باکمال بزرگ - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ کبھی بچے بھی رہے ہوں گے۔ اور جب بچے ہوں گے تب آپ نے اپنے بزرگوں کے کارنامے بھی سنے ہوں گے۔۔ ایسے ایسے کارنامے کے عقل دنگ رہ جائے۔ بھئی کیا کمال دور تھا۔۔۔ کیسے کیسے بزرگ ہوا کرتے تھے۔ اس دور میں تو یہاں تک مشہور تھا کہ بزرگ ہو اور باکمال نہ ہو۔۔۔ سمجھو بزرگ ہی نہیں۔۔۔۔ ایسے ہی کچھ باکمال بزرگوں کی زندگیوں سے کچھ سبق آموز واقعات پیش خدمت ہیں۔

تو جناب یہ بزرگ تھے بہت زبردست۔۔۔ پیدل چلنے کے بہت شوقین تھے۔۔۔ پیدل چلنا۔۔ لاہور سے جو نکلنا تو امرتسر چلے جانا۔۔۔ پورے گھر والوں نے علاقے کی مساجد میں اعلان کروا کروا کر تھک جانا۔۔۔ مگر بزرگ کا کہاں پتا چلنا۔۔۔ وہ تو وہاں کوئی دوسرا خاندان کا بزرگ جو محض اتفاق سے پیدل ہی ہری مرچیں یا ٹماٹر خریدنے گیا ہوتا۔۔۔ ان کو بازار میں پھرتا دیکھ لیتا۔۔۔ اور ڈانٹ ڈپٹ کر واپس لے آتا۔۔۔ بس جی عجیب دور تھا ۔۔۔میلوں کا سفرآن کی آن میں طے کرلینا۔۔۔ اک بار کرنا ایسا ہوا۔۔۔ کہ لاہور سے فیصل آباد جانا تھا۔۔۔ اور حقہ بھی ساتھ تھا۔۔۔ لاری والے ٹھہرے بدتمیز اور گستاخ۔۔ کہنے لگے کہ حقہ لاری کے اندر نہ رکھنے دیں گے۔۔ بزرگ نے بارہا سمجھایا۔۔۔ کہ یار حقہ کے بغیر سفر نہ ہوگا۔۔۔ تو گستاخی کی ساری حدیں پار کر گئے۔۔۔ کہنے لگے چھت پر باندھ دیتے ہیں۔۔۔ اس پر جو بزرگ کو جلال آیا۔۔۔ تو بس سے اتر آئے۔۔۔ اور کہنے لگے۔۔۔ اب فیصل آباد میں ہی ملاقات ہوگی۔۔۔ بس والا ہر سٹاپ پر رکتے سواریاں اتارتے چڑھاتے جب فیصل آباد بس اڈے پر پہنچا۔۔۔ تو یہ بزرگ وہاں انتظامیہ کی چارپائی پر بیٹھے حقہ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔۔۔ ڈرائیور کو دیکھ کر کہنے لگے۔۔ کیوں کاکا۔۔۔ بس اتنی ہی تھی رفتار۔۔۔۔ انتظامیہ نے جب بتایا۔۔۔ کہ بزرگ پیدل ہی آگئے تھے۔۔۔ اور کب کے آئے بیٹھے ہیں۔۔۔ تو حیرت سے اس کی آنکھیں کانوں تک پھیل گئیں۔۔۔ کہتے ہیں جھیل جیسی آنکھوں والا محاورہ اسی دن ہی ایجاد ہوا تھا۔۔ واللہ اعلم

اور یہ کتنے دن کا قصہ ہے۔۔۔ ایک گستاخ نے معصومیت سے سوال کیا۔۔۔۔

(جاری ہے)

نوٹ: تبصرہ جات کے لیے علیحدہ لڑی موجود ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ:
راقم نے اس نابکار کو گھورا۔۔۔۔ اور بزرگ کے قدم چھونے کے لیے آگے بڑھا۔ جذب عقیدت سے سرشار تھی طبیعت ۔ بس یوں سمجھیے کہ "اے تن میرا چشمہ ہووے" والا مصرعہ اسی دن ہی سمجھ آیا۔

اب جو بزرگ سے باہم گفتگو بڑھی۔۔۔ تو انہوں نے اپنے خاندان میں گزرے اک اور بزرگ کی شہ زوری کے واقعات سے پردہ اٹھایا۔۔۔ ذرا انہی بزرگ کی زبانی سنیے۔۔۔

بزرگ اپنے سامنے بیٹھے نوجوانوں کو دیکھا۔۔ اور کہا۔۔۔ کیا جوانیاں تمہاری ہیں۔۔۔ نوجوانوں۔۔ بس ذرا آٹے کی بوری اٹھاتے ہو تو ہانپنے لگتے ہو۔۔۔ یہ پیچھے ڈیرے کی چھت دیکھ رہے ہو۔۔۔ یہ پرانے وقتوں میں بھی چھت ہی تھی۔ اس انکشاف پر اکثر نے انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں۔ یوں بھی فوق العادہ انکشافات پر اظہار کو محاورات کی عملی شکل ضروری تھی۔ بزرگ نے کمال سخاوت سے اس حیرانی کو نظر انداز کرتے ہوئے متبسم لہجے میں بات جاری رکھی۔ میں اس وقت جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا۔۔۔ بس روز کی عادت بنی ہوئی تھی۔۔۔ کہ دو بوریاں بغل میں دبا کر سیڑھیاں چڑھ جایا کرتا تھا۔۔۔ اور اترتا تھا۔۔۔ یہ عمل تیس بار دہراتا۔۔۔ پھر جب جسم گرم ہوجاتا تو ڈنڈ پیلا کرتا تھا۔۔۔ اور مزے کی بات دیکھو کہ میں اپنے ساتھیوں میں سب سے کمزور ہوا کرتا تھا۔۔۔ باقی سب میرا مذاق اڑاتے تھے۔۔۔ غضب خدا کا دیکھو کہ وہ لوگ بھی میرا مذاق اڑاتے تھے جنہیں محلے میں کبوتر کوئی نہ اڑانے دیتا تھا۔ خیر۔۔۔ اس دور باکمال میں ہمارے محلے میں اک بزرگ ہوا کرتے تھے۔۔۔ سب ان کو سائیں بابا کہا کرتے تھے۔۔۔ ہائے۔۔۔ کیا بزرگ تھے۔۔۔ اللہ جنت نصیب کرے۔۔۔ بھئی زندگی بھر کوئی شہ زور دیکھا ہے تو وہ ۔۔۔ واہ کیا طاقت دی تھی اللہ نے مرحوم کو۔۔۔۔ گڈا (بیل کے پیچھے جوتنے والا ریڑھا) اٹھا لیا کرتے تھے۔۔۔ قربانی کے دن بیل کو اکیلے ہی پچھاڑ کر ذبح کر دیا کرتے تھے۔۔ گر کوئی ہاتھ لگانے کی کوشش کرتا۔۔ تو بہت ڈانٹتے۔۔۔ کہتے تم نوجوان لوگ کام خراب کرتے ہو۔۔۔۔ ہم نے جا کر سب سے عید ملنے کے بعد ابھی قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کی تیاری کر رہے ہونا۔۔۔ اور ان کے گھر سے گوشت پہنچ جایا کرتا تھا۔۔۔ واہ واہ۔۔۔ اوئے تم لوگوں نے وہ تو دیکھا ہوا ہے ناں۔۔۔ یہاں سے وہ والا شہر۔۔۔۔ جی جی بالکل۔۔ اک نواجوان فورا بولا۔۔ یہاں سے دو سو کلومیٹر دور ہے۔۔ اس پر بزرگ سرکھجاتے ہوئے بولے۔۔ ہاں بالکل۔۔۔لیکن ہمارے دور میں یہ فاصلے ناپنے کا سلسلہ نہ تھا۔۔۔ بس جہاں تھک جاتے رات کاٹ لیتے تھے۔۔۔ خیر اس سے تھوڑا پہلے اک گاؤں آتا ہے۔۔۔ وہاں جانا تھا۔۔۔ پیدل ہی نکلنے لگے۔۔۔ گھر والوں نے بہت کہا کہ نہیں ،گرمیوں کے دن ہیں۔۔ پیدل نہ جاؤ۔۔ ایسا کرو۔۔۔۔ گڈا لے جاؤ۔۔ پہلے تو نہ مانو۔۔۔ پر جب اصرار بڑھا تو گڈے پر سوار ہو کر نکل گئے۔۔ واپسی پر آدھے سے زیادہ سفر طے کر چکے تھے۔۔۔ کہ گڈے کا اک پہیہ ٹوٹ گیا۔۔۔۔ طبیعت بڑی مکدر ہوئی۔۔۔ بہت سٹپٹائے۔۔ اور گڈا اٹھا کر کاندھے پر رکھا۔۔ ساتھ بیل کو ہانکتے ہوئے لے آئے۔۔۔ کہنے لگے۔۔۔ آئندہ پرائی چیز کا سہارا نہ لوں گا۔۔۔ بھائی اپنے پیروں سے بھلی چیز دنیا میں کوئی نہیں۔۔۔ اس واقعے پر سب نوجوانوں کے منہ حیرت سے کھل گئے۔۔۔ واہ کیا طاقت تھی۔۔۔ اللہ اللہ

(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ:
شام کو چوپال میں اسی طاقت کے تذکرے تھے۔ کہ کیسے کیسے لوگ زیرزمین سو گئے۔ ایک بزرگ نے فرمایا۔۔۔ بیٹا یہ سب پرانی خوراکوں کا اثر ہے۔ مجھے دیکھو۔۔۔ تمام نوجوانوں نے ایک نظر بزرگ پر ڈالی۔ ہڈیاں ہی ہڈیاں۔۔۔ آنکھوں پر کوئی ساٹھ نمبر کا چشمہ اور ہاتھ رعشے کی وجہ سے مسلسل لرزاں۔۔۔ اس پر ایک نوجوان کو پھبتی سوجھی۔ اس نے کہا میں نے بھی پرانی خوراکیں کھا رکھی ہیں۔ ابھی ابھی پرسوں کا رکھا کھانا کھا کر آرہا ہوں۔ اس پر بزرگ جلال میں آگئے۔۔ یوں بھی ایسی باتوں پر جلال میں آنا بنتا ہے۔ محض آدھا گھنٹا کے قریب کھانس کر انہوں نے اپنا گلا صاف کیا۔ اور اس کے بعد انہوں نے ایک تحقیرانہ نگاہ اس نابکار پر ڈالی۔ اور کہا۔۔۔ تمہارے لیے پرانی خوراکیں یہی ہیں۔۔ مگر ہماری پرانی خوراکیں بھی تازہ ہوتی تھیں۔ میں تمہیں اپنی جوانی کی بات سناؤ تو تم دنگ رہ جاؤ۔
اس پر راقم الحروف فورا ملتمس ہوا کہ قبلہ گاہی! گر آپ اس احقر کو ان چشم کشا واقعات سے آشنا فرمائیں۔ تو یہ سر احساس تشکر سے صدا خم رہے گا۔اس پر ایک اور بھی گویا ہوا کہ مجھے بھی دنگ ہوجانے کا شوق ہے۔ مدتیں بیتی کبھی دنگ نہ ہو سکا۔ آج یہ حسرت مکمل ہوتی نظر آتی ہے۔ بزرگ نے اس پر افروختہ افروز انداز میں کہا کہ ہمارے دور میں اسلاف کے سامنے زبان کھولنے کی تاب نہ تھی کسی میں۔ فرماں برداری کا یہ عالم تھا کہ جو اسلاف کہتے خاموشی سے کرتے۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے اپنے باپ کے سامنے کبھی زباں کھولی ہو۔ ایک دن والد صاحب مجھے کہنے لگے کہ یار کچھ بولو۔ مجھے پتا چلے کہ تم بولنا نہیں بھول گئے۔

اس سے پہلے میں تمہیں خوراکوں کے متعلق آگاہی دوں۔ پہلے والدین اور بڑوں کی خدمت اور ادب سے متعلق یہ واقعہ سنو۔ چوپال میں موجود تمام لوگ ہمہ تن گوش ہوگئے۔ بزرگ نے اپنے ایک پرانے دوست (جو کہ خود بھی بزرگ تھے) کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا۔۔۔ اس کو تو یاد ہی ہوگا۔۔۔

ایک دن کی بات ہے کہ میں پورا دن کھیتوں میں کام کر کے تھکا ہارا گھر کو آیا۔ صبح صبح میں نے پانی دینے کو نہر سے بندھ توڑا تھا۔ اس کے بعد پھر وہ بندھ باندھا بھی۔ اس ایک کام میں پورا دن کیسے گزرا پتا ہی نہیں چلا۔ جب تھکن سے براحال ہوگیا۔ اور میں اس نہر کنارے لیٹا لیٹا تھک کر چور ہوگیا۔ تو اٹھا اور گھر کی راہ لی۔ کھانے کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ والد محترم نے جس چارپائی پر سونا ہے۔ اس کی نوار ڈھیلی ہوگئی ہے۔ ایک دوست نے چونک کر دیکھا تو ہنس کر کہنے لگے۔۔۔ میاں یہ سنسکرت والا نوار ہے نہ کہ عربی و فارسی والا۔ اور بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس سوچ سے کہ ساری رات والد بے آرام رہیں گے۔ تاک میں بیٹھ گیا کہ جیسے ہی والد اٹھیں تو میں فورا سے پہلے نوار کو کس دوں۔ تاکہ چارپائی پر آرام کیا جا سکے۔ مگر قدرت کو تو مجھ سے میری فرماں برداری اور محبت کا امتحان مقصود تھا۔ وہی امتحان جو ہر ولی سے لیا جاتا رہا ہے اور فرماں برداری کی اعلیٰ روایات کا مظہر رہا ہے۔

والد صاحب وہیں پر سو گئے۔ اب معاملہ میری برداشت سے باہر ہوگیا۔ اور میں اٹھا اور چارپائی کے نیچے گھس کو چاروں ہاتھوں پاؤں پر گھوڑے کی صورت نیچے جھک کر بان کو سہارا دیا۔ تاکہ والد صاحب کی کمر سیدھی رہے۔۔۔ اب جو والد صاحب بائیں کروٹ لیتے تو میں بھی بائیں سرک جاتا۔ اور دائیں کروٹ لیتے تو دائیں سرک جاتا۔ محض اتفاق کی بات ہے کہ والد محترم جو روانہ تہجد پڑھنے کے عادی تھے۔ اس رات ایسی سکون کی نیند سوئے۔ کہ فجر بھی بس قضا ہی ہوا چاہتی تھی۔ جب بیداری سے اٹھ کر مجھے چارپائی کے نیچے یوں جھکا پایا۔ تو بےاختیار میرا ماتھا چوم لیا۔ اور کہنے لگے۔ ایسی پرسکون نیند تو واللہ۔۔۔۔ کبھی زندگی میں نہ آئی تھی۔ بڑے فخر سے اپنے دوستوں میں یہ قصہ بیان کیا کرتے۔ پھر بزرگ نے تھوڑا سا شرما کر کہا کہ مجھے خبر ملی کہ میری اس فرماں برداری اور ادب کے تذکرے گاؤں کی عورتوں میں چرخہ کاتتے بھی ہونے لگے۔ اس پر دوسرے بزرگ ہنس کر کہنے لگے ہاں۔۔۔۔ وہ چرخے والی بات بھی درست ہے۔۔۔۔ شام کو کھیتوں کے کنارے بانسری بجانا بھی تو نے اس کے بعد ہی سیکھا تھا۔۔۔۔۔ اس پر پہلے بزرگ ذرا مزید شرما گئے۔۔۔۔

سب نوجوان دنگ تھے۔ چوپال پر سکوت طاری۔۔۔۔

(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ:

کچھ ثانیے یوں ہی گزرے تھے۔ کہ دوسرے بزرگ نے کہا۔ چل اب شرمانا چھوڑ۔ تجھے وہ دلارا یاد ہے۔ وہ جس کو سب زنگی کہتے تھے۔ یہ بات سن کر پہلے بزرگ ہنسنے لگے۔ یہاں تک کہ ان کو کھانسی لگ گئی۔ پہلے بزرگ نے کھانسنے کے درمیان یوں ہاتھ ہلایا۔ جیسے کہہ رہے ہوں چھوڑ یار! اور جب ذرا کھانسی تھمی تو انہوں نے واقعی یہی کہا۔ اور مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا۔ کہ یہ بچے یقین نہ کریں گے۔ اس پر ایک چوپال میں موجود ایک نوجوان بولا۔ جناب ہم کیوں یقین نہ کریں گے۔ آپ سنائیں۔ تو بزرگ کہنے لگے۔ یار پہلے تمہیں اس دور کی خوراکوں کے بارے میں نہ بتا دوں۔ تو وہ نوجوان بچوں کی طرح مچلنے لگا کہ نہیں پہلے ہمیں دلارے کے متعلق بتایا جائے۔ اس پر بزرگ نے تمام حاضرین پر نظر ڈالی۔ اور سب کے چہرے پر ایک مثبت تاثر دیکھ کر ہتھیار ڈالتے ہوئے کہنے لگے۔ اچھا چلو اب تم ضد کرتے ہو تو سناتا ہوں۔

نام تو اس کا بخشن تھا۔ مگر مشہور وہ پورے گاؤں میں دلارے کے نام سے تھا۔ سیہ تاب تھا۔ اتنا کہ بسا اوقات تارکول کا گماں ہوتا۔ اور اکثر اوقات بھی تارکول کا ہی۔ یہ واقعہ ہمیں دلارے نے خود ہی سنایا تھا۔ اور اس کے بعد گاؤں کی چوپال میں اس کا اتنا مذاق اڑایا گیا کہ اس نے یہ مشہور کر دیا کہ یہ محض مذاق کی بات تھی۔ اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ واقعہ دلارے کی زبانی ہی سنیے۔

میں کھیتوں میں ہل چلانے میں مصروف تھا۔ ہل چلاتے چلاتے سورج سر پر آن پہنچا۔ محض اتفاق کی بات ہے۔ کہ میں نے قمیص اتار رکھی تھی۔ اتنی دیر میں میری والدہ کھانا لے کر آتی دکھائیں دیں۔ میں نے سوچا کہ اس سے پہلے والدہ مجھ تک پہنچیں۔ میں کدال لے کر کھال کا راستہ کھول دوں۔ تاکہ میرے کھانے سے فراغت حاصل کرنے تک ایک کھیت سیراب ہو سکے۔ میں کدال لے کر کھال کھولنے لگا تو دیکھا کہ والدہ میرے پاس سے گزر کر آگے کو چلی جاتی ہیں۔ میں حیران ہوگیا۔ اور آواز دی کے بےبے کدھر۔ اس پر والدہ نے پیچھے مڑکر دیکھا۔ اور کہنے لگیں۔

اوئے دلاریا! اے توں ایں! میں سمجھی کٹا چرن ڈیا اے۔ (اوئے دلارے یہ تم ہو۔ میں سمجھی بھینسا چر رہا ہے۔)

اس پر چوپال فلک شگاف قہقہوں سے گونج اٹھا۔

جب ذرا قہقہوں کا طوفان تھما۔ تو بزرگ نے کہا۔۔۔ خیر یہ واقعہ تو برسبیل تذکرہ یوں ہی بیچ میں آگیا۔۔۔

(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ:

وہ خوراک والے قصے تو رہ ہی گئے۔ ایک نوجوان ہاتھ ملتے ہوئے ملتمس ہوا۔ بھئی آج تو میں بہت تھک گیا ہوں۔ ویسے بھی رات شروع ہو گئی ہے۔ اس قصے کو کسی اور دن پر اٹھا رکھو۔ چند دن گاؤں کے نوجوانوں کی زبان پر انہی لوگوں کے قصے تھے۔ اور ہر کوئی اپنے اپنے مزاج کے مطابق لطف اٹھا رہا تھا۔ کہ ایک دن راقم الحروف نے بزرگ کو دوبارہ چوپال میں چھاپ لیا۔ اور کہا کہ آج ادھورے قصے سنے بغیر ہم نہ جائیں گے۔ باقی سب نے بھی بھرپور تائید کی۔ اور بزرگ کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ چوپال سج گئی۔ بزرگ کے حقے کی چلم بھری گئی اور حقے کے دو چار کش لگانے کے بعد وہ کچھ یوں گویا ہوئے۔
بھئی بات یہ ہے کہ جب ہم چھوٹے تھے۔ تو کیا زندگی تھی۔ بہت ہی سادہ اور زبردست۔ آج کے دور کی طرح تصنع سے عبارت نہ تھی۔ ماں نے صبح اٹھ کر گھر میں جھاڑو دینا۔ پھر بھینسوں کا دودھ دوہنے کے بعد اپلے جلا کر ابلنا رکھ دینا۔ اور ساتھ ہی ساتھ جھاڑو سے بھی فارغ ہوجانا۔ اتنی دیر میں فجر کی اذانیں ہو جاتی تھیں۔ تو ہم بھی نماز پڑھنے کو اٹھا جایا کرتے تھے۔ نماز کے بعد وہیں مسجد میں ناظرہ پڑھتے۔ اور پھر گھر کو لوٹ آتے۔ خیر یہ سب باتیں تو چلتی رہیں گی میں تمہیں ایک مزے کی بات سناتا ہوں۔
خوش خوراکی میں ہمارا گاؤں بہت مشہور تھا۔ اللہ بخشے ہمارے تایا مرحوم کو ایک روٹی کا ایک نوالہ بنایا کرتے تھے۔ کبھی بہت ہوا تو دو کر لیے۔ اس وقت روٹی بھی بڑی بنتی تھی۔۔۔ یہ چھوٹے چھوتے توے نہ تھے۔ بلکہ ایک بڑی سی توی ہوا کرتی تھی۔ جس پر اکھٹی چار پانچ روٹیا ں پکائی جاتی تھیں۔ گھر کی خواتین تین اطراف میں بیٹھ جاتیں۔ اور اوپر روٹیاں بناتی چلی جاتیں۔ ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ تایا جی بڑے خوش خوراک تھے۔ دودھ کے بڑے شوقین تھے۔ روزانہ صبح کوئی سات آٹھ کلو دودھ پیا کرتے تھے۔ اور اس کے بعد ناشتہ کرتے۔ اکثر بلونے کے دوران ہی چاٹی منہ کو لگا کر ساری لسی پی جاتے اورسارے مکھن کے گولے بنا بنا کر کھاجاتے۔ اگر ان سے پہلے کوئی اور مکھن یا لسی پر ہاتھ صاف کر جاتا تو بڑا ناراض رہتے۔ پورا دن طبیعت پر بیزاری رہتی۔ دادی مرحوم ان کی خوراک کو ہاتھی کی خوراک سے تشبیہ دیا کرتی تھیں۔ کھانا بہت عجلت میں کھایا کرتے تھے۔ اور منہ میں لقمے پر لقمہ ڈالتے چلے جاتے۔ بعض اوقات تو اس طرح کھاتے کہ سانس لینے کا باقاعدہ وقت نکالنا پڑتا تھا۔ ایک دن میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ تایا کے سامنے بکرے کے گوشت سے ایک کڑاہی بھری رکھی تھی۔ کھاتے کھاتے سانس اکھڑ گئی۔ تو اشارے سے مجھے کہنے لگے۔ جلدی جلدی پانی دے۔ میں نے بھی مٹکا اٹھا کر دے دیا۔ مٹکا منہ کو لگایا اور ایک ہی سانس میں خالی کر دیا۔ ان کے اس واقعے کے بعد میں نے خاندان میں مشہور کر دیا کہ تایا کھانا کم کھاتا ہے اور ریس زیادہ لگاتا ہے۔ان کو ایک بہت پرلطف واقعہ سناتا ہوں جو کچھ یوں ہے کہ ہماری دادی نے ان کو ایک بڑے گیلن میں دیسی گھی ڈال کر دیا۔ جو کہ انہوں نے دوسرے گاؤں اپنی خالہ کے گھر پہنچانا تھا۔ خالہ کا گاؤں کافی دور تھا۔ چنانچہ تایا مرحوم صبح سویرے گیلن اٹھا کر گھر سے نکل گئے۔ دوپہر کے قریب ہی واپس آگئے۔ اور آکر سو گئے۔ گھر والوں نے دیکھا تو گیلن خالی تھا۔ دادی نے پوچھا کہ کوئی بیس کلو گھی تھا۔ آخر گیا کہاں۔ کیا گر گیا۔ شام کو اٹھے تو یہی سوال جواب کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ تو تایا کہنے لگے کہ جب میں یہاں سے نکلا تو میں نے سوچا کہ یہ جو درختوں کا جھنڈ ہے۔ اس کے اندر سے راستہ مختصر ہے۔ یہاں سے چلا جاتا ہوں۔ ابھی درمیان میں ہی پہنچا تھا کہ چند ڈاکو مجھے اپنی طرف آتے نظر آئے۔ میرے پاس اور تو کچھ تھا ہی نہیں۔ یہ گھی ہی تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ گھی ہی لے جائیں گے۔ سو وہیں گیلن کا ڈھکن ہٹایا اور سارا گھی پی گیا۔ یہ منظر دیکھ کر ڈاکو وہاں سے بگٹٹ بھاگ اٹھے۔ گیلن خالی کرنے کے بعد آگے جانے کی کوئی وجہ نہ رہتی تھی سو واپس آگیا۔ ہمارے خاندان میں ڈاکوؤں کا بڑا مذاق اڑایا جاتا رہا کہ گھی پیتا دیکھ کر بھاگ گئے۔

چوپال میں سب نوجوانوں کے منہ کھلے ہوئے تھے اور حیرت زدہ ایک دوسرے کو تک رہے تھے۔

(جاری ہے۔)
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ:

ہم دوستوں کی مجلس میں ان بزدل ڈاکوؤں اور تایا جی کی دیدہ دلیلی کا بڑا تذکرہ رہا ۔ چند ایک احباب کا خیال تھا کہ بزرگ نے فقط زیب داستاں کے لیے بات بڑھا دی ہے۔ الغرض چاہے کسی کو یقین آیا یا نہیں لیکن سب بزرگ کے انداز گفتگو اور بیان کی چاشنی کے لطف میں کھوئے رہے۔ سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی جب کہرا سرِشام ہی کھیتوں کو اپنے دبیز آنچل میں چھپانے لگا تو ہم سب یار دوست دوبارہ چوپال کا رخ کرنے لگے۔ ایسی ہی ایک شام میں عشاء کے بعد جب سب ایک انگھیٹی جلا کر اس کے گرد بیٹھے ہاتھ تاپ رہے تھے، مجلس یاراں میں مونگ پھلی اور گپ شپ سے دل بہلایا جا رہا تھا کہ اتنے میں بزرگ بھی چوپال میں تشریف لے آئے۔ ہم جوانوں نے فورا ان کے لیے جگہ خالی کی اور ان کو گھیر لیا۔ باتیں چلنی شروع ہوئیں تو گردش زمانہ کے باعث گرانی کا موضوع بھی زیرگفتگو آگیا۔ اس پر بزرگ نے کہا کہ میاں! یہ گرانی اشیاء صرف تمہارے دور کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ ہر دور میں اس کا رونا رہا ہے۔ ہمارے اسلاف ہمیں کہا کرتے تھے کہ اب بہت مہنگائی ہو گئی ہے اور ہم یہ چیزیں ان ان قیمتوں میں خریدا کرتے تھے۔ اور ہماری حیرت دیدنی ہوا کرتی تھی بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے دور میں ضروریات زندگی کی قیمتیں سن کر تمہارے دیدہ حیراں قابل دید ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ہے کہ ہمارے دنوں میں یوں نفسا نفسی کا عالم نہ تھا۔ بلکہ ایک دوسرے کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھا جاتا تھا۔ اس پر دوسرے بزرگ کے چہرے پر بڑی شرارتی سی مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔ ایک نوجوان فوراً ان کی طرف متوجہ ہو کر بولا۔ لگتا ہے آپ کو اس رضاکارانہ کام سے جڑا کوئی دلچسپ واقعہ یادآگیا ہے۔ تو وہ بزرگ ہنس پڑے۔ اور اس کے بعد انہوں نے پہلے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ مجھے اس کے رضاکارانہ کام سے جڑا ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ یاد آگیا ہے۔ پہلے بزرگ نے خالی نظروں سے انہیں دیکھا تو بزرگ نے اشارہ دینے کو کہا۔ یاد کر! جب وہ گورکن کا کام رضاکارانہ طور پر شروع کیا تھا۔ اس پر پہلے بزرگ قہقہے لگا لگا کر ہنسنا شروع ہوگئے۔ ہم سب کا تجسس بہت بڑھ چلا تھا سو ساری باتیں پس انداز کر کے اس واقعے کو سنانے کیفرمائش شروع کر دی گئی۔اس پر آخرِکار ان بزرگ کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور وہ واقعہ سنانے پر آمادہ ہوگئے۔

یہ واقعہ جو میں تم کو سنانے جا رہا ہوں یہ ہمار ے مکتب کے دور کی یاد ہے۔ میں اور یہ (دوسرے بزرگ کی طرف اشارہ کر تے ہوئے) نہم کلاس کے طلباء تھے۔ پڑھائی میں ہم درمیانے درجے کے تھے لیکن شرارتوں میں ہم اول درجے کے شیطان مشہور تھے۔ ہم دوستوں نے اس شہرت کا تفصیلی جائزہ لیا اور سوچا کہ ایسا کون سا کام کیا جائے جس سے یہ ساری شہرت ہماری نیک نامی میں بدل جائے۔ اس پر ایک نے کہا کہ گاؤں میں جب بھی کوئی فوت ہوجاتا ہے۔ تو قبر کھودنے کا مرحلہ کافی مسئلہ بن جاتا ہے سو اسی سلسلے میں ہم چار دوستوں نے مل کر ایک رضاکارانہ جماعت کی بنیاد رکھی کہ گاؤں میں کوئی بھی فوت ہوگا تو اس کی قبر ہم جا کر کھود آیا کریں گے۔ جب بھی کسی کے فوت ہونے کا اعلان گاؤں کی مسجد سے ہوتا ہم چاروں دوست بیلچہ کدال لے کر قبرستان کا رخ کرتے اور قبر کھود دیا کرتے تھے۔ ہمارے اس کام کو بڑے چھوٹے ہر کسی نے بہت سراہا جب تک یہ واقعہ نہ ہوا تھا۔

ہمارے ریاضی کے استاد بہت محنت اور لگن کے ساتھ پڑھایا کرتے تھے لیکن تھے بہت سخت گیر۔ کام نہ کرنے پررتی برابر رعایت نہ کرتے اور روئی کی طرح دھنک دیا کرتے تھے۔ تمام طلباء بشمول ہمارے ان سے ڈرتے تھے۔ اور مکتب کے باہر اگر کبھی ان سے سامنا ہوجاتا تو آنکھ بچا کر نکل جانے میں ہی عافیت سمجھا کرتے تھے۔ ایک دن میرا استاد محترم کے گھر کے باہر سے گزرنا ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کہرام سا مچا ہے۔ بہت سے لوگ گھر کے اندر آ جا رہے ہیں۔ میں نے ایک کو روک کر ماجرا پوچھا۔ تو اس نے کہا کہ استاد محترم کی طبیعت بہت خراب ہے۔ شاید ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے۔ یہاں تک رہتا تو بات ٹھیک تھی۔ لیکن اس ظالم نے مجھ سے یہ بھی کہہ دیا کہ میرا خیال ہے اب بچ نہیں پائیں گے۔ میں نے فوراً اپنی رضاکارانہ جماعت کو اکھٹا کیا اور جا کر قبرستان میں ایک قبر کھود ڈالی۔ ادھر جب ہم قبر کھودنے میں مصروف تھے گاؤں کے لوگ کچھ سواری کا بندوبست کر کے استاد محترم کو قریبی ہسپتال لے گئے۔ بروقت طبی امداد نے زندگی بچانے میں مدد کی اور استاد محترم کچھ وقت کے بعد گھر واپس لوٹ آئے۔ ہمارا حال پوچھو تو ایسے کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ پورے گاؤں میں یہ بات پھیل گئی کہ ان چاروں نے تو قبر بھی کھود دی ہے۔ اور وہ تجزیہ نگار عین موقع پر یوں اپنی بات سے پھر گیا جیسے الیکشن جیتنے کے بعد نو منتخب وزیر اعظم پھر جاتا ہے۔ اس کے بعد استاد محترم کافی عرصہ تک حیات رہے لیکن جتنا عرصہ بھی حیات رہے ہم کو ایسی منتقمانہ نگاہوں سے گھورتے رہے جیسے وہ ہماری قبر کھود کر اپنی منتقم حس کی تسکین کا سامان کرنا چاہتے ہوں۔

(جاری ہے)

نوٹ:تبصرہ جات کے لیے علیحدہ لڑی موجود ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ:

شدید حبس کے موسم میں جب سانس لینا بھی دشوار ہوا تھا اور جسم سے پسینہ یوں خارج ہوتا تھا جیسے حکومت کے پانی کی ترسیل کے پائپ ہوں۔ جن میں چھوٹے چھوٹے جابجا سوراخوں کے سبب اتنا پانی پائپ کے اندر نہیں ہوتا جتنا باہر کی سطح پر ہوتا ہے اور اسی سبب رسنے کی جگہ کا اندازہ لگانا بھی ناممکن رہتا ہے۔ ہمارا جسم بھی جب "لوں لوں دے مڈھ لکھ لکھ چشمہ" کی صورت اختیار کر گیا تو دوستوں کے ساتھ طے پایا کہ چل کر ٹیوب ویل پر نیم تلے پانی میں بیٹھا جائے۔ ایک دوست نے حقہ اٹھا لیا اور دوسرے نے آموں کا تھیلا۔
آموں کا تھیلا ٹیوب ویل کے سامنے بنی حودی میں پھینک دیا گیا تاکہ آم ٹھنڈے پانی سے نہا کر ٹھنڈے ہو رہیں۔ قمیصیں اتار کر نیم کی ٹہنیوں کے ساتھ ٹانک دی گئیں اور شلواریں کو گھٹنوں تک چڑھا کر جانگیے بنا لیا گیا۔ پانی میں نہاتے اچھلتے کودتے، آم کھاتے ہمیں احساس ہی نہیں ہوا کہ کب دونوں بزرگ اپنا حقہ اٹھائے ٹیوب ویل کے پاس ہی پڑی چارپائی پر آبیٹھے۔ جب ہماری توجہ ان کی طرف گئی تو ہم نے حوض سے ہی ان کو بھی آم کھانے کی دعوت دی۔ انہوں نے شفقت اور پیار سے انکار کیا۔ اور آپس میں باتیں کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد ہمیں ان بزرگوں کا قہقہہ سنائی دیا۔ ہم سب نے پلٹ کر دیکھا تو وہ دونوں بےاختیار ہنس رہے تھے۔ ہم سب نے بزرگوں کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ اور ہنسنے کی وجہ پوچھنے لگے۔ بزرگ فرمانے لگے۔ تم لوگوں کو نہاتا اور اٹکھیلیاں کرتا دیکھ کر ہمیں اپنا ایک واقعہ یاد آگیا تھا۔ سو اس کو یاد کر کے ہنس رہے تھے۔ ہم نے عرض کی کہ یوں بھی مدت بیتی آپ نے کوئی پرانا واقعہ نہیں سنایا لہذا ہم کو بھی یہ واقعہ سنایا جائے۔ اس پر بزرگ نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور یوں گویا ہوئے۔
جس طرح آج تم لڑکے بالے یہاں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہو،اسی طرح یہ واقعہ بھی تب کا ہے جب ہم تمہاری عمر میں تھے۔ ہم چاروں، میں، یہ (سامنے والے بزرگ کی طرف اشارہ کرکے)، زنگی اور فیضو(جسے ہم ڈھور کہا کرتے تھے) نہر سے نکلنے والے ایک چھوٹے کھال میں پاؤں ڈبوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ڈھور اپنے ابے کا حقہ چوری چھپے اٹھا لایا تھا جب کہ زنگی کہیں سے کچھ مدک چرا لایا تھا۔ مدک کو چلم پر دہکا کر حقے کے جو کش لگے تو ملنگی ماحول بن گیا۔ جگہ ایسی چنی گئی جہاں سے ہم کسی کو نظر نہ آئیں لیکن کوئی بھی کھیتوں کا رخ کرے تو ہم باآسانی اسے دیکھ سکیں۔ طریقہ یہ طے پایا کہ ہر کوئی اپنے سامنے والی سمت کا خیال رکھے گا، تاکہ چاروں اطراف پر نظر رکھی جا سکے اور رنگے ہاتھوں پکڑے نہ جائیں۔ زمین و آسمان کی سمت کو ہم نے کاندھوں پر بیٹھے فرشتوں کے حوالے کر دیا کیوں کہ یہاں سے جو بھی آتا اس کو صرف وہی دیکھ پاتے۔ ہماری اتنی تاب کہاں تھی۔ چھوٹے چھوٹے قصوں سے شروع ہوئی یہ بیٹھک باقاعدہ بڑھک بازی تک جا پہنچی اور اب ہم چاروں مدک باز ایک جھوٹے قصوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔
انہی بڑھک بازیوں میں سب کی توجہ اطراف سے بالکل ہٹ گئی اور ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ کب ڈھور کا باپ ہمارے سروں پر آن پہنچا۔ زمین تو پھٹی نہیں تھی ورنہ ہم لازمی باخبر ہوتے۔ شاید آسمان سے نازل ہوا لیکن ان فرشتوں کا کیا کریں کہ یہ آج تک نہیں بتاتے وہ کہاں سے آیا تھا۔ بہرحال قصہ مختصر ہمیں ہوش تب آیا جب ڈھور کو چند گالیوں کے ساتھ اوپر تلے پانچ چھے اعلیٰ قسم کے تھپڑ پڑے۔ اُس دن ڈھور کو پتا نہیں کیا ہوا، وہ پہلے بھی ہمارے سامنے کئی بار پٹا تھا لیکن شاید آج اس کی انا آڑے آگئی اور وہ اپنے باپ سے الجھ پڑا اور کہتا اب میں یہاں نہیں رہوں گا، میں شہر چلا جاؤں گا۔ یہ دھمکی ڈھور پہلے بھی کئی بار اپنے باپ کو دے چکا تھا، مگر اس دن وہ لاری اڈےکی طرف چل پڑا۔ اس کا ابا اس کے پیچھے اور ہم اس کے ابے کے پیچھے پیچھے ہولئے۔ ہمیں یہ ڈر تھا کہ ڈھور کا ابا کہیں لاٹھی سے اس کی ٹھکائی نہ شروع کر دے۔ جب اڈے پر پہنچے تو وہاں شہر جانے کے لئےلاری تیار تھی۔ ڈھور ایک طرف ہو کر کھڑا ہوگیا۔ جب اس نے دیکھا کہ باپ پیچھے پیچھے آرہا ہے، تو بس کے دروازے کے پاس کھڑا ہوگیا مگر بس میں سوار نہ ہوا۔ ڈھور کا ابا اس کے پیچھے پہنچا تو وہ جیبیں ٹٹولنے کی اداکاری کرنے لگا۔ ہم بھی پاس پہنچ چکے تھے۔ ڈھور کی نظر جب ہم پر پڑی تو اور بھی مچل اٹھا اور اپنے باپ سے یوں مخاطب ہوا۔
ڈھور: میں گھر کائی نہ ویساں (میں اب گھر نہیں جاؤں گا۔ )
اس کا باپ بہت پرسکون انداز میں: کتھاں ویسیں؟ (کہاں جاؤں گے؟)
ڈھورابرو اچکاتے ہوئے: شہر ویساں۔ (میں شہر جاؤں گا۔)
ڈھور کا باپ اسی پرسکون انداز میں: پیسے ہن ؟ (پیسے ہیں تمہارے پاس)
ڈھور سر نیچے جھکا کر: نہ سئیں، پیسے کائی نئیں (نہیں سائیں! پیسے نہیں ہیں۔ )
اس کے باپ نے جیب میں ہاتھ ڈال کر مڑے تڑے کچھ نوٹ نکالے اور اس کو تھما کر کہنے لگا۔ ایہو گھن پیسے، تے ترے مہینے گھر کائی نئیں آونا ورنہ لتاں بھن ڈے ساں۔ (یہ لو پیسے، اور تین مہینے گھر نہیں آنا، ورنہ ٹانگیں توڑ دوں گا۔)

(جاری ہے)

 
Top