بجٹ آ گیا ہے

ہر سال سنتے ہیں بجٹ آ گیا ہے۔
اللہ جانے کہاں سے آتا ہے یہ بجٹ جس پر اختلاف ہی اختلاف ہوتے ہیں۔ جس کی تعریف صرف حکمران طبقہ کرتا ہے۔
بجٹ بنتا ہے آمدنی اور اخراجات کے مطابق اور ہمارے اخراجات تو شہانہ ہیں اور آمدن کا ایک بہت بڑاحصہ قرضوں کا ہوتا ہے۔ جو جتنابھی مل جائے ہم سمجھتے ہیں کم ہے۔
ہمارے حکمرانوں کی اعلیٰ ظرفی کا اندازہ لگا لیجئے کتنے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم اتنے ٹرلین قرضہ لینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
ان کو یہ سمجھ نہیں آ تی کہ ان کا بزنس ہے قرضے دینا وہ تو دو دو ہاتھ دیتے ہیں کوئی گاہک تو بنے
آپ اخبار کھولیں تو سب سے بڑے اشتہار بنکوں کے ہوتے ہیں ہر کوئی دوسرے سے بڑھ کر رشک پیدا کرنے کے چکر میں ہوتا ہے۔
عوام کو گروی رکھ کے قرضے لیتے ہیں اور عیاشی کر رہے ہیں
ستر سال گزر گئے اور قرضہ بڑھتا ہی جا رہا ہے آگے اندازہ لگا لیجئے بجٹ کا کہ یہ آتا کہاں سے ہے۔
چوہدریوں کے بجٹ ایسے ہی ہوتے ہیں جب بھی جیب خالی ہوئی بنک سے قرضہ لے لیا اگر زیادہ جلدی ہوئی تو دو چاار کنال زمین بیچ دی۔
فضول خرچ کبھی بھی اپنا بجٹ ٹھیک نہیں کرسکتا
کہتے ہیں چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاو جب مزدور سپر جناح کے لیول کے بجٹ بنانا شروع کردے تو پھر یہی حالات ہوتے ہیں۔
یہ بجٹ مجھے تو جدید پڑھے لکھے بھکاریوں کی عیاشیوں اور فضول خرچیوں کی فہرست لگتی ہے۔
کیا بھونٖڈا مزاق ہو رہا ہے ہمارے ساتھ
جب عوام سو ئی رہے گی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
جہاں سے درستگی کی ضرورت ہے وہ بات ہی کوئی نہیں کرتا اور ۔۔۔۔۔۔۔
کوئی شکوہ کرتا ہے کہ اتنی تنخواہ میں مزدور کیسے گزارا کر سکتا ہے۔اس کابجٹ ۱۵۰۰۰ میں کیسے بنے گا ۔
عجیب بات کرتے ہیں اب مزدور نے تو اپنابجٹ خود ہی بنانا ہے ۔جتنی جس کی پسلی ہے اپنا بجٹ بنا لے اگر تھوڑے پیسے ہیں تو راجہ بازار جو ہے۔
اور اگر زیادہ گنجائش ہے تو سپر جناح یا لبرٹی کا بھی سوچا جا سکتا ہے۔
اگر اور زیادہ ہے تو آکسفورڈ بھی حاضر ہے مگر پی آئی کی ٹکٹ سے معزرت
دیکھیں اب بجٹ بناتے ہوئے اخراجات ، آمدنی کے علاوہ رتبہ کابھی تو خیال رکھنا ہوتا ہے اور پھر اوپر سے سیکوررٹی ایشو کا بھی مسئلہ ہوتا ہے۔
اگر آپکو میری باتیں ناگوار لگی ہوں تو پیشگی معزرت
مجھے کیا پتا بجٹ کیا ہوتا ہے یہ حسابو کتابو لوگوں کا شغل ہے
اپنا کیا ہےکچھ جیب میں ہوا تو اترا کر چل لیا اور جیب خالی ہوئی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top