باجوڑ ایجنسی میں امریکی بمباری

نبیل

تکنیکی معاون
باجوڑ ایجنسی میں امریکی بمباری سے عورتوں اور بچوں سمیت 18 بے گناہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس حملے کی حکومت پاکستان کو کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی اور پاکستان کی خومختاری کو پرکاہ کی اہمیت تک نہیں دی گئی تھی۔ اس پر حکومت پاکستان کی غیرت جوش میں آگئی اور اس نے کہا اِب کے مار۔ امریکی حکومت کے ترجمان نے انسانی جانوں کے نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ دراصل امریکہ کو اطلاع ملی تھی کہ ایمن الظواہری کے گھر کھانے پر آنے والے ہیں۔ بس ادھر ہی کروز میزائل داغ دیا گیا۔ ماڈرن ٹیکنالوجی کا یہی تو فائدہ ہے کہ گھر بیٹھے میزائل داغ کر یا 50000 میٹر کی بلندی سے ڈیزی کٹر بم گرا کر داد شجاعت دی جا سکتی ہے۔ میں صرف اس سوچ میں مبتلا ہوں کہ اگر کوئی وائٹ‌ ہاؤس فون کرکے کہہ دے گہ اس وقت اسامہ بن لادن پاکستان کے ایوان صدر میں موجود ہے تو وہاں کروز میزائل پہنچتے کتنی دیر لگے گی؟
 
اس عاشقی میں

نبیل یہ جرات مندانہ ردِ عمل آپ نے کہاں دیکھا۔ میں تو کل کا اخبار دیکھتا رہا اور اس میں یہی نظر آیا کہ صدر صاحب سینیٹر کیری سے کچھ اس طرح کی گفتگو کر رہے ہیں کہ پاکستان امریکہ کا اہم حلیف ہے اور اس کی دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ وہی رٹا رٹایا سارا۔ بات بس وہی ہے کہ ع

اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
 
ہماری بازری

ویسے یار میں اس حملے کو دوسرے تناظر میں دیکھتا ہوں۔ اکثر ہمارے بزرگ افغانستان اور عراق پر حملے کے بعد کہتے تھے کہ بیٹا انتظار کرو ہماری باری آنے والی ہے۔ اور شاید اب وہ دن دور نہیں۔ محترم آپ کی سرحدوں کی مکمل خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اور امریکہ کے بیانات تو کہہ رہے ہیں کہ وہ ایسا پھر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔یعنی ہماری باری آگئی ہے۔صدر صاحب قوم سے خطاب میں اہم فیصلے تو کر دیتے ہیں لیکن امریکہ کے خلاف اس حملے کے خلاف ایک لفظ کہنے سے قاصر رہے۔ یہ ہے جرات مندانہ اقدام محترم۔ مقبول عامر کا شعر ہے کہ:
تیری جنبش لب پر انحصار ہے اپنا
تو کہے تو جی لے ہم تو کہے تو مرجائیں
اس لیے غلام کبھی آقا کے سامنے جرات مندی نہیں دکھاتا ورنہ اس کا دانہ پانی بند کر دیا جاتا ہے۔
 
Top