فارسی شاعری اے بہ خلا و ملا، خوئے تو ہنگامہ زا - غزلِ غالب مع ترجمہ

محمد وارث

لائبریرین
غالب کے فارسی دیوان کی پہلی غزل، ترجمہ از خواجہ حمید یزدانی۔ منظوم تراجم کیلیے یہ ربط دیکھیے۔

اے بہ خلا و ملا، خوئے تو ہنگامہ زا
باہمہ در گفتگو، بے ہمہ با ماجرا

پہلی غزل ہونے کے ناطے یہ حمدیہ غزل ہے، اس میں غالب نے یہ کہا کہ اللہ کی ذات ایسی ہے جو تخلیقِ کائنات سے پہلے بھی اور اسکی تخلیق کے بعد بھی آئے دن کی تخلیقات میں یا انقلابات لانے میں مصروف رہتی ہے۔ سب موجود ہوں تو ان سے مصروفِ گفتگو ہوتا ہے اور کوئی نہ ہو تو تُو اپنی شان کے ساتھ ہوتا ہے۔ مراد یہ کہ تیری ذاتِ عظیم کی شان تخلیق سے پہلے بھی اور آج بھی اسی طرح برقرار ہے۔

شاہدِ حُسنِ ترا در روشِ دلبری
طُرہِ پُر خم صفات موئے میاں ما سوا

محبوبِ حقیقی کے حسن کی تصویر کشی پرپیچ زلفوں کی تشبیہ سے کی گئی ہے جو دلکشی میں بے مثال ہوتی ہیں، مراد یہ کہ اے اللہ تعالٰی تیری صفات پرپیچ زلفوں کی طرح ہیں جنہیں سمجھنا آسان بلکہ ممکن نہیں۔ محبوب کی کمر کو بال سے تشبیہ دی جاتی ہے یعنی بہت باریک بلکہ نظر نہ آنے والی کمر، ماسوا کو اس سے تشبیہ دے کر گویا یہ کہا گیا ہے کہ ماسوا کا وجود ہی کوئی نہیں۔

دیدہ وراں را کند دیدِ تو بینش فزوں
از نگہِ تیز رو گشتہ نگہ توتیا

جو صاحبانِ بصیرت ہیں، تیرا دیدار انکی بصیرت میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ نگہِ تیز رو یعنی گہری بصیرت سے نگاہ سرمہ بن گئی ہے۔

آب نہ بخشی بزر و خونِ سکندر ہدر
جاں نہ پذیری بہ ہیچ نقدِ خضر ناروا

سکندر کا زر اور جاہ و جلال آبِ حیات کے حصول میں کام نہ آیا اور اسکا خون رائیگاں گیا، اور خضر کی ابدی زندگی بیکار ہے کہ تنہائی میں رہ رہے ہیں۔

بزمِ ترا شمع و گُل، خستگیِ بُو تراب
سازِ ترا زیر و بم، واقعہٴ کربلا

حضرت علی کی خستگی تیری محفل کی شمع اور سجاوٹ ہے، واقعہء کربلا تیرے ساز کے زیر و بم ہیں۔

نکبتیانِ ترا قافلہ بے آب و ناں
نعمتیانِ ترا مائدہ بے اشتہا

ایک طرف تیرے مفلسوں کا قافلہ ہے کہ بھوکے پیاسے ہیں اور دوسری طرف نعمتوں والے ہیں کہ بھوک کے بغیر بھی جنکے دسترخوان سجے ہوئے ہیں۔

گرمیِ نبضِ کسے کز تو بدل داشت سوز
سوختہ در مغزِ خاک ریشہٴ دارو گیا

جس کے دل میں تیرا سوز تھا اسکی نبض کی گرمی سے زمین کے اندر داروگیا بوٹی کی جڑ جل گئی۔

مصرفِ زہرِ ستم دادہ بیادِ تو ام
سبز بَود جائے من در دہنِ اژدہا

تیری یاد میں مجھ میں زہرِ ستم رچا ہوا ہے، اژدھا کے منہ میں میری جگہ سبز ہے یعنی اسکے منہ میں مجھے زیادہ آسودگی میسر آئے گی۔

کم مَشِمر گریہ ام زانکہ بعلمِ ازل
بودہ دریں جوئے آب گردشِ ہفت آسیا

میرے گریہ کو کم مت جان کہ یہ بات علمِ ازل میں تھی کہ کبھی میرے آنسوؤں کی جھڑی سے سات آسمان گردش میں رہیں۔

سادہ ز علم و عمل مہرِ تو ورزیدہ ایم
مستیِ ما پایدار، بادہء ما ناشتا

ہم علم و عمل دونوں سے عاری یا دور ہیں اور اس حالت میں تیرا عشق اختیار کیا ہے، ہماری مستی پایدار ہے اور ہماری شراب ایسی ہے جس میں کوئی کھانے پینے والی چیز نہیں۔

خلد بہ غالب سپار زانکہ بداں روضہ در
نیک بَود عندلیب خاصہ نو آئیں نوا

تو خلد غالب کے سپرد کردے کہ اس باغ میں نئے نئے نغمے الاپنے والی بلبل اچھی رہے گی۔
 
Top