واصف بحضورِ اقبال

حسان خان

لائبریرین
السلام اے ملتِ اسلامیہ کے جاں نثار
السلام اے پیرِ رومی کے مریدِ باوقار
وہ تصور جو تجھے رکھتا تھا پیہم بے قرار
اس تصور کا کیا ہے کس نے دامن تار تار
رنگ و بو میں اڑ گئی ہے اس چمن کی آبرو
جس چمن میں تھی ترے نغمات سے فصلِ بہار
آرزو کا مدعا کیا تھا؟ شکستِ آرزو؟
کارواں کو کیا ہوا حاصل بجز گرد و غبار
کس کی غفلت سے شکستہ ہو گئے جام و سبو
میکدے کا میکدہ کیوں ہو گیا ہے سوگوار
آہ اے اقبال تو واقف نہ تھا اس راز سے
اس وطن کے راہبر تجھ کو کریں گے شرمسار
لا الٰہ کے دم سے تھا میرے وطن کا اتحاد
لا الٰہ کو چھوڑنے کا ہے نتیجہ انتشار!
اے خودی کے رازداں فریاد ہے، فریاد ہے
ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تیرا انوکھا شاہکار!
اے شریکِ زمرۂ لا یحزنون تو ہی بتا
نوجوانانِ چمن کیوں ہو گئے ہیں اشکبار
افتخارِ ملک و ملت، شاعرِ اسلام سن
یاد کرتے ہیں تجھے لاہور کے لیل و نہار
شمعِ آزادی جو تیری فکر سے روشن ہوئی
عزمِ تازہ مانگتی ہے حریت کی یادگار
کہا کہے واصف کہ یہ اقبال کا پیغام ہے
ہوشیار اہلِ جنوں، اہلِ خرد سے ہوشیار
(واصف علی واصف)
 
Top