اکبر الہ آبادی اے بُتو بہرِخُدا درپئے آزار نہ ہو

طارق شاہ

محفلین
غزلِ اکبرالٰہ آبادی اے بُتو بہرِخُدا درپئے آزار نہ ہو
خیرراحت نہ سہی، زیست تو دشوار نہ ہو

یا رب ایسا کوئی بت خانہ عطا کر جس میں
ایسی گزرے کہ تصوّر بھی گنہگار نہ ہو

مُعترِض ہو نہ مِری عُزلت و خاموشی پر
کیا کروں جبکہ کوئی محرمِ اسرار نہ ہو

کیا وہ مستی، کہ دَمِ چند میں تکلیف شُمار
مست وہ ہے کہ قیامت میں بھی ہشیار نہ ہو
جان فرقت میں نہ نکلے تومجھے کیوں ہوعزیز
دوست وہ کیا جو مُصیبت میں مددگار نہ ہو

ناز کہتا ہے کہ زیور سے ہو تزئینِ جمال
نازکی کہتی ہے سُرمہ بھی کہیں بار نہ ہو

دل وہ ہے جس کو ہو سودائے جمالِ معنی
آنکھ وہ ہے کہ جو صُورت کی خریدار نہ ہو
دلِ پُر داغ کو ارماں، کہ گلے اُن کے لگے
اُن کو یہ ڈر، کہ گلے کا یہ کہِیں ہار نہ ہو

عاشقِ چشم سیہ مست تو زنہار نہ ہو
دیکھ اُس جان کی گاہک کا خریدار نہ ہو

ہرغُبارِ رہِ اُلفت ہے مِرا سُرمۂ چشم
دل یہ کہتا ہے کہ یہ خاکِ درِ یار نہ ہو

لن ترانی کی خبر عشق نے سُن رکھّی ہے
پھربھی مشکل ہے کہ وہ طالبِ دیدار نہ ہو

تم کوسودائے ستم کیوں ہے جو ہے شوقِ فُروغ
کیا تلَطُّف سببِ گرمئیِ بازار نہ ہو

قیمتِ دل تو گھٹانے کا نہیں میں اکبر
بے بصیرت نہیں ہوتا جوخریدار نہ ہو
اکبرالٰہ آبادی
 
Top