شکیل بدایونی اے عشق یہ سب دنیا والے بیکار کی باتیں کرتے ہیں - شکیل بدایونی

کاشفی

محفلین
غزل
(شکیل بدایونی)
اے عشق یہ سب دنیا والے بیکار کی باتیں کرتے ہیں
پائل کے غموں کا علم نہیں، جھنکار کی باتیں کرتے ہیں

ہر دل میں چھپا ہے تیر کوئی، ہر پاؤں میں ہے زنجیر کوئی
پوچھے کوئی ان سے غم کے مزے جو پیار کی باتیں کرتے ہیں

الفت کے نئے دیوانوں کو کس طرح سے کوئی سمجھائے
نظروں پہ لگی ہے پابندی، دیدار کی باتیں کرتے ہیں

بھونرے ہیں اگر مدہوش تو کیا، پروانے بھی ہیں خاموش تو کیا
سب پیار کے نغمے گاتے ہیں، سب یار کی باتیں کرتے ہیں
 

فہد اشرف

محفلین
کلیات شکیل میں غزل کچھ اس طرح سے ہے۔

کرنے دو اگر قتال جہاں تلوار کی باتیں کرتے ہیں
ارزاں نہیں ہوتا ان کا لہو جو پیار کی باتیں کرتے ہیں

یہ عیش و طرب کے متوالے بیکار کی باتیں کرتے ہیں
پائل کے غموں کا علم نہیں جھنکار کی باتیں کرتے ہیں

ناحق ہے ہوس کے بندوں کو نظارۂ فطرت کا دعوی
آنکھوں میں نہیں بیتابی، دیدار کی باتیں کرتے ہیں

غم میں بھی رہا احساس طرب، دیکھو تو ہماری نادانی!
ویرانی میں ساری عمر کٹی، گلزار کی باتیں کرتے ہیں

بےنقد عمل جنت کی طلب،کیا شے ہیں جناب واعظ بھی
مٹھی میں نہیں دام و درم، بازار کی باتیں کرتے ہیں

کہتے ہیں انہیں کو دشمنِ دل، ہے نام انہیں کا واعظ بھی
وہ لوگ جو رہ کر ساحل پر منجدھار کی باتیں کرتے ہیں

پہنچے ہیں اپنی منزل پر ان کو تو نہیں کچھ ناز سفر!
چلنے کا جنہیں مقدور نہیں،رفتار کی باتیں کرتے ہیں

یہ اہل قلم، اہل ہنر ، دیکھو تو شکیل ان سب کے جگر
فاقوں سے ہیں دل مرجھائے ہوئے دلدار کی باتیں کرتے ہیں
 

ہانیہ

محفلین
یہ عیش و طرب کے متوالے بیکار کی باتیں کرتے ہیں

شکیل بدایونی

یہ عیش و طرب کے متوالے بیکار کی باتیں کرتے ہیں
پائل کے غموں کا علم نہیں جھنکار کی باتیں کرتے ہیں

ناحق ہے ہوس کے بندوں کو نظارۂ فطرت کا دعویٰ
آنکھوں میں نہیں ہے بیتابی دیدار کی باتیں کرتے ہیں

کہتے ہیں انہیں کو دشمن دل ہے نام انہیں کا ناصح بھی
وہ لوگ جو رہ کر ساحل پر منجدھار کی باتیں کرتے ہیں

پہنچے ہیں جو اپنی منزل پر ان کو تو نہیں کچھ ناز سفر
چلنے کا جنہیں مقدور نہیں رفتار کی باتیں کرتے ہیں

 
Top