر اس درجہ اعتماد تھا کہ وہ کتابت کو زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے اھل عرب کو اپنے گھوڑوں کے انساب کئی کئی پشتوں تک یاد تھے وہ کئی کئی ہزار اشعار پر مبنی قصائد یاد رکھتے تھے

یہی وجہ ہے کہ حدیث بیان کرنے والوں نے نہ صرف متن حدیث کو بیان کیا بلکہ اسناد کا پورا پورا شجرہ بھی بیان کیا

کتب حدیث کو جو محدثین کی بیان کردہ احادث پر مشتمل ہیں اتنی آسانی سے یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا وہ اسلامی احکام اور کتاب اللہ کی تفسیر و تشریخ کے ساتھ ساتھ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عظیم ذخیرہ ہیں

لیکن ان کتابوں کو قرآن کے برابر کی حیثیت اور مرتبہ پر رکھ کر انہیں ھر قسم کی غلطی سے مبرا قرار دے دینا بھی ظلم ہے کیونکہ وہ بہرحال انسانوں کی جمع کردہ کتب ہیں اور تمام تر احتیاط کے باوجود خطا کا احتمال موجود ہے جبکہ قرآن کا معاملہ کچھ اور ہے

سب لوگ جانتے ہیں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہود و نصاری موجود تھے اور ییہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی کتب میں تحریف کی ہوئی تھی اور اسلام کو کسی صورت میں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے انہوں نے کہیں کھلے عام اسلام کی مخالفت کی اور کہیں خفیہ سازشوں کے ذریعہ

ان معاندین اسلام نے نہ صرف سیرت مصطفوی کو داغدار بنانے کی کوشش کی بلکہ قرآن کی الہامی حیثیت کو بھی مشکوک بنانے کے لیے حیلہ جوئی کی

چنانچہ ان کی اس سازش کی ایک حصہ ایسی روایات کا وضع کرنا بھی تھا جن سے بظاہر تو ایک اہم شرعی مسئلہ کا حل نکلتا ہو جبکہ دوسری جانب سیرت رسول کو داغدار بنانے کے لیے بھی مواد فراہم ہو جاتا ہو
چنانچہ عبداللہ ابن ابی سرح جب قرآن آیات کی کتابت کر رہا تھا تو جس طرح کسی اچھے شعر کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ شاعر نے اس کو ابھی مکمل نہیں کیا ہوتا کہ اس کا بقیہ حصہ سامع کی زبان پر جاری ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح عبداللہ ابن ابی سرح کیی زبان پر دوران کتابت قرآن یہ الفاظ"تبارک اللہ احسن الخالقین" جاری ہوگئے تھے جس پر نبی اکرم نے فرمایا ہاں یہ لکھو! یہ اس آیت کا آخری حصہ ہے،
عبداللہ نے لکھ تو دیا لیکن جب وہاں سےے اٹھا تو مختلف مجالس میں یہ پروپگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ: اب مجھے معلوم ہوا کہ محمد قرآن کییسے بناتے ہیں، انہوں نےے تو جو کچھ میں نے کہا وہ بھی قرآن میں شامل کر دیا
نبی اکرم نے اس مرتد کے قتل کا حکم جاری فرمادیا تھا
ایسے ہی پروپگنڈوں سے معاندین اسلام نے قرآن و سنت کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے اور دانستگی یا نا دانستگی، سادگی میں یا ببدنیتی سے ہماری کتبہ میں ایسی افواہیں راہ پا گئیں جن کی بنیاد پر آج بھی معااندین اسلام کتابین لکھ لکھ کر قرآن و سنت کو بدنام کر رہے ہیں
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے علما اور محدثین نے ایسی روایات کو سکین نہیں کیا اور ان کی نشاندھی نہیں کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عمل تو جمع حدیث کے ساتھ ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا کتب حدیث کے مرتبین اور جامعین نے جہاں احادیث کا انتخاب کیا وہاں احادیث کو ترک بھی کیا اور انہوں نے اپنے اپنے انتخاب کے لیے کچھ اصول ضوابط اور معیارات قائم کیے اور ان پر سختی سے عمل کیا لیکن اس کے باوجود یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ ان سے کوئی خطا نہیں ہوئی
ان کے بعد آنے والے علما اور محدثین نے بھی اس سلسلہ کو جاری رکھا اور ضعیف اور موضوعہ احادیث کی نشاندھی کا سلسلہ چلتا رہا

ملا علی قاری کی موضوعات کبیر اس سلسلہ کی ایک اہم ترین مثال ہے

در اصل ہم لوگ جب کوئی بحث کرتے ہیں تو اپنی انا کے خول میں بند رہ کر کرتے ہیں اور پہلے سے طے شدہ بات کے حق میں دلائل لانے کی کوشش کرتے ہیں

اگر ایک طرف ایک گروہ کتب حدیث کا یکسر انکار کرکے سیرت و سنت سے منحرف ہونے کا ثبوت مہیا کر کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نا راضی مول لے رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف کے لوگ کتب حدیث پر اسی طرح ایمان لانے کا تقاضہ کر تے ہیں جس طرح ایک مومن کتاب اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اسطرح وہ بھی سراسر ظلم اور نا انصافی کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں

اعتدال اور میانہ روی کی راہیں ہم نے چھوڑ دی ہیں اور ہم انتہا پسندی کے ساتھ اپنے اپنے مورچوں میں ڈٹ کر ایک دوسرے پر تیرو تفنگ کی بارش کرنا شروع کر دیتے ہیں جو سراسر تباھی و بربادی کی علامت ہے

خدا ہم سب کو اپنے دین متین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے
اللھم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ الطیبین الطاھرین
 

فرید احمد

محفلین
4۔ درج ذیل حدیث کیا قابل قبول ہے؟
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔
درست بات ہے ، اس میں کسی کو کلام نہیں ، آپ ایک حدیث بیان کر دیں ، جو محدثین کے یہاں قابل قبول روایتوں میں سے ہو اور کتاب اللہ کے خلاف ہو ۔
ایک تنبیہ : حدیث کے کتاب اللہ کے موافق یا مخالف ہونے کا مطلب یہی ہوگا کہ ایک بات جو قرآن میں ہے ، وہی حدیث میں ہو ، مثلا قران میں ہے فول وجہک شطر المسجد الحرام ، اپنا چہرہ نماز میں مسجد حرام کی طرف کر لو ، اور حدیث میں بھی یہی بات ہے ، لہذا یہ موافق ہوا، اگر حدیث میں ہوتا کہ نماز میں چہرہ مسجد اقصی کی طرف کرو تو یہ مخالف ہوا ۔
لیکن اگر کوئی حکم سرے سے قران میں ہے ہی نہیں ، مثلا یہ بات کہ کتنی مدت میں بچہ کسی عورت کا دودھ پیے تو وہ اس کی رضاعی ( دودھ پلانے والی ) والدہ کہی جائے ؟ کیا چار سالہ بچے نے بھی کسی عورت کا دودھ پیا تو وہ اس کی رضاعی ماں بنے گی ؟ قران میں یہ حکم نہیں ، قران میں مدت حمل اور فصل دودھ چھرانے کی مدت ہے ، مگر رضاعت کے ثبوت کا حم نہیں ، میں اپ سے اگر پوچھوں کہ قران میں ہے کہ و حملہ و فصالہ ثلثون شہرا ، جب کہ دنیا میں قصے 30 زیادہ مہینہ ماں کے پیٹ میں بچہ ہونے کے بھی ہیں ۔

پس حدیث کوئی ایسا حکم بیان کرنے سے جو قرآن میں ہے ہی نہیں ، قرآن کی مخالفت ہر گز نہ کہی جائے گی ، یہ ہمیشہ ذہن میں رکھیں ۔

نماز ذکوۃ وغیرہ کی مثالیں اوپر پیش کی جاچکیں ۔

چوری کی سزا کی بات میں نے اوپر کی کہ کتنا ہاتھ کاٹا جائے ؟
یہ قران کے مطالعہ سے آپ کے سامنے آیا ہوگا کہ فقب چار جرموں کی سزا قران نے بیان کی ہے ۔ زنا ، قذف ( پاک دامن عورت پر زنا کی چھوٹی تہمت ) سرقہ 0 چوری) اور قصاص ۔ بقیہ بہت سے جرائم کی سزا حدیث سے ثابت ہے ۔ مضمون کی طوالت اور پورا مواد مستحضر نہ ہونے سے بہت سے باتیں اور مثالیں یہاں لکھ نہیں سکتا ۔
 

فرید احمد

محفلین
فاروق صاحب : اپ کی پوسٹ سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں، یہ سوالات آپ کی آسانی کے لئے یکجا کردئے ہیں تاکہ آپ کو جواب دینے میں‌آسانی رہے۔ اور اس ہم، آپ کے علم سے مستفید ہو سکیں:

1۔ کیا امام بخاری کی اصل کتاب ایک کتاب نہیں تھی بلکہ صحیح بخاری، امام بخاری کی درجنوں کتابوں سے ملا کر بنائی گئی ہے؟

اس کا جواب اوپر آگیا کہ حقیقت ایسی نہیں ، ہر کتاب کے مسودہ کے وقت متعدد اجزاء ہوتے ہیں ،اور قدیم زمانہ میں تو مسودہ ہی تصنیف کہلاتا تھا ۔

2۔ کیا اس اسٹور کا دعوی درست ہے کہ ان کتب روایات میں درج ذیل 4 قسم کی احادیث شامل ہیں؟ صحیح، حسن، ضعیف اور منکر اقسام کی احادیث ؟
تفصیل اوپر آ چکی ، تمام کی تعریف بھی نقل کر دیں ، اس اسٹور کی بات بخاری کے فٹ نوٹ کی تھی ، اور آپ نے کہاں لگادی فارقو صاحب !‌ اپنے الفاط دیکھ لو !

3۔ کیا یہ کتب روایات، ہمارے ایمان کا حصہ ہیں یا انسانی علم و اعلام ہیں؟

آپ ہی بتادیں کہ قرآن کے حکم صلوۃو زکوۃ پر عمل کرنا ایمان کا حصہ ہے یا نہیں ، اور جس طریقہ کیا جائے گا وہ ایمان کا حصہ ہوگا یا نہیں ؟ پھر طریقہ کہاں سے لاؤگے ، حدیث سے بلا ایمان ؟

5۔ تمام معلومات نسل در نسل حافظہ سے منتقل ہوتی رہیں۔ تمام روایات حافظہ میں رکھنے کا سلسلہ کب ختم ہوا؟
جواب تفصیل سے اوپر آگیا ۔ دنیا میں چل پھر کر دیکھو ۔
 
جناب فرید صاحب۔ السلام علیکم،
میرے ایمان کا حصہ میں قرآن اور قرآن کی تعلیمات کے علاوہ انسانوں کی لکھی ہوئی کوئی کتاب نہیں۔ ہدایت دینے والا اللہ ہے اور آیات کی وضاحت فرمانے والا اسکا رسول۔ مزید کوئی کتب روایات صرف علم و اعلام کی حد تک محدود ہیں، ایمان کا حصہ نہیں۔ اس علم سے چاہے اصول سازی کیجئے یا قانون سازی کیجیے لیکن رسول اکرم صلعم کی ہدائت کے مطابق احتیاط برتئیے اور دیکھ لیجئے کے جو روایت قرآن کی ضو پر پوری اترتی ہے تو قبول کیجئے ورنہ ہدائت نبوی پر عمل کیجئے

1۔ نماز کی تعلیم قرآن میں کہاں ہے
ُ‌آپ کا اصرار ہے کہ طریقہء نماز کتب روایات میں‌موجود ہے۔ اور جو کتاب ہمارے رسول اکرم صلعم کو اللہ تعالی نے عطا فرمائی، اس میں کہیں بھی نماز تعلیم نہیں۔
بھائی عرض‌یہ ہے کہ آپ وہ روایت جس میں‌طریقہء‌نماز درج ہے، یہاں حوالہ کردیجئے۔
اللہ تعالی نے ہمارے رسول پرنور کو صلعم نماز کی مکمل تعلیم دی، یہی تعلیم رب عظیم نے حضرت ابراہیمء اور حضرت اسمعیل علیۃہ السلام کو بھی دی۔ آپ یہ آرٹیکل دیکھئے

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=7952

کہ قرآن کریم، رسول اکرم کو طریقہ نماز کس طرح تعلیم کررہا ہے۔ اور پھر یہ ہمارے رسول پرنور کا اعجاز عظیم ہے کہ ان کی ہر سنت، سنت جاریہ ہے، جس کو ان کتب روایات کی ضرورت نہیں، رسول اکرم صلعم کی سنت جاریہ طریقہ نماز ہر روز 5 مرتبہ حرمین الشریفیین میں‌دہرایا جاتا ہے۔ اور یہ ٹی وی پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہی حال دوسری تمام سنتوں کا ہے کہ وہ سنت جاریہ ہیں۔ اس میں‌بھی دلیل ہے سمجھنے والوں کے لئے۔

سخت سزائیں:
سخت سزاؤں کے لئے ہی یہ کتب روایات ترتیب دی گئی ہیں۔ دیکھئے قرآن کا واضح حکم قوانین کے بارے میں، اللہ تعالی، رسول اکرم کو حکم دیتا ہے کہ اس کتاب سے فیصلہ کیجئے۔ اللہ کا حکم کتب روایات میں نہیں قرآن میں ہے۔

[AYAH]5:44[/AYAH] بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا، اس کے مطابق انبیاء جو (اﷲ کے) فرمانبردار (بندے) تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے اور اﷲ والے (یعنی ان کے اولیاء) اور علماء (بھی اسی کے مطابق فیصلے کرتے رہے)، اس وجہ سے کہ وہ اﷲ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس پر نگہبان (و گواہ) تھے۔ پس تم (اقامتِ دین اور احکامِ الٰہی کے نفاذ کے معاملے میں) لوگوں سے مت ڈرو اور (صرف) مجھ سے ڈرا کرو اور میری آیات (یعنی احکام) کے بدلے (دنیا کی) حقیر قیمت نہ لیا کرو، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیں

[AYAH]5:47[/AYAH] اور اہلِ انجیل کو (بھی) اس (حکم) کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے جو اللہ نے اس میں نازل فرمایا ہے، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ فاسق ہیں
[AYAH]5:48[/AYAH] اور (اے نبئ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف (بھی) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس (کے اصل احکام و مضامین) پر نگہبان ہے، پس آپ ان کے درمیان ان (احکام) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمائے ہیں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اس حق سے دور ہو کر جو آپ کے پاس آچکا ہے۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں ان (الگ الگ احکام) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں (تمہارے حسبِ حال) دیئے ہیں، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان (سب باتوں میں حق و باطل) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے


اس واضح‌حکم کے بعد رسول پرنور کس طرح کوئی ایسی سزا مسلمان کو دے سکتے ہیں جو قرآن میں‌نہ ہو؟ قرآن کو صاحب قرآن صلعم سے ہی سمجھئے اور اس میں‌ دوسری روایات کا پیوند نہ لگائیے۔ دیکھئے
[AYAH]16:44[/AYAH] (انہیں بھی) واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ (بھیجا تھا)، اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں

قرآنی قوانین کے علاوہ قوانین بنانے کے لئے اللہ تعالی نے آپس میں مشورے کا حکم دیا۔
[AYAH]42:38[/AYAH] اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں

اور سخت سزائیں دے کر لوگ جن بادشاہوں کی ہند میں‌مدد کرتے رہے وہ بادشاہ اب گزر گئے۔ قرآن سمجھئے قرآن سے یا صاحب قرآن صلعم سے۔صاحب قران صلعم فرماتے ہیں: http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=1&Rec=6851

‏[ARABIC]حدثنا ‏ ‏هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
‏أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏همام ‏ ‏أحسبه قال متعمدا ‏ ‏فليتبوأ ‏ ‏مقعده من النار[/ARABIC]
ترجمہ : ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ مجھ سے کچھ اور نہ لو (لکھو)، اور جس نے مجھ سے کچھ اور لکھا علاوہ قرآن کے تو اس کو چاہئیے کہ وہ اسے تلف کردے۔ اور مجھ سے روایت کرو کہ ایسا (تلف) کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ اور وہ جس نے مجھ (رسول صلعم) سےکو کوئی نا درست بات منسوب کی --- اور حمام نے کہا ، کہ انہوں نے 'جان بوجھ' کر بھی کہا -- تو اس کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے۔

اور یہ دیکھئے کہ گنجائش ہی نہیں‌چھوڑی کی آپ کسی اور کتاب کا اضافہ کریں قرآن میں
اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔

اور یہ دونوں احادیث خود قرآن سے ثابت ہیں۔ دیکھئے اللہ تعالی کس کو حدیث قرار دیتے ہیں۔ کتب روایات کو یا اللہ تعالی کی آیات کو:

[AYAH]18:6[/AYAH] [ARABIC] فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا [/ARABIC] (اے حبیبِ مکرّم!) تو کیا آپ ان کے پیچھے شدتِ غم میں اپنی جانِ (عزیز بھی) گھلا دیں گے اگر وہ اس الحدیث پر ایمان نہ لائے

[AYAH]45:6[/AYAH] [ARABIC] تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ[/ARABIC]

یہ اللہ کی آیتیں ہیں جنہیں ہم آپ پر پوری سچائی کے ساتھ تلاوت فرماتے ہیں، پھر اللہ اور اُس کی آیتوں کے بعد یہ لوگ کس حدیث پر ایمان لائیں گے؟
These are the Messages of Allah We convey to you with Truth. Then, in what HADITH, if not in Allah and His Verses, will they believe?​

میرے ایمان کا حصہ میں قرآن اور قرآن کی تعلیمات کے علاوہ انسانوں کی لکھی ہوئی کوئی کتاب نہیں۔ ہدایت دینے والا اللہ ہے اور آیات کی وضاحت فرمانے والا اسکا رسول۔ مزید کوئی کتب روایات صرف علم و اعلام کی حد تک محدود ہیں، ایمان کا حصہ نہیں۔ اس علم سے چاہے اصول سازی کیجئے یا قانون سازی کیجیے لیکن رسول اکرم صلعم کی ہدائت کے مطابق احتیاط برتئیے اور دیکھ لیجئے کے جو روایت قرآن کی ضو پر پوری اترتی ہے تو قبول کیجئے ورنہ ہدائت نبوی پر عمل کیجئے

ایک دوسرے کی عزت فرمائیے، اللہ تعالی نے آپ کو اور سب کو قابل اکرام بنایا ہے۔
[AYAH]17:70[/AYAH] اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا

جو لوگ یہ سکھاتے ہیں کہ مسلمان سے مذہبی اختلاف ہو یا سند موجود نہ ہو تو اسے 'تو کہہ کر یا بد طریقے سے' پکارو۔ تو انہیں اللہ تعالی کا یہ حکم پہنچا دیجئے اور پوچھئے کہ صرف اسناد یافتہ حضرات کی دین پر اجارہ دارہ کس آیت سے ثابت ہے :

[AYAH]49:11[/AYAH] اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں

اور یاد رکھئے کہ :
[AYAH]49:10[/AYAH] بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے


آپ نے سوالات کئے تھے تو میں نے جواب دے کر اپنا فرض‌پورا کردیا۔ آپ اب خود سوچئے۔ رہی کتب روایات پر ایمان لانے کی بات تو اس فیصلہ کو اٹھا رکھئے اللہ اور اس کے رسول کے لئے۔ کہ اللہ کا حکم ہے کہ آپس میں فیصلہ نہ کر پاؤ تو فیصلہ اللہ اور اس کے رسول پر چھوڑ دیجئے۔ یہ کتب روایات اللہ تعالی نے نازل نہیں فرمائی تھیں۔

[AYAH]4:59[/AYAH] اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے


والسلام۔
اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت فرمائیں۔
طالبعلم قرآن
 

فرید احمد

محفلین
فاروق صاحب آپ کے بقول :
مین نے ایک اسٹور کی ویب سائٹ پر لکھی ہوئی معلومات اردو میں ترجمہ کرکے یہاں‌رکھی۔ اور لنک فراہم کیا۔ آپ نے اصل پوسٹ‌گول کردی؟ کیوں؟ اور لنک بھی غایب کردیا؟‌کیوں؟
میرا سوال یہ تھا کہ اس اسٹور کی مہیاء کی ہوئی معلومات جو کہ ایک کولیفائیڈ، مدرسے کا پڑھا ہوا، مفتی دے رہا ہے درست ہیں یا غلط؟
آپ نے اس اسٹور کی ویب سائیٹ کے مواد کے ترجمے کو اپنی بہترین عقل کے مطابق کیا کا کیا بنا دیا اور اس مدرسے کے گریجویٹ‌مفتی کی خوب مخالفت کی۔

آپ کی پوری پوسٹ کو نقل کرکے اس کے ہر ایک حصے کو میں نے واضح کیا ہے ، نہ مفتی کی مخالفت کی ، نہ لنک گم کر دیا ، سب اپنی جگہ موجود ہے ، مفتی نے جو باتیں لکھی ہیں ، وہ باتیں میں نے سمجھائی ہیں، کس نقطے پر میں نے مخالفت کی ۔ برائے مہربانی دھیان سے پوسٹ پڑھیں ، مخالفت برائے مخالفت آپ کر رہے ہیں ۔
میرے تمام تر سوالات آپ سے ہیں ، اس لیے کہ مفتی ڈیسائی کے لنک کو تم نے اپنے لیے استعمال کیا ،
اور کتب روایات پر ، حافظہ کے سلسلہ پر اصل بخاری نہ ہونے کے سوالات آپ کے تھے ، اس کے جوابات دیے ہیں ، آپ نے نہیں دیکھے یا مخالفت برائے مخالفت ؟ ؟ ؟
جناب والا حرمین شریفین اور سنت جاریہ اگر نماز کی جاری ہے تو کتب روایات کے پڑھنے پڑھانے کی بھی اسی زمانہ سے جاری ہے ، بالکل اسی طرح ۔۔۔۔ اس کر کیوں ہضم کر جاتے ہو ۔
سخت سزاوں کا نام لیتے ہو مگر قران سے ثابت ہونے کو ہضم کر جاتے ہو ، چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ، زنا کی سزا رجم اور کوڑے ، قتل کی سزا قصاص ، وغیرہ قرآن سے ثابت ہے ، کیا اس پر تمہارا ایمان ہے ؟

یہ یاد رکھ لیں کہ نماز کی جس سنت جاریہ کو دیکھ پر اس پر ایمان ہے ، یہ حضرات جن کو تم دیکھ رہے ہو اور اس سے " طریقہ نماز کا ایمان " اخذ کرتے ہو ، وہ سب کے سب کتب روایات کے صحیح مواد کو ضروریات دین سمجھ کر اس پر ایمان رکھتا ہے ، اور اس طرح وہ سب آپ کے بقول شمرک ہیں ۔ کیا آپ مشرک سے طریقہ نماز کا ایمان اخذ کرتے ہو ۔
میرے سوالات میں تلخی ہے مگر حقیقت پسندانہ ہے ۔
احبار اور رہبان کی باتیں قرآن نے کی ہیں ، ایسے علماء اسلام میں بھی پیدا ہوئے ، تسلیم ہے ، مگر اس سے کیا ؟ کتب روایات کو جھتلانے کا جواز اس سے کہاں ؟
 
ایک بار پھر شکریہ۔ آپ کو جن الفاظ سے شکایت ہو وہ واپس۔
کتب روایات کو کن لوگوں نے ترتیب دیا؟
اگر یہ روایات بھی قرآن کا حصہ تھیں اور اتنی ضروری تھیں یعنی ‌علم و اعلام نہ تھیں نلکہ ایمان و فرض‌تھیں تو خلفائے راشدہ نے قرآن کی طرح ‌ان کو کتاب کی شکل کیوں نہ دی یا کتاب کی شکل دینے کی کوشش کیوں‌نہ کی؟ تقریباَ 2 صدی کے بعد ان کی ترتیب کیوں شروع ہوئی۔ آپ وضاحت فرمائیں۔

مجھ اب خیالات کا تبادلہ ہونے کے بعد بہتر طریقہ سے سمجھ میں‌آرہے ہیں۔ (اس بات کو مثبت لیجئے) اور اپنے علم سے سب کو فائدہ پہنچائیے۔

میں اپنے خیالات کا اظہار کرچکا ہوں۔ یہ سوال اٹھتے ہیں آپ توجہ فرمائیے۔

والسلام۔
 

دوست

محفلین
فاروق صاحب خلفائے راشدین نے انھیں ترتیب دینے کی ضرورت اس لیے محسوس نہ کی کہ وہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔ ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی گزری تھی انھیں بھلا احادیث کی کتابت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
کیا آپ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا واقعہ یاد نہیں جس میں انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی احادیث جو انھوں نے لکھی ہوئی تھیں وہ کتاب ہی جلا ڈالی۔ اس خوف سے کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غلط روایت منسوب نہ کربیٹھیں۔
اس پر بلاشبہ یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ اگر صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کو اتنا خوف تھا تو یقینًا انھوں نے کوئی بھی ایسی کوشش نہ کی ہوگی۔ لیکن ایسا نہیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا استدلال بھی درست تھا۔لیکن دوسرے صحابہ نے بلاشبہ اس طرح کی تحاریر لکھ رکھی تھیں جس میں انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال نقل کررکھے تھے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سے ہی کئی صحابہ بطور فقیہہ مشہور ہوگئے تھے۔ جیسے ابن عباس۔۔ان جیسے کئی اصحاب تھے جو قریبًا وہی کام کرتے تھے جو آج کے مفتی حضرات کرتے ہیں یعنی فتوٰی دینا۔
چناچہ یہ کہنا کہ احادیث دوسوسال کے بعد کتابت ہوئیں خام خیالی ہے۔ یقینًا اسی زمانے سے کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ ان کو ایک منظم شکل میں اس وقت کیا گیا جب بہت شدت سے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی۔۔دیکھیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ رہے، ان کے اصحاب نہ رہے جو ان سے براہ راست تربیت یافتہ تھے اور پھر ان کے تربیت یافتہ تابعین تبع تابعین بھی پردہ کرنے لگے تو یقینًا اس چیز کی ضرورت محسوس کی گئی کہ قرآن کی وضاحت کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور ان کے اقوال کو قلمبند کیا جائے۔
بلاشبہ یہود و نصارٰی کی سازشیں موجود رہی ہیں۔ روایات میں تحریف کی گئی ہے۔ لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ساری کتب احادیث مسترد کردی جائیں۔ جب جب بھی ہمیں قرآن کی وضاحت درکار ہوگی ہمیں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھنا ہوگا۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن ان کے لیے کافی ہے تو پھر مجھے بتا دیں کہ نماز کیسے پڑھیں قرآن نے کہاں لکھا ہے؟
ٹھیک ہے سنت جاریہ ہے تو یہ سنت جاریہ ہم تک کیسے پہنچی۔ ایک بندے سے دوسرا بندہ دوسرے سے تیسرا اور اب ہمارے پاس ہے۔۔تو یہی طریقہ احادیث پر بھی لاگو ہوتا ہے نا۔
ہمارے لسانیات میں ایک اصطلاح‌ استعمال ہوتی ہے سیاق و سباق Context۔ قرآن کے احکام کو سمجھنے کے سلسلے میں یہ سیاق و سباق ہمیں احادیث سے ملتا ہے جو ہمیں سمجھنے کی بہتر صلاحیت عطاء کرتا ہے۔
باقی اللہ سائیں بہتر جانے۔۔۔ہمارا کام تو بات کہہ دینا ہے ماننا نہ ماننا سننے والے پر ہے۔۔اللہ سائیں صحیح سمت میں علم و عمل کی توفیق دے۔
آمین۔
 

فرید احمد

محفلین
جزاکم اللہ

اس زمانہ میں کتابوں کے لکھنے کا کیا رواج تھا ؟ اس کا اندازہ آپ کو ہوگا ،
میں اوپر بتا چکا کہ قرآن شریف بھی ایک مجموعہ کی شکل میں کسی نے باقعدہ مرتب نہ کیا تھا۔ سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ، وہ بھی مجموعہ نہیں ، بلکہ الگ الگ سورتوں کی شکل میں ، جس میں یہ ہوتا کہ کوئی آیت نازل ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاتب کو فرماتے کہ اس آیت کو فلانی سورت میں فلاں آیت کے اوپر ، یا نیچے ، آگے پہلے ، درمیان میں لکھ لیں ۔ اس طرح پورا قران تھا ، نبی کریم صلعم کی وفات کے بعد حضرت عمر کے کہنے سے حضرت ابوبکر نے حضرت زید اور حضرت عمر کے ذریعہ جمع کروایا ، اور اس کے لیے وہ تمام صحابہ کے پاس موجود مکتوب حصوں کو منگوایا گیا ، حافظہ سے مقابلہ کیا گیا ، وہ مجموعہ اب بھی کہیں نہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لکھوایا تھا ۔ پھر اسی ایک نسخے کو دوبارہ صحابہ کے مجموعوں اور حفاظ کی تائید سے حضرت عثمان نے صحابہ کی جماعت چھ یا ست سے مرتب کروایا ، اور اس کی سات کاپیاں تیار کیں ،اور اطراف مملکت اسلامی میں پھیلایا ۔
آپ اندازہ کریں کہ حضرت عثمان کے زمانے تک تو قران کو بھی کتابی شکل میں جمع کرنے کا رواج نہ تھا۔ پھر احادیث کی کیا بات ؟
ہاں احادیث کو حفظ کرنے کا سلسلہ مسلسل جاری تھا ، اور لکھنے کا سلسلہ بھی ، مگر اس طرح ترقی یافتہ طورپر نہیں ۔ اگر آپ کو سوال ہے کہ اس زمانہ کے لکھے ہوئے حدیث کی کتب موجود نہیں ، تو یہ سوال قران کے بارے میں کیوں نہیں ، قرآن کا بھی صرف وہ نسخہ اس وقت موجود ہے جو جس میں حضرت عثمان تلاوت کرتے تھے ۔ وہ نسخہ جو حضرت ابو بکر نے جمع کیا تھا ، وہ مجموعہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جمع کروایا تھا وہ اور وہ سب نسخے جو حضرت عثمان نے اطراف مملت میں بھیجے تھے اور لوگوں نے پھر ان میں نقل کرکے اپنے نسخے تیار کیے تھے وہ کہاں گئے ؟
احادیث کے بھی لکھنے کا رواج تھا، حضرت ابو ہریرہ اور دیگرکئی اصحاب نے مجموعے مرتب کر رکھے تھے مگر فقط اپنی یاد داشت کے لیے ، یعنی اپنی یاد کی ہوئی احادیث کا اس میں دیکھ کر تازہ کرتے رہتے ، اور پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ زبانی ہی جاری رہا ، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے احادیث کو جمع کرنے کے لیے ایک باقاعدہ جماعت تشکیل دی ۔
مربی ، پہلے جب میں تقی عثمانی کی کتاب کا ذکر کیا تو آپ یہ کہ کر گول کر گئے کہ ان کتب کے پڑھانے کی فرمائش میں نے فلاں ہدف میں کی ہے وغیرہ
میں آپ سے دوبارہ کہتا ہوں کہ کم سے کم برائے علم و آگہی اس موضوع کی ایک دو مستند کتب کو ضرور پڑھ لیں ۔ تقی عثمانی کی اس کتاب کو پڑھیں تو جیسا کہ میں نے پہلے لکھا آپ اس کو اخری چیپٹر سے شروع فرمائیں ۔ زیادہ فائدہ ہوگا۔
جناب والا تو بالکل ابتدائی معلومات سے ناواقف ہیں ، پھر کیوں کر بات بنے ، کچھ وقت نکال کر اس موضوع کی کتابوں کو پڑھ لیں ۔
 
دوست شکریہ۔
آپ نے جو وضاحت فرمائی وہ کافی حد تک درست ہے۔ میں ایک معمولی سی تبدیلی کی اجازت چاہوں گا۔ وہ یہ کہ قرآن کو صاف اور شفاف رکنا مقصود تھا۔ لہذا تقریبا 200 سال تک کوئی کتب روایات کتابی شکل میں نہیں رہیں۔
اس کے بعد سنت، طریقہ، اقوال، علم، قوانین، دستاویزات کو ریکارڈ ‌ کرلینا اس لئے کہ یہ سب کے کام آئے بطور علم یہ ہوتا رہا اور سلسلہ چل نکلا جس کا ہم سب تذکرہ کرتے ہیں۔

تو پھر اس بحث کا موضوع کیا ہے؟

کچھ عرصے پیشتر، ایک صاحب نے فرمایا کہ ان کتب روایات پر ایمان اسی طرح رکھنے کی ضرورت ہے جس طرح قرآن پر۔ اس طرح ہر سطر جو ان کتب روایات میں لکھی ہے بناء کسی کسوٹی کے درست ثابت ہوجاتی ہے۔

جبکہ میں ان کتب روایات میں ‌احتیاط کا قائل ہوں‌، اس کی وجوہات و تفصیلات کے لئے میں پوائینٹر تو فراہم کرسکتا ہوں لیکن خود نہیں لکھ سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی روایات دشمنان اسلام کی کاروائی ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو میں‌صرف حیرت ہی کرسکتا ہوں۔

کچھ خوبصورت احادیث جن کو میں بے دریغ استعمال کرتا ہوں یہاں دیکھ لیجئے۔ ان کے علاوہ بہت سی احادیث ہیں جو بہت عقل و دانش سے بھرپور ہیں۔

سوال اب یہ ہے کہ اس بحث کا مقصد کیا ہے؟

میں‌سمجھتا ہوں کہ ایک تو میں نیا ہوں اور ایڈجسٹمنت کے پراسس سے گذر رہا ہوں ۔ دوسرے مجھے لفظ Clergy کا کوئی مناسب ترجمہ نہ مل سکا تو میں نے لفظ 'مولویت' استعمال کیا۔ ممکن ہے اس کی جگہ اگر 'مذہبی بادشاہ گر' استعمال کرتا تو شاید مخمل میں لپتے اس لفظ سے وہ مقصد تو نہ حاصل ہوتا لیکن صورتحال مختلف ہوتی؟

میں نے سوچا چلو دو چار جوتے تو پڑیں گے مجھے، لیکن لوگوں کے ذہن میں یہ تو داخل ہوگا کہ معصوم مذہبی علما کو اس طرح بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور وہ پہیہ چل پڑتا ہے کہ صدیوں نہیں رکتا۔

بہر صورت مقصد یہ ہے کہ من حیث القوم ہم تعلیم میں پیچھے ہیں اور پھر قرآن کی بنیادی تعلیم مفقود ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس صورتحال کو تبدیل کریں۔ اور بہ معنی قرآن، خطابت (Public Speaking) اور امامت (LeaderShip) کو بنیادی جماعتوں کے اور اعلی علوم کو اعلی جماعتوں کے نصاب میں شامل کردیا جائے تاکہ اس پنیری سے ہم میں بہترین قانون ساز و معاشرہ ساز پیدا ہوسکیں جن کی اساس ان علوم دینیہ پر ہو۔ کہ نصیحت کے لئے عقل و دانش درکار ہے اور عقل و دانش کو جلا علم سے ہی ملتی ہے۔

[AYAH]2:269[/AYAH] جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے، اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں



والسلام۔
 

اجمل

محفلین
دوست شکریہ۔
آپ نے جو وضاحت فرمائی وہ کافی حد تک درست ہے۔ میں ایک معمولی سی تبدیلی کی اجازت چاہوں گا۔ وہ یہ کہ قرآن کو صاف اور شفاف رکنا مقصود تھا۔ لہذا تقریبا 200 سال تک کوئی کتب روایات کتابی شکل میں نہیں رہیں۔
اس کے بعد سنت، طریقہ، اقوال، علم، قوانین، دستاویزات کو ریکارڈ ‌ کرلینا اس لئے کہ یہ سب کے کام آئے بطور علم یہ ہوتا رہا اور سلسلہ چل نکلا جس کا ہم سب تذکرہ کرتے ہیں۔

تو پھر اس بحث کا موضوع کیا ہے؟

کچھ عرصے پیشتر، ایک صاحب نے فرمایا کہ ان کتب روایات پر ایمان اسی طرح رکھنے کی ضرورت ہے جس طرح قرآن پر۔ اس طرح ہر سطر جو ان کتب روایات میں لکھی ہے بناء کسی کسوٹی کے درست ثابت ہوجاتی ہے۔

جبکہ میں ان کتب روایات میں ‌احتیاط کا قائل ہوں‌، اس کی وجوہات و تفصیلات کے لئے میں پوائینٹر تو فراہم کرسکتا ہوں لیکن خود نہیں لکھ سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی روایات دشمنان اسلام کی کاروائی ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو میں‌صرف حیرت ہی کرسکتا ہوں۔

کچھ خوبصورت احادیث جن کو میں بے دریغ استعمال کرتا ہوں یہاں دیکھ لیجئے۔ ان کے علاوہ بہت سی احادیث ہیں جو بہت عقل و دانش سے بھرپور ہیں۔

سوال اب یہ ہے کہ اس بحث کا مقصد کیا ہے؟

میں‌سمجھتا ہوں کہ ایک تو میں نیا ہوں اور ایڈجسٹمنت کے پراسس سے گذر رہا ہوں ۔ دوسرے مجھے لفظ Clergy کا کوئی مناسب ترجمہ نہ مل سکا تو میں نے لفظ 'مولویت' استعمال کیا۔ ممکن ہے اس کی جگہ اگر 'مذہبی بادشاہ گر' استعمال کرتا تو شاید مخمل میں لپتے اس لفظ سے وہ مقصد تو نہ حاصل ہوتا لیکن صورتحال مختلف ہوتی؟

میں نے سوچا چلو دو چار جوتے تو پڑیں گے مجھے، لیکن لوگوں کے ذہن میں یہ تو داخل ہوگا کہ معصوم مذہبی علما کو اس طرح بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور وہ پہیہ چل پڑتا ہے کہ صدیوں نہیں رکتا۔

بہر صورت مقصد یہ ہے کہ من حیث القوم ہم تعلیم میں پیچھے ہیں اور پھر قرآن کی بنیادی تعلیم مفقود ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس صورتحال کو تبدیل کریں۔ اور بہ معنی قرآن، خطابت (Public Speaking) اور امامت (LeaderShip) کو بنیادی جماعتوں کے اور اعلی علوم کو اعلی جماعتوں کے نصاب میں شامل کردیا جائے تاکہ اس پنیری سے ہم میں بہترین قانون ساز و معاشرہ ساز پیدا ہوسکیں جن کی اساس ان علوم دینیہ پر ہو۔ کہ نصیحت کے لئے عقل و دانش درکار ہے اور عقل و دانش کو جلا علم سے ہی ملتی ہے۔

[AYAH]2:269[/AYAH] جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے، اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں
والسلام۔

فاروق سرور صاحب
گستاخی معاف ۔ آپ کی تمام تحاریر سے کچھ باتیں ثابت ہوتی ہیں ۔ ان پر اگر ہو سکے تو توجہ فرمائیے ۔ اس میں آپ ہی کا بھلا ہو گا ۔
1 ۔ آپ کی عمر 1400 سال یا اس سے زائد ہے
2 ۔ آپ جیسا ذہین اور بُردبار شخص پاکستان میں کوئی نہیں
3 ۔ آپ لاثانی عالِم ہیں
4 ۔ آپ ہر فن کے ماہر ہیں
5 ۔ دین کی تلاش کی بجائے دین میں غلطیاں تلاش کرنے پر اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں
مجھ سے مندرجہ بالا نتائج کے حوالے پوچھنے کی بجائے خود اپنی تمام تحاریر نیوٹرل ہو کر پڑھ لیجئے کیونکہ میرے پاس آپ کی تحاریر جن کا اکثر حصہ معاندانہ الزامات پر مبنی ہے کو دوبارہ پڑھنے کیلئے وقت نہیں ہے
 
میں اوپر بتا چکا کہ قرآن شریف بھی ایک مجموعہ کی شکل میں کسی نے باقعدہ مرتب نہ کیا تھا۔ سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ، وہ بھی مجموعہ نہیں ، بلکہ الگ الگ سورتوں کی شکل میں ، جس میں یہ ہوتا کہ کوئی آیت نازل ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاتب کو فرماتے کہ اس آیت کو فلانی سورت میں فلاں آیت کے اوپر ، یا نیچے ، آگے پہلے ، درمیان میں لکھ لیں ۔ اس طرح پورا قران تھا ، نبی کریم صلعم کی وفات کے بعد حضرت عمر کے کہنے سے حضرت ابوبکر نے حضرت زید اور حضرت عمر کے ذریعہ جمع کروایا ، اور اس کے لیے وہ تمام صحابہ کے پاس موجود مکتوب حصوں کو منگوایا گیا ، حافظہ سے مقابلہ کیا گیا ، وہ مجموعہ اب بھی کہیں نہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لکھوایا تھا ۔ پھر اسی ایک نسخے کو دوبارہ صحابہ کے مجموعوں اور حفاظ کی تائید سے حضرت عثمان نے صحابہ کی جماعت چھ یا ست سے مرتب کروایا ، اور اس کی سات کاپیاں تیار کیں ،اور اطراف مملکت اسلامی میں پھیلایا

ان معلومات کا بہت شکریہ۔ آپ کے پاس بہت درست معلومات ہیں۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ قرآن کتابی صورت میں نہیں موجود تھا۔ لہذا آپ کی مہیا کی ہوئی معلومات میں کچھ مزید اضافہ کی اجازت چاہتا ہوں۔

اس کا ثبوت ایک تو حدیث سے ملتا ہے:
بخاری کتاب الجہاد - کتاب 4-52 نمبر 233 (معاف فرمائیے کہ میں اب تک کسی آن لاین ریفرنس سسٹم کا عادی نہیں ہوا ہوں لہذا کسی دوست سے مدد کا طالب ہوں)
عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے لوگوں کو دشمن علاقہ میں قرآن (کی جلد یا کتاب) کے لے جانے سے منع فرمایا تھا۔

کتاب فضائل القران: 6-61 نمبر 511 زید بن ثابت سے روایت ہے کہ ابوبکر (ر) نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ "تم رسول اللہ کے لئے آیات وحی لکھتے تھے لہذا ۔۔۔ (باقی کی حذف کیا اختصار کی خاطر)۔۔

پھر اللہ تعالی اس کتاب کی قسم کھاتے ہیں خود قرآن میں۔ عقلی بات بھی ہے کہ یہ کتاب موجود تھی ورنہ رسول اللہ کے اتنے مخالفین تھے کے ان کو بار بار کتاب کا تذکرہ کرنے پر اور کتاب کے موجود نہ ہونے پر مزید مخالفت سہنی پڑتی۔
[AYAH]2:2[/AYAH] [ARABIC] ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ[/ARABIC]

[AYAH]2:44[/AYAH] أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنْ۔تُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ
کیا تم دوسرے لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم (اللہ کی) کتاب (بھی) پڑھتے ہو، تو کیا تم نہیں سوچتے؟

اب یہ کتاب کس شکل میں تھی، کب پوری ہوئی دیکھتے ہیں۔ یہ ملتا ہے ہم کو 6-61 نمبر 510 میں کہ انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضیفہ بن الیمان، حضرت عثمان (ر) کی پاس، جب آرمینیا اور اذر بائیجان کی فتح سے پہلے جب عراقی لوگ غزوہ میں شریک تھے۔ اور بتایا کہ شام اور عراق کے لوگ قران کی قراٌت مختلف طریقے سے کرتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ عثمان، اے امیر المومنین، اس سے پہلے کہ یہ لوگ کتاب میں فرق کرنے لگیں، آُپ قرآن حکیم کی قرات کی حفاظت کا بندو بست کیجئے کہ ایسا نہ ہو جائے جیاسا یہود و نصاری نے پہلے کیا۔ تو حضرت عثمان (ر) نے حضرت حفصہ کو کہلوایا کہ ہم کو قران کا نسخہ بھیج دیجئے تاک ہم قرآن کے بالکل درست نسخے بنوا سکیں اور پھر اصل مسحف آپ کو بھجوا دیں۔حضرت حفصہ نے یہ مصحف حضرت عثمان کو بھجوادیا۔ حضرت عثمان نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر اور سعید بن العاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام کو بالکل درست نقلِ مصحف لکھنے کی ذمہ داری سونپی۔ حضرت عثمان نے تینوں اہل قریش سے فرمایا کہ، اگر کہیں آپ حضرات، زید بن ثابت سے قرآن کے کسی نکتہ پر غیر مطمئین ہو تو لغۃ القریش (اہل قریش کے لہجے ) میں جس طرح درست ہے لکھئے۔ کہ قرآن لغۃ القریش میں نازل ہوا تھا۔ انہوں‌نے ایسا ہی کیا۔ جب قرآن کے متعدد نسخہ جات مکمل ہوگئے تو حضرت عثمان نے اصل نسخہ قرآن حضرت حفصہ کو واپس بھجوادیا۔ حضرت عثمان نے ہر مسلم صوبے یا علاقے میں ایک ایک نسخہ جو انہوں نے اصل سے کاپی کیا تھا بھجوادیا۔ اور اس کے بعد حکم دیا کے وہ تمام قرآن جو نامکمل نسخے تھے یا اس کے علاوہ( نظر ثانی شدہ نہ) تھے جلا دیے گئے تھے۔
(مجھے درج ذیل ضعیف لگتا ہے، اس لئے کہ جب اصل کتاب اور 3 اہل قریش موجود تھے تو ایک آیت کیسے کھو گئی؟)
سعید بن ثابت اس میں یہ اضافہ کرتےہیں کہ ایک آیت جو سورٰ الاحزاب کی جو میں لکھنا بھول گیا تھا، اور یاد تھا کہ رسول اللہ قرات فرماتے تھے۔ جب ہم نے ڈھونڈھی تو ہم کو خزیمہ بن ثابت الانصاری کے پاس ملی۔ اور یہ [AYAH]33:23[/AYAH] تھی۔

کوئی دوسرے صاحب اس حدیث کی تصدیق فرما دیں۔ اور مزید حوالہ بھی عنائت فرمادیں۔

میرا نوٹ: ایسی ہی روایت زید بن ثابت سے بھی ثابت ہے البتہ الفاظ ذرا مختلف ہیں اور دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم دوعدد دوسرے مصحف بھی مدینہ سے دور موجود تھے جو منگوائے گئے جن کا موازنہ حضرت حفصہ کے مصحف سے کیا گیا تھا اور ایک جیسا پایا گیا تھا۔ اس کی درست حدیث کل انشاء اللہ ڈھونڈوں گا۔ یہ میں نے اندھیرے کمرے میں مانیٹر کی روشنی میں لکھا ہے۔ اگر کوئی املا کی غلطی ہو تو بندہ کی غلطی سمجھ کر معاف فرمائیے۔ دوبار کل دیکھوں گا کہ کوئی غلطی تو نہیں ہے۔ کچھ مصنفیں نے سعید کی جگہ سعد اور سید بھی لکھا ہے۔

من العلم والاعلام الرجال ، واللہ اعلم بالصواب۔

والسلام
 
فاروق سرور صاحب
گستاخی معاف ۔ آپ کی تمام تحاریر سے کچھ باتیں ثابت ہوتی ہیں ۔ ان پر اگر ہو سکے تو توجہ فرمائیے ۔ اس میں آپ ہی کا بھلا ہو گا ۔
1 ۔ آپ کی عمر 1400 سال یا اس سے زائد ہے
2 ۔ آپ جیسا ذہین اور بُردبار شخص پاکستان میں کوئی نہیں
3 ۔ آپ لاثانی عالِم ہیں
4 ۔ آپ ہر فن کے ماہر ہیں
5 ۔ دین کی تلاش کی بجائے دین میں غلطیاں تلاش کرنے پر اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں
مجھ سے مندرجہ بالا نتائج کے حوالے پوچھنے کی بجائے خود اپنی تمام تحاریر نیوٹرل ہو کر پڑھ لیجئے کیونکہ میرے پاس آپ کی تحاریر جن کا اکثر حصہ معاندانہ الزامات پر مبنی ہے کو دوبارہ پڑھنے کیلئے وقت نہیں ہے
جناب میں اپنے آپ کو صرف ایک معمولی طالب علم کی حیثیت دیتا ہوں۔ آپ ناخوش ہوتے ہیں میری تحاریرسے، نہ پڑھئے۔
کردار کشی اور بچکانہ رویے کی توقع آپ جیسے بردبار آدمی سے نہیں تھی۔ بہرحال۔ اللہ آپ کو اور ہم سب کو نیک ہدایت دیں۔
والسلام۔
 

اجمل

محفلین
فاروق سرور خان صاحب

ان معلومات کا بہت شکریہ۔ آپ کے پاس بہت درست معلومات ہیں۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ قرآن کتابی صورت میں نہیں موجود تھا۔ لہذا آپ کی مہیا کی ہوئی معلومات میں کچھ مزید اضافہ کی اجازت چاہتا ہوں۔

اس کا ثبوت ایک تو حدیث سے ملتا ہے:
بخاری کتاب الجہاد - کتاب 4-52 نمبر 233 (معاف فرمائیے کہ میں اب تک کسی آن لاین ریفرنس سسٹم کا عادی نہیں ہوا ہوں لہذا کسی دوست سے مدد کا طالب ہوں)
عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے لوگوں کو دشمن علاقہ میں قرآن (کی جلد یا کتاب) کے لے جانے سے منع فرمایا تھا۔

کتاب فضائل القران: 6-61 نمبر 511 زید بن ثابت سے روایت ہے کہ ابوبکر (ر) نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ "تم رسول اللہ کے لئے آیات وحی لکھتے تھے لہذا ۔۔۔ (باقی کی حذف کیا اختصار کی خاطر)۔۔

پھر اللہ تعالی اس کتاب کی قسم کھاتے ہیں خود قرآن میں۔ عقلی بات بھی ہے کہ یہ کتاب موجود تھی ورنہ رسول اللہ کے اتنے مخالفین تھے کے ان کو بار بار کتاب کا تذکرہ کرنے پر اور کتاب کے موجود نہ ہونے پر مزید مخالفت سہنی پڑتی۔
[AYAH]2:2[/AYAH] [ARABIC] ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ[/ARABIC]

[AYAH]2:44[/AYAH] أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنْ۔تُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ
کیا تم دوسرے لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم (اللہ کی) کتاب (بھی) پڑھتے ہو، تو کیا تم نہیں سوچتے؟

اب یہ کتاب کس شکل میں تھی، کب پوری ہوئی دیکھتے ہیں۔ یہ ملتا ہے ہم کو 6-61 نمبر 510 میں کہ انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضیفہ بن الیمان، حضرت عثمان (ر) کی پاس، جب آرمینیا اور اذر بائیجان کی فتح سے پہلے جب عراقی لوگ غزوہ میں شریک تھے۔ اور بتایا کہ شام اور عراق کے لوگ قران کی قراٌت مختلف طریقے سے کرتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ عثمان، اے امیر المومنین، اس سے پہلے کہ یہ لوگ کتاب میں فرق کرنے لگیں، آُپ قرآن حکیم کی قرات کی حفاظت کا بندو بست کیجئے کہ ایسا نہ ہو جائے جیاسا یہود و نصاری نے پہلے کیا۔ تو حضرت عثمان (ر) نے حضرت حفصہ کو کہلوایا کہ ہم کو قران کا نسخہ بھیج دیجئے تاک ہم قرآن کے بالکل درست نسخے بنوا سکیں اور پھر اصل مسحف آپ کو بھجوا دیں۔حضرت حفصہ نے یہ مصحف حضرت عثمان کو بھجوادیا۔ حضرت عثمان نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر اور سعید بن العاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام کو بالکل درست نقلِ مصحف لکھنے کی ذمہ داری سونپی۔ حضرت عثمان نے تینوں اہل قریش سے فرمایا کہ، اگر کہیں آپ حضرات، زید بن ثابت سے قرآن کے کسی نکتہ پر غیر مطمئین ہو تو لغۃ القریش (اہل قریش کے لہجے ) میں جس طرح درست ہے لکھئے۔ کہ قرآن لغۃ القریش میں نازل ہوا تھا۔ انہوں‌نے ایسا ہی کیا۔ جب قرآن کے متعدد نسخہ جات مکمل ہوگئے تو حضرت عثمان نے اصل نسخہ قرآن حضرت حفصہ کو واپس بھجوادیا۔ حضرت عثمان نے ہر مسلم صوبے یا علاقے میں ایک ایک نسخہ جو انہوں نے اصل سے کاپی کیا تھا بھجوادیا۔ اور اس کے بعد حکم دیا کے وہ تمام قرآن جو نامکمل نسخے تھے یا اس کے علاوہ( نظر ثانی شدہ نہ) تھے جلا دیے گئے تھے۔
(مجھے درج ذیل ضعیف لگتا ہے، اس لئے کہ جب اصل کتاب اور 3 اہل قریش موجود تھے تو ایک آیت کیسے کھو گئی؟)
سعید بن ثابت اس میں یہ اضافہ کرتےہیں کہ ایک آیت جو سورٰ الاحزاب کی جو میں لکھنا بھول گیا تھا، اور یاد تھا کہ رسول اللہ قرات فرماتے تھے۔ جب ہم نے ڈھونڈھی تو ہم کو خزیمہ بن ثابت الانصاری کے پاس ملی۔ اور یہ [AYAH]33:23[/AYAH] تھی۔

کوئی دوسرے صاحب اس حدیث کی تصدیق فرما دیں۔ اور مزید حوالہ بھی عنائت فرمادیں۔

میرا نوٹ: ایسی ہی روایت زید بن ثابت سے بھی ثابت ہے البتہ الفاظ ذرا مختلف ہیں اور دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم دوعدد دوسرے مصحف بھی مدینہ سے دور موجود تھے جو منگوائے گئے جن کا موازنہ حضرت حفصہ کے مصحف سے کیا گیا تھا اور ایک جیسا پایا گیا تھا۔ اس کی درست حدیث کل انشاء اللہ ڈھونڈوں گا۔ یہ میں نے اندھیرے کمرے میں مانیٹر کی روشنی میں لکھا ہے۔ اگر کوئی املا کی غلطی ہو تو بندہ کی غلطی سمجھ کر معاف فرمائیے۔ دوبار کل دیکھوں گا کہ کوئی غلطی تو نہیں ہے۔ کچھ مصنفیں نے سعید کی جگہ سعد اور سید بھی لکھا ہے۔

من العلم والاعلام الرجال ، واللہ اعلم بالصواب۔

والسلام
جناب آپ عالِم ہیں ۔ مجھ جیسا دو جماعت پاس آپ کو جھٹلانے کی گستاخی نہیں کر سکتا ۔ لیکن یہ انسان کی فطرت ہے کہ جو کم جانتا ہے وہ اپنے تھوڑے سے علم کو بیان کئے بغیر نہیں رہتا ۔ آپ عربی دان بھی ہیں لیکن جس عرب ملک میں میں رہا وہاں خط ۔ منٹس اور کسی بھی عربی یا انگریزی یا اردو کی لکھائی کو کتاب کہتے تھے ۔

دیگر آپ کا اگر خیال ہے کہ قرآن شریف رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وقت میں اس طرح کتاب کی صورت میں تھا جس طرح آج ہے تو از راہ کرم کچھ صنعتی تاریخ کا بھی مطالعہ کر لیجئے ۔ کم از کم سن 200 ہجری تک عرب تو کیا یورپ اور امریکہ میں بھی کاغذ موجود نہ تھا ۔ اس زمانہ میں لکھائی جانوروں کی کھالوں اور خاص قسم کے درختوں کی چھالوں پر کی جاتی تھی ۔ کاغذ چین میں ایجاد ہوا اور مسلمان عرب تاجرون کی وساطت سے عرب ۔ یورپ اور امریکا میں پہنچا ۔
 

فرید احمد

محفلین
کتاب کا لفظ قرآن میں قرآن میں قران کے معنی میں اور دیگر مصاحف کے لیے مستعمل ہوا ہے ، اس سے پورے قران کا معنی مراد لینا سراسر غلط ہے ۔ قران 23 سال میں متفرق طور پر نازل ہوا ، سورت در سورت بھی نہیں‌، کبھی ایک آیت ، کبھی ایک سورت ، کبھی ایک آیت کا بھی ایک ٹکڑا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاتب کو بلا کر کہتے کہ اس ٹکڑے کو فلاں سورت میں فلاں آیت کے اوپر یا نیچے یا درمیان میں لکھیں ۔
ایسے میں لفظ قرآن سے پورا قران مراد لینا غلط ہے ۔
اس زمانہ میں جب کہ کتابوں کی یہ دنیا نہ تھی ، پورا قرآن یقینا چند بڑے صندوق سے کم نہ ہوگا ۔ ایسے میں اس حدیث کو سمجھ لیجیے کہ کفار کے ملک میں قرآن کو نہ لے جائیں ، یعنی قرآن کو جو حصہ جس کے پاس ہو ، وہ نہ لے جائے ، چاہے وہ پورا ہو کچھ ۔ اس سے بھی قرآن کے پورے ہونے پر کیسے استدلال ؟
جناب ذرا عقل کو کام میں لائیں ِ ِ
قرآن تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی آخری زندگی تک نازل ہوتا رہا ۔ تو پھر پورا قرآن تو نبی کی وفات کے بعد ہی موجود ہو سکے گا ۔ ایسے میں قران کے لفظ " کتاب " اور اس سفر میں نہ لے جانے والی حدیث سے پورا قران کیسے مراد ہوگا ؟


آپ نے لکھا ہے :
(مجھے درج ذیل ضعیف لگتا ہے، اس لئے کہ جب اصل کتاب اور 3 اہل قریش موجود تھے تو ایک آیت کیسے کھو گئی؟)
سعید بن ثابت اس میں یہ اضافہ کرتےہیں کہ ایک آیت جو سورٰ الاحزاب کی جو میں لکھنا بھول گیا تھا، اور یاد تھا کہ رسول اللہ قرات فرماتے تھے۔ جب ہم نے ڈھونڈھی تو ہم کو خزیمہ بن ثابت الانصاری کے پاس ملی۔ اور یہ سورۃ الاحزاب:33 , آیت:23 تھی۔
میں اس کو سمجھا چاہوں گا ۔
جو روایت آپ نے لکھی ہے وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے ، حضرت عثمان سے پہلے قران کا مکمل نسخہ حضرت ابوبکر جمع کروا چکے تھے ۔ جیسا کہ میں اوپر درج کر چکا اور اس روایت میں بھی یہ الفاظ ہے کہ حضرت عثمان نے حضرت حفصہ سے مصحف منگوا بھیجا ۔ حضرت حفصہ کے پاس وہی حضرت ابو بکر والا مصحف موجود تھا۔
حضرت عثمان نے جب دوبارہ جمع کرنے کی ذمہ داری سونپی تو ان حضرات نے حضرت زید وغیرہ نے وہی طریقہ اختیار کیا جو پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ والے زمانے میں کیا تھا ، یعنی ہر ایک کے پاس سے اس کے پاس موجود لکھا ہوا حصۃ منگواتے ، اس پر دو گواہیاں لیتے کہ یہ حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھا گیا یا وفات والے آپ کو پیش کیا جا چکا تھا ۔ ( ہر سال رمضان میں حضرت جبریل کے ساتھ مکمل قران کے دور کی باقاعدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا اور وافت والے سالے دو دور کیے تھے)
پھر یہ حصہ حضرت زید اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم اس کو اپنے حافظہ سے مقابلہ کرتے ، ان کے پاس موجود نسخوں سے مقابلہ کرتے ، صحابہ نے پیش کی ہوئی دیگر حصوں کا ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ۔
جب حضرت عثمان کے زمانہ میں یہی طریقہ اختیار کیا گیا تو سورہ احزاب کی یہ آیت : من المومنین رجال صدقا ما عاہدوا للہ علیہ ۔ ۔ ۔ ۔ فقط اس طرح تحریری شکل میں دو گواہوں کی شرط کے ساتھ حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہہ کے پاس ملی ۔ یعنی یہ آیت حضرت ابو بکر نے جمع کیے ہوئے نسخہ میں تھی، جمیع حفاظ حضرات کو یاد تھی ۔ مگر اس وقت حضرت عثمان کے دور میں نبی کریم صلی اللہ کی موجودگی میں لکھے ہوئے ہونے کی گواہی کے ساتھ یہ آیت فقط حضرت خزیمہ کے پاس تھی، بقیہ تمام آیات پہلے حضرت ابو بکر کے زمانہ میں اور بعد میں حضرت عثمان کے زمانہ میں بھی جمع کی گئی تو کم سے کم تو دو آدمیوں کے پاس اس گواہی کے ساتھ ملی کہ نبی کریم‌صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کو پیش کیا جا چکا تھا ۔
معلوم ہوا کہ آیت گم نہیں ہوئی تھی ، ہزاروں کو یاد تھی سینکڑوں کے پاس لکھی ہوئی موجود تھی ، مگر اس شرط کے ساتھ لکھی ہوئی فقط ایک صحابی کے پاس تھی ، وہ بھی پہلے حضرت ابو بکر والے جمع میں تو شرائط کے ساتھ موجود پائی گئی تھی ۔
مذکور حدیث‌سے جو مطلب آپ نے سمجھا وہ اس پش منظر کے آپ کے علم میں نہ ہونے کہ وجہ سے ہے ۔
امید کہ بات واضح ہو گئی ہوگی۔
 
Top