اے عشقِ نامراد وفائیں کدھر گئیں - فرحان محمد خان

مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
اے عشقِ نامراد وفائیں کدھر گئیں
ملتی تھیں جو تمہیں وہ دعائیں کدھر گئیں

ایماں بھری جو رات کو آتی تھیں یا خدا
مسجد سے وہ اذاں کی صدائیں کدھر گئیں

ہر لمحہ جن سے بے خود و سرشار ہم رہے
میخانے کی پرانی ٖہوائیں کدھر گئیں

ہر جام پہ جو کرتے رہے سجدہ شکر کا
ساقی وہ لوگ ویسی ادائیں کدھر گئیں

پینا تھا ایک جام کہ واعظ نے یہ کہا
ساقی مری تمام خطائیں کدھر گئیں

یارو کرے سوال کوئی کربلا سے یہ
بنتِ نبی کے سر کی ردائیں کدھر گئیں
 
Top