بارُود

نیلم

محفلین
قصے کہانیوں میں بتایا جاتا ہے کہ سب سے پہلے چنگیز خاں نے جنگ میں بارُود سے کام لیا ۔یہ بات دُرست ہو یا نہ ہو، لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ چنگیز خاں کے زمانے سے بہت پہلے یعنی نویں صدی میں اہلِ چین بارُود بناتے تھے اور اسے آتشیں پٹاخوں میں استعمال کرتے تھے ۔یورپ میں بارود کی ایجاد کا سہرا تیرھویں صدی کے دوراہبوں میں سے کسی ایک کے سر پر ہے ،انگریز راجر بیکن ،یا جرمن برتھولڈ شوارٹر بارودہی کے بل پر یورپی سپاہیوں نے روئے زمین پر حکمرانی کے جال بچھائے ۔
بارود کے لیے تین چیزیں درکار تھیں ۔اول قلمی شورہ ،دوم گندھک سوم کوئلہ بیکن نے شورے کو صاف کرکے قلمی شورہ بنانے کا طریقہ دریافت کیا اور بارود کا نسخہ تیار کیا ۔شوارٹر نے اس سے کام لینے کے لیے آتش بار ہتھیار بنائے ۔
بہرحال بارود سازی کا بندوبست ہو گیا تو یورپ کی فوجیں تلوار نیزے اور تیروں کی جگہ گولیاں استعمال کرنے لگیں ۔بینک برن کی لڑائی میں رابرٹ بروس نے انگریزوں کو مغلوب کر لیا 1314 کریسی میں انگریزوں نے فرانسیسی امیروں کو تباہ کرڈالا
(1346 ) ان دونوں لڑائیوں میں بارود استعمال ہوئی ۔تاہم اس کی اہمیت کا پورا اندازہ نہ ہوسکا ،لہذا تجربات جاری رہے ،یہاں تک کے پندرھویں صدی میں بندوق ایجاد ہوئی اور مدِ مقابل کو دور ہی سے موت کے گھاٹ اُتارا جانے لگا ۔
حقیقت یہ ہے کہ بارود کی ایجاد کے بعد صدیوں یہ مسئلہ پریشانی کا باعث رہا کہ اس سے کام لینے کے لیے موزوں ہتھیار کونسا ہو سکتا ہے پہلے توڑے والی بندوق ایجاد ہوئی پھر چقماقی بندوق نکلی 1807 میں الیگزانڈر جان فاستھ نے ایک ایسی بندوق تیار کی جس کے پیالے پر تانبے کی ٹوپی رکھی جاتی تھی تیس سال کے غورو فکر کہ بعد فوجی ماہروں نے اسے استعمال کرنا منظور کر لیا۔ آتش بار ہتھیاروں میں اصلاحات کا سلسلہ جاری رہا مگر ان میں غیر معمولی ترقی پہلی بار جنگِ عظیم کے دوران ہوئی چھوٹے سے چھوتا ہتھیار 22 نمبر کا پستول تھا اور بڑے سے بڑا ہتھیار جرمنوں کی توپ جسے بگ برتھا کہتے تھے اس کی مار اسی میل تک تھی ۔
بارود سُرنگیں بنانے اور چٹانیں توڑنے میں بھی استعمال ہوتی تھی.
 
Top