اے چاند پھر مجھے میرے بچپن میں لے کے چل

ملتا تھا وہ جہاں اسی آنگن میں لے کے چل
اے چاند پھر مجھے مرے بچپن میں لے کے چل

نایاب ہے یہ گردش سیارگاں کی راکھ
کچھ سر پہ ڈال کف و دامن میں لے کے چل

اے نو بہار ناز و کم آمیز اپنے ساتھ
اب کے ہمیں بھی بھیگتے ساون میں لے کے چل

پہروں ہس اک خیال کی خاموشیاں سنوں
آبادیوں سے دور کسی بن میں لے کے چل

آسودگی تو بستر فردا کا خواب ہے
بس لمحہ فنا کی دکھن من میں لے کے چل
 
Top