بانہوں میں یوں وہ حسن کا پیکر پڑا رہا-ملک عدنان احمد

بانہوں میں یوں وہ حسن کا پیکر پڑا رہا
صحرا کے بیچ جیسے سمندر پڑا رہا

اسکو چھوا تھا خواب میں پل بھر کو اور پھر
شب بھر مرا وجود معطر پڑا رہا

خوش فہمیوں میں پڑ ہی گیا وہ بھی ایک دن
ہیروں کے درمیان جو کنکر پڑا رہا

مدت ہوئی تھی خود سے ہی مجھ کو ملے ہوئے
کل رات خود میں اپنے ہی در پر پڑا رہا

اے آسمان! کیسے گوارا کہ تشنہ لب
تسکینِ قلبِ ساقئِ کوثر پڑا رہا

منزل کو دھیرے دھیرے وہ کم تر پہنچ گیا
سویا ہوا، وہ تند وہ بہتر، پڑا رہا

احمد سے چھین لی گئی حسرت اڑان کی
کنجِ قفس میں بند وہ شہ پَر پڑا رہا

(ملک عدنان احمد)
 
اچھی غزل ہے جناب۔ واہ۔
چند ایک نکات بہتری کی غرض سے دیکھیے۔

حسن کا پیکر، یا پیکرِ حسن۔ تشبیہی جملوں میں تو اس کا استعمال احسن ہے، لیکن خود کسی انسان کے لیے، گو کہ بہت سے لوگ اسے ٹھیک سمجھتے ہیں، لیکن مجھے پسند نہیں۔ گو کہ پیکر خود جسم کے معنی میں ڈھل جاتا ہے، اور حسن کا پیکر یعنی حسن کا تن یا جسم، خود دیکھیے، عجیب نہیں محسوس ہوتا؟ ہاں اگر حسین جسم، یا حسین پیکر، یا حسین تن ہو، تو دیکھیے بات کتنی لطیف اور واضح ہے۔

پل بھر چھونا؟! بھئی چھونا تو خود اس لمس کو کہتے ہیں جو مختصر ہو۔ اس پر پل بھر کی بھاری قید بےجا، اور مخرب روانی معلوم ہوتی ہے۔

چہتے شعر کے مصرعِ اولی میں "ہی" اضافی ہے۔ محض وزن پورا کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔

پانچویں شعر کے مصرع اولیٰ میں "ہو" لفظ غائب ہے، جو کہ وزن کی خانہ پری کو گرا دیا گیا ہے، مگر اس کے بغیر مصرع چست نہیں!

چھٹا شعر بالکل واضح نہیں۔ اپنی بنت کی وجہ سے غالباً

شہپر کو قفس میں کیسے قید کیا جا سکتا ہے؟! کوئی پرندہ تو نہیں وہ!
 

الف عین

لائبریرین
مزید یہ کہ ردیف پر بھی غور کریں۔ ’پڑا رہا‘ زیادہ تر منفی معانی میں استعمال ہوتا ہے۔
پانچواں چھتا شعر سمجھ میں نہیں آ سکا۔ باقی پر مہدی کی رائے سے متفق ہوں۔
 

شوکت پرویز

محفلین
اے آسمان! کیسے گوارا کہ تشنہ لب
تسکینِ قلبِ ساقئِ کوثر پڑا رہا
آسمان کو آسماں کر کے "ہو" لایا جا سکتا ہے۔
 
اے آسمان! کیسے گوارا کہ تشنہ لب
تسکینِ قلبِ ساقئِ کوثر پڑا رہا
آسمان کو آسماں کر کے "ہو" لایا جا سکتا ہے۔
بہت شکریہ جناب شوکت صاحب۔ نہ صرف یہ کہ آپ نے پانچویں اور چھٹے شعر کا مفہوم بیان کر کے میری معاونت کی، بلکہ پانچویں شعر کے حوالے سے آپکی رائے بھی سود مند ہے۔ سلامت رہیے
 
اچھی غزل ہے جناب۔ واہ۔
چند ایک نکات بہتری کی غرض سے دیکھیے۔

حسن کا پیکر، یا پیکرِ حسن۔ تشبیہی جملوں میں تو اس کا استعمال احسن ہے، لیکن خود کسی انسان کے لیے، گو کہ بہت سے لوگ اسے ٹھیک سمجھتے ہیں، لیکن مجھے پسند نہیں۔ گو کہ پیکر خود جسم کے معنی میں ڈھل جاتا ہے، اور حسن کا پیکر یعنی حسن کا تن یا جسم، خود دیکھیے، عجیب نہیں محسوس ہوتا؟ ہاں اگر حسین جسم، یا حسین پیکر، یا حسین تن ہو، تو دیکھیے بات کتنی لطیف اور واضح ہے۔

پل بھر چھونا؟! بھئی چھونا تو خود اس لمس کو کہتے ہیں جو مختصر ہو۔ اس پر پل بھر کی بھاری قید بےجا، اور مخرب روانی معلوم ہوتی ہے۔

چہتے شعر کے مصرعِ اولی میں "ہی" اضافی ہے۔ محض وزن پورا کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔

پانچویں شعر کے مصرع اولیٰ میں "ہو" لفظ غائب ہے، جو کہ وزن کی خانہ پری کو گرا دیا گیا ہے، مگر اس کے بغیر مصرع چست نہیں!

چھٹا شعر بالکل واضح نہیں۔ اپنی بنت کی وجہ سے غالباً

شہپر کو قفس میں کیسے قید کیا جا سکتا ہے؟! کوئی پرندہ تو نہیں وہ!
تفصیلی تجزیے کے لیے مشکور ہوں مہدی بھیا، ایسے تجزیے کلام کو اصلاحِ سخن کے سیکشن میں پوسٹ کرنے کا میرا مقصد پورا کر دیتے ہیں۔ میں ان اشعار کو دوبارہ کہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ نوک پلک سنوارنے کے بعد دوبارہ پوسٹ کرتا ہوں۔ آپ کے ذہن میں بہتری کی کوئی صلاح ہو تو ضرور آگاہ کیجئے
 
مزید یہ کہ ردیف پر بھی غور کریں۔ ’پڑا رہا‘ زیادہ تر منفی معانی میں استعمال ہوتا ہے۔
پانچواں چھتا شعر سمجھ میں نہیں آ سکا۔ باقی پر مہدی کی رائے سے متفق ہوں۔
توجہ کے لیے مشکور ہو چچا جان۔ پانچویں اور چھٹے شعر کے متعلق میرا مفہوم شوکت بھیا نے آپ کی خدمت میں عرض کر دیا ہے۔ بقیہ مہدی بھیا کی تجاویز ذہن نشین کر لی ہیں۔ بہتری کی کوشش کرتا ہوں۔ :)
 
Top