بحر کی تبدیلی کے بعد

شیرازخان

محفلین
غزل

صاف ستھرا اسقدر دیکھو وہ مکاں بھی تو نہیں تھا
اس کا اپنے دل پہ کچھ اتنا دھاں بھی تو نہیں تھا
اب زمیں پاؤں تلے سے ہی نکلتی جا رہی تھی
اب مرے سر پہ کھڑاوہ آسماں بھی تونہیں تھا
قافلہ لٹنے کا دکھ تو اک طرف تھا ہی مگر اب
وہ جو ہمراہ تھا مرے وہ کارواں بھی تو نہیں تھا
لے تو آیا ہوں میں یہ صدمہ اٹھا کرساتھ اپنے
پر جلا تھا جو ، مرا وہ آشیاں بھی تو نہیں تھا
ٹوٹ کے برسی ہیں کیوں شیرؔ از یہ آنکھیں یکایک
آج بارش کا کہیں نام و نِشاں بھی تو نہیں تھا
 
صرف وزن کی بات کرتا ہوں:

صاف ستھرا اسقدر دیکھو وہ مکاں بھی تو نہیں تھا
اس کا اپنے دل پہ کچھ اتنا دھاں بھی تو نہیں تھا
//پہلے مصرعے میں ”وہ“ وزن سے زائد ہے۔ شاید ٹائپو ہوگا۔
دوسرے مصرعے میں دھیان غلط باندھا ہے۔

اب زمیں پاؤں تلے سے ہی نکلتی جا رہی تھی
اب مرے سر پہ کھڑاوہ آسماں بھی تونہیں تھا
//پہ کی جگہ ”پر“ لکھو۔

قافلہ لٹنے کا دکھ تو اک طرف تھا ہی مگر اب
وہ جو ہمراہ تھا مرے وہ کارواں بھی تو نہیں تھا
//ہمراہ کا تلفظ ”مفعول“ یا ”فاعیل“ یا ”شیراز“ کے برابر ہے۔ اس سے آخری ”ہ“ گرانا جائز نہیں۔

لے تو آیا ہوں میں یہ صدمہ اٹھا کرساتھ اپنے
پر جلا تھا جو ، مرا وہ آشیاں بھی تو نہیں تھا
//درست ہے۔

ٹوٹ کے برسی ہیں کیوں شیرؔ از یہ آنکھیں یکایک
آج بارش کا کہیں نام و نِشاں بھی تو نہیں تھا
//درست۔
 

شیرازخان

محفلین
صرف وزن کی بات کرتا ہوں:

صاف ستھرا اسقدر دیکھو وہ مکاں بھی تو نہیں تھا
اس کا اپنے دل پہ کچھ اتنا دھاں بھی تو نہیں تھا
//پہلے مصرعے میں ”وہ“ وزن سے زائد ہے۔ شاید ٹائپو ہوگا۔
دوسرے مصرعے میں دھیان غلط باندھا ہے۔

اب زمیں پاؤں تلے سے ہی نکلتی جا رہی تھی
اب مرے سر پہ کھڑاوہ آسماں بھی تونہیں تھا
//پہ کی جگہ ”پر“ لکھو۔

قافلہ لٹنے کا دکھ تو اک طرف تھا ہی مگر اب
وہ جو ہمراہ تھا مرے وہ کارواں بھی تو نہیں تھا
//ہمراہ کا تلفظ ”مفعول“ یا ”فاعیل“ یا ”شیراز“ کے برابر ہے۔ اس سے آخری ”ہ“ گرانا جائز نہیں۔

لے تو آیا ہوں میں یہ صدمہ اٹھا کرساتھ اپنے
پر جلا تھا جو ، مرا وہ آشیاں بھی تو نہیں تھا
//درست ہے۔

ٹوٹ کے برسی ہیں کیوں شیرؔ از یہ آنکھیں یکایک
آج بارش کا کہیں نام و نِشاں بھی تو نہیں تھا
//درست۔
بہت شکریہ جناب۔۔۔۔۔۔”وہ“ وزنٹائپوہے۔۔اوردوسرے مصرعے میں دھیان کی سمجھ نہیں آئی؟؟
2۔نیز "پہ" بھی ٹاہپو ہی ہے۔۔۔۔
3۔ساتھ جو میرے چلا، وہ کارواں بھی تو نہیں تھا۔۔۔۔۔کیسا ہے؟؟؟
 
دوسرے مصرعے میں دھیان کی سمجھ نہیں آئی؟؟
”دھیان“ کے بارے میں مجھے استاد محترم جناب یعقوب آسی صاحب نے بڑے اچھے انداز سے سمجھایا تھا:
اللہ نے ہی اس کا ، ایسا دھیاں بنایا
اس ’’دھیان‘‘ میں دو باتوں پر دھیان دیجئے گا۔
اول یہ کہ اس کی یاے شعر میں نہیں بولتی جیسے کیا (سوالیہ)، پیارا، پیاس، کیوں میں نہیں بولتی۔
دوسرے اس کا نون غنہ نہیں ہو سکتا۔
 

شیرازخان

محفلین
صرف وزن کی بات کرتا ہوں:

صاف ستھرا اسقدر دیکھو وہ مکاں بھی تو نہیں تھا
اس کا اپنے دل پہ کچھ اتنا دھاں بھی تو نہیں تھا
//پہلے مصرعے میں ”وہ“ وزن سے زائد ہے۔ شاید ٹائپو ہوگا۔
دوسرے مصرعے میں دھیان غلط باندھا ہے۔

اب زمیں پاؤں تلے سے ہی نکلتی جا رہی تھی
اب مرے سر پہ کھڑاوہ آسماں بھی تونہیں تھا
//پہ کی جگہ ”پر“ لکھو۔

قافلہ لٹنے کا دکھ تو اک طرف تھا ہی مگر اب
وہ جو ہمراہ تھا مرے وہ کارواں بھی تو نہیں تھا
//ہمراہ کا تلفظ ”مفعول“ یا ”فاعیل“ یا ”شیراز“ کے برابر ہے۔ اس سے آخری ”ہ“ گرانا جائز نہیں۔

لے تو آیا ہوں میں یہ صدمہ اٹھا کرساتھ اپنے
پر جلا تھا جو ، مرا وہ آشیاں بھی تو نہیں تھا
//درست ہے۔

ٹوٹ کے برسی ہیں کیوں شیرؔ از یہ آنکھیں یکایک
آج بارش کا کہیں نام و نِشاں بھی تو نہیں تھا
//درست۔
برائے مہربانی مطلعے پہ ایک ڈال دیجیئے؟؟؟
صاف ستھرا اسقدر دیکھو وہ مکاں بھی تو نہیں تھا
اس کا چہرہ اس کے دل کا ترجماں بھی تو نہیں تھا
 
Top