ایک کتابی مظلوم
محمد توفیق احسن برکاتی مصباحی ، ممبئی
کتابوں کا شہر ۔۔۔۔۔۔۔ہاں !کتابوں کا شہر ۔۔۔۔۔۔میں اسی شہر میں بود وباش اختیار کرنے والا ایک ستم رسیدہ شہری ہوں ، میراا ٹھنا ، بیٹھنا ، چلنا ، پھرنا ، ٹہلنا ، گھومنا ، کھانا ، پینا کتابوں ہی کے ساتھ ہوتا تھا ، ہمارے یارانہ تعلقات بڑے اچھے تھے ، ہر کوئی میری تعظیم وتوقیر کرتا ، تقریباً ہر روز دعوتوں میں مہمان کی حیثیت سے مدعو رہتا ، بچے مجھے اپنا استاد مانتے ، بوڑھے میرے لیے دعائیں کرتے ، جوان میرے ساتھ رہنے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے ، آرزویں کرتے ، میرے ساتھ اٹھنے ، بیٹھنے کو ایک وقار جانا جاتا ، مجھ سے گفت وشنید کو کوشش کی جاتی ، میں ہر کسی سے ملتا ، ان کی باتیں سنتا ، ان کے مساہل حل کرتا ، ان کی پریشانیاں دور کرتا ، ان کے غموں میں خود کو شریک کرتا ، ان سے مل کر خوشیاں بانٹتا ، پورا شہر خوش وخرم تھا ، چین وسکون کی زندگی بسر ہوتی تھی ، بد امنی ، بے اطمینانی کا کہیں اتا پتا نہیں تھا ، وقت سے سارے کام انجام پذیر ہوتے ، کاروبا ر بھی جاری رہتا ، تجارتیں بھی فروغ پاتیں ، کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تیاری میں ہمہ وقت کوشاں رہتیں ، ان کے سامانوں کی نمائش ہوتی ، ملک وبیرون ملک ان کے تیار کیے ہوئے سامان بڑے شوق سے جاتے ، انہیں پھیلایا جاتا ، کافی مقبولیت ملتی ، مختلف ممالک کے سیاح ہمارے شہر کی خوب صورت جگہوں ، فلک بوس عمارتوں ، دیدہ زیب اور پر آسائش ہوٹلوں ، خوش نما پارکوں کو دیکھنے کی غرض سے آتے ، اور اچھا تاثر لے کر جاتے ، شہر کی گلیاں بڑی دلکش اور حیرت انگیز لائٹوں سے سجی سجائی عجب نظارہ پیش کرتیں ، صبح کی بھینی ، بھینی ہوائیں مشام جا ں کو مسحور کن کیف سے روشناس کراتیں ، شام اور رات کا وقت اپنی رعنائی ، دلکشی کی مثال بیان کرتا ، بیش قیمت کپڑوں ، گھریلو سامان ، زیورات اور دوسری اشیاے خورد ونوش دوکانوں کی رونق میں غیرمعمولی اضافہ کرتیں ، ان کا حسن لائق دید ہوتا ، دل مچلتا ، قدم رک جاتے ، آنکھیں خیرہ ہوجاتیں ، خریدنے اور لے جانے کا جی چاہتا ۔۔۔۔۔۔۔لیکن ۔۔۔۔۔۔ارے لیکن کیا ؟۔۔۔۔۔۔جلدی بتاؤ ۔۔۔۔۔۔دل بے قرار ہوا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔کیا اس قدر تاریخی شہر میں ’’لیکن ‘‘دخیل ہوگیا؟ ۔۔۔۔بتاؤ ، عجب عجب خیالات دل میں جنملے رہے ہیں ، رک کیوں گئے ؟ ۔۔۔۔۔بتاؤ تو سہی ۔۔۔۔۔کیا ہوا اس کے بعد؟۔۔۔۔زبان تو کھولو ۔۔۔۔۔چپی توڑو ۔۔۔۔کیا اتنے خوش گوار ماحول اور پر سکون فضا میں لیکن کی چل گئی اور تم کچھ نہ کرسکے ؟۔۔۔۔۔یہ لیکن کتنی بری بلا ہے ؟۔۔۔۔۔۔ہر کہیں ٹپک پڑتی ہے ۔۔۔۔۔۔ہر کسی کے دروازے پر دستک دے دیتی ہے ۔۔۔۔۔صاف صاف بولو ، ہوا کیا ہے ؟ ۔۔۔۔۔۔بتانے سے کیا فائدہ ؟ ۔۔۔۔۔۔ہر عروج کے لیے زوال ۔۔۔۔۔ہر خوشی کے لیے غم ۔۔۔۔۔۔ہر آغاز کے لیے انجام ۔۔۔۔۔۔کیا بتاؤں اور کس طرح بتاؤں ؟ ۔۔۔۔۔۔دشمنوں سے ہماری خوشی سے دیکھی نہ گئی، شعوری طور پر ان کی نظر بد سے ہشاش ، بشاش شہر کو غم واندوہ کے گھروندے میں تبدیل کردیا ، بیگانوں ، دشمنوں کی بجائے اپنوں اور دوستوں کا ساتھ چھوڑ دینے کا ایک رواج چل پڑا ، کتابوں کا یہ شہر اس وقت خون کے آنسو رورہا ہے ، نمناک آنکھیں لیے ہزار بے قراری دل میں سمیٹے کسی مسیحا کا انتظار کر رہا ہے ، آنسوؤں کا یہ سیلاب تھمنے کا نام نہیں لیتا ، ارے صاف بتاتے کیوں نہیں ؟ ۔۔۔۔۔کیا ہوا ؟ ۔۔۔۔یہ سب کیسے ہوا ؟ ۔۔۔۔حالا ت دگرگوں کس طرح ہوئے ؟ ۔۔۔۔۔کیا کوئی وبا پھیل گئی ؟ ۔۔۔۔کوئی طوفان آگیا ؟۔۔۔۔کتابوں کے اس خوب صورت شہر کی یہ حالت کیسے ہوئی ؟ ۔۔۔۔۔مجبور کرتے ہو تو بتا ئے دیتا ہوں ، لیکن کوڑی بہت دور کی ہے ، جلدی سمجھ میں نہیں آئے گا ۔۔۔۔۔ اس طوفان بد تمیزی کا نام کمپیوٹر اور انٹر نیٹ ہے ، جس کے دھما کے نے ہماری بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ، اس کے تارو پود بکھیر کر رکھ دیے ، ہما را وقار گھٹ گیا ، وقعت کم ہوگئی ، کمال ودام ماند پڑ گیا ، وقار لٹ گیا ، عزت چلی گئی ، آبرو سوز اس طوفا ن ہلاکت خیز نے ہما را جینا دوبھر کر دیا ، ہم کہاں جائیں ؟۔۔۔۔کیا کریں ؟۔۔۔۔۔کس شہر میں پناہ گزیں ہوں ؟ ۔۔۔۔ملاقاتوں کا سلسلہ تھم گیا ، دعوتیں بند ہوگئیں ، کیا یہ انصاف ہے ؟ ۔۔۔۔۔دیانت داری ہے ؟۔۔۔۔۔۔جمہوریت ہے ؟۔۔۔۔۔سیکولر ازم ہے ؟ ۔۔۔۔۔۔کیا ہے ؟ ایسا اگر ہے تو ظلم کیا ہے ؟ ۔۔۔۔بد دیانتی کیا ہے ؟۔۔۔۔آمریت کی حقیقت کہاں روپوش ہوگئی ؟ ۔۔۔۔۔۔ہماری فریاد سننے والا کوئی نہیں ، ہمارا ظلم دفع کرنے والا کوئی نہیں ، ہماری مظلومی دیکھ کر ہر کوئی ہنستا ہے ، ہما را مذاق اڑایاجاتا ہے ، ہمیں اب بھی امید ہے ، ضرور کوئی مسیحا آئے گا ، کوئی ہمدرد اٹھے گا ، کوئی دادرس نکلے گا ،اور ہمارے دن لوٹیں گے ، ہما را وقار بحال ہوگا ، ہم بے بس سہی ، ستم رسیدہ سہی ، بنیادی حقوق اور لازمی سہولیات سے محروم سہی ، مگر حوصلہ مند ہیں ، امید وار ہیں ، احساس کمتری کا شکار نہیں ہیں ، یہی ہما ری جیت ہے ، ہماری کامیابی ہے ۔
 
Top