حبیب جالب اے چاند یہاں نہ نکلا کر

نظام الدین

محفلین
بے نام سے سپنے دکھلا کر
اے دل ہر جا نہ پھسلا کر
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر

نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
ہاں کہنے کو وہ خادم ہیں
یہاں الٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر

یہاں راقم سارے لکھتے ہیں
قوانین یہاں نہ ٹکتے ہیں
ہیں یہاں پر کاروبار بہت
اس دیس میں گردے بکتے ہیں

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر

یہاں ڈالر ڈالر ہوتی ہے
کسوٹی ہے جی ڈی پی اور
کچھ لوگ ہیں عالیشان بہت
اور کچھ کا مقصد روٹی ہے

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر

امید کو لے کر پڑھتے ہیں
پھر ڈگری لے کر پھرتے ہیں
جب جاب نہ ان کو ملتی ہے
پھر خودکش حملے کرتے ہیں

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر

وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے
اور فوج کا راج ہی سچا ہے
کھوتا گاڑی والا کیوں مانے
جب بھوکا اس کا بچہ ہے

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
(حبیب جالب)
 
Top