اے کاش

خرم

محفلین
ایک اور سانحہ ہوا۔ ایک اور درد بھرا دن ہماری قومی زندگی کی تاریخ میں آیا اور تاریخ بن گیا۔ نجانے اتنے کتنے دن ابھی اور ہماری قسمت میں لکھے ہیں؟ نجانے کب وہ منزل جس کا خواب آج سے ساٹھ برس قبل دیکھا تھا شرمندہ تعبیر ہوگی؟ آج جب دل ایک اور صدمہ سے بُجھا ہوا ہے کچھ حسرتیں ہیں جو اظہار چاہتی ہیں۔ جب اندھیرے میں بے نظیر کا تابوت اپنی ٹی وی سکرین پر ڈھونڈنے کی کوشش کررہا تھا تو دل میں کئی کاش آئے۔

کاش کہ محترمہ اور ہمارے دیگر حکمرانوں نے اس ملک میں تعلیم کو رواج دیا ہوتا۔
کاش کہ ہمارے محترمہ اور دیگر حکمرانوں‌نے ملک میں‌عدل و انصاف کو فروغ دیا ہوتا۔
کاش کہ محترمہ اور دیگر حکمرانوں نے عوام کو اپنے بچوں کی مانند سمجھا ہوتا۔
کاش کہ محترمہ اور دیگر حکمرانوں‌نے عوام کو روزگار دینے کے لئے اتنی کوشش اور تمنا کی ہوتی جتنی کہ انہوں‌نے اپنی اولادوں کے کیریئر کے لئے کی۔
کاش کہ محترمہ اور دیگر حکمرانوں نے مفاد کی بجائے ہمیشہ صرف اور صرف اصول کی سیاست کی ہوتی۔
کاش کہ محترمہ اور دیگر حکمرانوں نے اسلام کو استعمال کرنے کی بجائے اس پر عمل کرنے کا رواج اور چلن ڈالا ہوتا۔
کاش کہ محترمہ اور دیگر حکمرانوں نے بیرونی طاقتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے اپنے عوام کو اپنایا ہوتا اور ان سے طاقت لی ہوتی۔
کاش کہ محترمہ اور دیگر حکمرانوں نے اپنی تجوریاں بھرنے کی بجائے اپنے عوام کی خالی جیبیں بھرنے کا سوچا ہوتا۔
کاش کہ اوروں کی لڑائیاں لڑنے کی بجائے ہم نے اپنے عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دی ہوتی۔

تو پھر شاید ہماری تقدیر میں چار اپریل، پانچ جولائی، سترہ اگست، بارہ اکتوبر، سولہ دسمبر اور ستائیس دسمبر کے دن یہ معنی لے کر نہ طلوع ہوتے ۔

اے کاش۔۔۔۔۔۔۔
 
Top