ایک ٹیکسی ڈرائیور کی ڈائری

عزیز ساتھیو
دوبئی میں رہتے ہوئے دنیا کی رنگینیوں سے جہاں آگاہی ہوئی وہیں کچھ ایسی سنگینیوں کا بھی ادراک ہوا کہ اگر انہیں بیان میں نہ لایا جائے تو زندہ رہنا مشکل ہوجائے ۔

میرا اپنا کاروبار کمپیوٹر کا ہے ۔ الحمدللہ لگ بھگ آٹھ برس تک مختلف کمپیوٹر کمپنیوں میں نوکریاں کرنے کے بعد اس سال کے آغاز میں اپنی چھوٹی سی فرم شروع کی کچھ عرصے پہلے میری گاڑی خراب ہو گئی واپسی پر ایک ٹیکسی ڈرائیور سے ملاقات ہوئی جس کے ساتھ وقت کٹنے کا احساس ہی نہیں ہوا ۔ میرے کہنے پر اس نے اپنی ڈائری لکھنی شروع کی اور اپنے وعدے کے مطابق میں اسکی ڈائری کو اس ویب سائٹ کے توسط سے دنیا کے سامنے لانے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں ۔ تحریر اپنے “خوشی محمد“ کی ہے جبکہ اسکی نوک پلک سنوارنے کی کوشش میں نے کی ہے ۔ یہ ڈائری کوئی افسانہ نہیں بلکہ “خوشی محمد“ کی نظر سے دنیا کا جائزہ ہے ۔ اس میں گلیمر ہے بھی تو اتنا ہی جتنا کہ حقیقی زندگی میں ہوتا ہے اور اگر تلخیاں ہیں تو اتنی ہی جتنی حقیقت میں ہوتی ہیں ۔ اس ڈائری کو جیسے جیسے میں وصول کرتا جاؤں گا ویسے ویسے ہی اسے میں ہر روز اسی تھریڈ میں پوسٹ کرتا جاؤں گا ۔ امید ہے کہ انکا نقطہ نظر بھی ہم تک کسی نہ کسی بہانے سے پہنچے گا ۔

آپ کی رائے کا منتظر

فیصل
 
السلام علیکم
میرا نام خوشی محمد ہے ۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے متعلق اتنا کچھ نہیں جانتا ہوں اور نہ اتنا وقت ہوتا ہے کہ کچھ لکھ کر اسے انٹرنیٹ پر نشر بھی کر سکوں ۔ میں دوبئی کا ایک “پرائیویٹ ٹیکسی ڈرائیور“ ہوں دوسرے لفظوں میں غیر قانونی ٹیکسی چلاتا ہوں ۔

ہم کیسے کام کرتے ہیں ۔ ہم کیوں کام کرتے ہیں اس بحث میں پڑنا فضول ہے ۔ البتہ اتنا ضرور ہے اس کام میں ہر روز ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے ۔ بظاہر بزنس مین اور اندر سے حرام کاری کے شوقین لوگوں سے لیکر بظاہر طوائفوں اور اندر سے نیکو کار عورتوں تک سے ہمارا روز کا واسطہ ہے ۔ ٹورازم ۔ ہوٹل ۔ ٹرانسپورٹ ۔ نائیٹ کلب ۔ شراب ۔شباب ۔ریس ۔ خریداری کے رسیا لوگوں سے روز واسطہ پڑتا ہے ۔ میں اپنی ڈائری میں روز جو کچھ ہوا کرے گا لکھ دیا کروں گا ۔ آگے آپ لوگوں کی مرضی ہے اسے پسند کرو یا ناپسند


“خوشی محمد“
 
چار اگست دو ہزار سات

صبح پانچ بجے سویا تھا تو دوپہر دو بجے تک سوتا ہی رہا ۔ کام کے لئے نکلا تو پانچ بجے تک کوئی سواری نہ ملی تقریبا چھے بجے کے قریب ایک جگہ سے فون آیا کہ ایک کویتی فیملی ہے انہیں گاڑی چاہیئے ۔ چھوٹی سی فیملی تھی انہیں لے کر حمر عین سنٹر گیا جہاں “دوبئی سمر سرپرائزز“ کے سلسلے میں “سما دوبئی“ نامی ٹی وی چینل کا انعامی شو براہ راست ٹیلی کاسٹ ہو رہا تھا ۔ مجھے سواریوں نے انتظار کرنے کا کہا اور خود اندر گھس گئیں شاپنگ کرنے کو ۔ چار گھنٹے بعد واپس آئیں اور انہیں واپس انکی جگہ پر اتار کر میں واپس گھر آگیا ۔ کہ کل صبح وقت سے نکل کر جانا ہے ۔ صبح صبح کام مل جائے تو کچھ دیہاڑی لگ جاتی ہے ورنہ سارا دن یونہی بیزار گزرتا ہے ۔ آج بھی بس یہی کام ہوا اللہ مالک ہے آج کی کسر کل پوری کرے گا ۔
 
پانچ اگست دو ہزار سات
صبح چھے بجے ایک فون سے آنکھ کھلی ۔ یہ فون لامیا نامی ایک کال گرل کا تھا ۔ فون اٹھاتے ہی کہنے لگی ۔ خوشی میں اس وقت شارجہ میں ہوں اور مجھے راس الخیمہ جانا ہے ۔ ایک سو درہم دوں گی آ سکتے ہو تو آجاؤ ۔ میں نیند ہی نیند میں حساب لگایا کہ جانے آنے میں جو وقت لگے گا ۔ اور راس الخیمہ کا ہمارا ریٹ 250 درہم ہے اور یہ مجھے سو درہم کا لالچ دے کر حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کے چکر میں ہے تو میں نے کہا کہ معاف کرنا لامیامیرے پاس نو بجے کی بکنگ ہے اگر میں اب تمہارے ساتھ چلا گیا تو اس بکنگ کو لینا میرے لئے ناممکن ہوگا اور وی بکنگ بھی فل ڈے کی ہے اور تم تو جانتی ہو کہ ایک سو درہم کے لئے میرے لئے فکس بکنگ چھوڑنا ناممکن ہے ۔ ایسا کرتا ہوں کہ میں کسی اور ڈرائیور کو دیکھتا ہوں اگر کوئی موجود اور راضی ہوا تو میں تمہیں فون کروں گا اور اگر پندرہ منٹ میں میرا فون نہ آیا تو تم سمجھنا کہ گاڑی کا بندوبست نہیں ہوسکا اور تم ٹیکسی پر چلی جانا ۔ لمیا کے ہاں کہنے پرمیں نے فون بند کردیا اور پھر سے سوگیا ۔ لمیا کا تعارف پھر کبھی کرواؤں گا فی الحال اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مغرب یعنی مراکش سے ہے ۔ پیشہ ور کال گرل ہے ۔ بہت خوبصورت ہے اور خود کو مراکش کے شاہی خاندان کی آل (نواسوں) میں سے بتاتی ہے ۔


ساڑھے آٹھ بجے کے قریب ایک اور کال گرل “منال“ کا فون آیا یہ بھی مغربیہ ہے اور دیرہ کے ایک معروف مال کے پاس پولیس اسٹیشن کے پچھوارے ایک فلیٹ میں رہتی ہے ۔ منال ایک اچھی گاہک ہے ۔ اور ہمیشہ کچھ انعام و اکرام بھی دیا کرتی ہے ۔ اس نے کہا کہ ایک گھنٹے تک تم میرے پاس آجاؤ ہمیں کہیں جانا ہے ۔ میں اسکا فون سن کر پھر سوگیا اور تقریباََ نو بج کر پانچ منٹ پر میری آنکھ کھلی تو مجھے یاد آیا کہ ارےےےےے منال کا فون آیا تھا میں جلدی سے اٹھا اٹھ کر ابھی منہ ہاتھ دھویا ہی تھا کہ میرے فون کی گھنٹی بجنے لگی میں نے دیکھا تو منال کا فون تھا میں نے جواب نہیں دیا بلکہ پاجامے کے اوپر ہی پینٹ پہن کر شرٹ پہنی اور چابیاں اٹھا کر یہ جا وہ جا گاڑی کے اندر بیٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کرکے منال کو فون کیا کہ ہاں ہاں میں گھر سے نکل چکا ہوں اور پانچ سات منٹ میں تمہارے گھر پہنچ رہا ہوں ۔ جیسے ہی پہنچا تمہیں فون کروں گا تم نیچے آجانا ۔
نو بج کر تیس منٹ پر میں منال کو اسکے گھر سے اٹھا چکا تھا اور ہم مطینہ کے علاقے کی طرف رواں دواں تھے ۔ مطینہ کے علاقے میں دبئی پام ہوٹل کے پہلو میں ایک رینٹ اے کار والوں کے پاس سے منال نے اپنا پاسپورٹ لیا اور مجھے کہنے لگی کہ ابھی بردبئی رامادا سگنل کی طرف چلو اور وہاں سے رائیٹ لے لینا جہاں پر ایک فرنیچر کی دوکان پر مجھے اپنا پاسپورٹ دینا ہے ۔ وہاں جا کر ہم نے پاسپورٹ دیا اور اسکے بعد منال کو میں نے اسکے گھر چھوڑ دیا ۔ اس سارے کام میں ہمیں ڈیڑھ گھنٹا لگا ۔ منال نے مجھے ایک سو تیس درہم دے دیئے جو میں نے شکریہ کے ساتھ لے لئے ۔ نہ اس نے کرایہ پوچھا نہ میں نے ضرورت سے زیادہ ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے باقی لوٹایا ۔

منال کو اسکے گھر اتار کر میں اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا تاکہ نہا دھو کر کپڑے تبدیل کر سکوں ابھی میں ہور ال اعنز کے اشارے پر ہی تھا کہ منال کا پھر سے فون آگیا اور کہنے لگی کتنی جلدی سے جلدی پہنچ سکتے ہو میں نے کہا کہ 45 منٹ لگیں گے کہنے لگی بہتر ہے تو آکر مجھے فون کرنا میں نیچے آجاؤں گی میں آرام سے گھر گیا نہادھوکر کپڑے تبدیل کیئے اور واپس منال کے گھر ٹھیک 45 منٹ میں پہنچ گیا ۔ میں نے منال کو فون کیا تو منال نیچے آگئی اور مجھے پانچ سو درہم دے کر کہنے لگی ابھی تمہیں واپس جانا ہے اور محمود (وہی شخص جسے پاسپورٹ دیا تھا) کو اس میں سے 4 سو درھم دے کر خود پچاس رکھنے ہیں اور جب بھی واپس آؤ مجھے باقی پچاس درہم دینے ہیں ۔ میں نے کہا بہت بہتر اور اس سے پیسے لے کر بر دبئی کی طرف روانہ ہوا ۔
 
روانہ ہوتے ہی مجھے منال نے آواز دی کہ سنو میں محمود کو فون کر دیتی ہوں پہلے میں فون کر لوں پھر تم جانا ۔ میں نے منال کو غور سے دیکھا تو مجھ پر ایک حقیقت آشکارا ہوئی ۔ منال نے اپنا شیلا (ایک قسم کا عبایہ ) الٹا پہن رکھا تھا ۔ میں نے اسے کہا کہ منال میں چلتا ہوں تم اسے فون کر کے بتا دینا اور اس کے بعد اپنا شیلا سیدھا کر کے پہن لینا ۔ منال شرمندہ سی ہو کر یہ کہتے ہوئے اپنے گھر چلی گئی کہ ٹھیک ہے میں جاتی ہوں تم فورا جا کر اسے یہ پیسے دے کر آجاؤ ۔

میں نے روانگی پکڑی اور ٹاپوٹاپ مکتوم برج (دبئی کا ایک پل جو ڈیرہ کو بر دبئی سے ملاتا ہے ) کے ذریعے بر دبئی پہنچ گیا ۔ میں نے طارق بن زیاد روڈ سے خالد بن ولید روڈ کا روٹ پکڑا تو برجمان سے ذرا پہلے پاکستانی سفارت خانے کے سامنے ٹریفک جام تھی ۔ میں نے ڈرائیور سائیڈ کا شیشہ کھولا ہوا تھا اور ہاتھ میں سگریٹ تھا ۔ ایک ادھیڑ عمر کا آدمی سڑک کراس کرتا ہوا آیا اور میری گاڑی کے پاس کھڑے ہو کر مجھ سے سگریٹ کا تقاضا کرنے لگا ۔ میں نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی سگریٹ تو نہ دی بلکہ اسے اپنا پیکٹ پکڑ کر اس میں سے دو نئی سگریٹ نکال کر دیں اور کہا “ ایہ لو بابا جی“ بابا جی نے مجھے غور سے دیکھا اور پوچھا کہاں سے ہو میں نے کہا کہ جی لاہور سے ہوں ۔ اب منال والا پانچ سو ٹیپ ریکارڈر کے ساتھ والے چھوٹے خانے میں پڑا ہوا تھا ۔ بابا جی کی نظر اس پر پڑ گئی ۔ میرے دل میں ترس آیا کہ بزرگ آدمی ہےاتنی گرمی میں کیا کھڑا رہے گا میں نے انہیں کہا کہ بابا جی ادھر سے آکر گاڑی میں بیٹھ جائیں ۔ اچانک میرے دل میں آیا تو میں نے وہ پانچ سو اٹھا کر جیب میں رکھ لیا ۔ اب بابا جی سے بات شروع ہوئی تو کہنے لگے کہ تم کتنے کے مقروض ہو۔۔۔؟
میں نے کہا کہ جی لاکھوں کا ۔ کہنے لگے ہم نے حج کے لئے جانا ہے ہمیں ٹکٹ کے پیسے دے دو ۔ میں نے کہا کہ بزرگو میرے پاس تو اتنے پیسے نہیں ۔ اتنی دیر میں اشارہ کھل گیا اور میں نے گاڑی آگے بڑھا دی آگے بابا جی ایک جگہ کہنے لگے یہاں گاڑی روکو میں نے ایک سائیڈ پر کر کے گاڑی روک دی اور بابا جی کو پوچھنے لگا جی ۔ ۔ ۔!
اب بابا جی نے مجھے کہا کہ ایک کاغذ کا ٹکڑا دو میں نے ایک کاغذ کا ٹکڑا دیا تو اس میں سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا پھاڑ کر بابا جی نے اپنے ہاتھ میں اسے دونوں ہتھیلیوں کے درمیان رکھ کر مروڑا اور واپس مجھے دے دیا کہنے لگے اسے کھولو ۔ ۔ میں نے جب اسے کھولا تو میں حیران رہ گیا اس میں سرخ روشنائی سے ایک تعویز لکھا ہوا تھا ۔ اب بابا جی نے اپنی جیب سے ایک پانچ کا نوٹ نکالا اور اسے دانتوں میں چبا کر میرے ہاتھ میں رکھ دیا اور میری مٹھی بند کر دی اور فرمانے لگے ۔ اسے سنبھال کر رکھنا اور شام تک یہ جتنا بھی ہو جائے ۔ پانچ ہزار دس ہزار ۔ ایک لاکھ اس سے اپنے سارے قرضے اتار دینا ۔ میں بہت معتقد ہوگیا کہ بابا جی کی نظر کرم ہوگئی ہے ۔ اب تو بیڑے پار ہوئے ہی ہوئے ۔اتنے میں ایک فون آیا تو میں نے جیب سے موبائل نکالا تو وہ پانچ سو کا نوٹ نکل کر میری گود میں گر گیا جو منال نے مجھے محمود کے لئے دیا تھا ۔ بابا جی نے جھپٹ کر وہ نوٹ پڑ لیا اور اسے لپیٹ کر اپنی ہتھیلی پر رکھ کر جو انگوٹھے سے دبایا تو ایک چمچ جتنا پانی اس میں سے نکل کر میرے اس ہاتھ پر گر گیا جس میں پانچ کا نوٹ تھا ۔ میرے کان کھڑے ہوئے اور میں نے بابا جی کی طرف توجہ کرتے ہوئے موبائل کو بند کیا اور بابا جی سے کہنے لگا کہ باباجی یہ پیسے واپس دے دیں یہ کسی کی امانت ہیں ۔


(آج خوشی محمد کی ڈائری کافی طویل ہو گئی ہے باقی کل لکھوں گا)
 
ہٹ ۔ہٹ یہ کہتے ہوئے بابا اپنے ہاتھ کچکچانے لگا اور مجھے کہنے لگا کہ یہ بابا کو دے دو تمہیں اور مل جائیں گے ۔ اب میں جتنا بھی بے وقوف سہی مگر اتنا بھی نہیں کہ کسی کی امانت کے پیسے اس بابے کے ہاتھ رکھ دیتا میں نے بابے کو کہا کہ بابا جی اگر اللہ والے ہو تو امانت کی حقیقت کو سمجھو اور اب یہ پیسے واپس کر دو ۔ بابا کہنے لگا کہ اچھا یہ لو میں نے جھپٹ کر وہ پیسے پکڑے اور بابا کو اترنے کو کہا اب بابا بولا تو کچھ اور پیسے ہیں تو وہ ہی دے دو ۔ میں نے دیکھا کہ میرے ایش ٹرے میں آٹھ دس ایک ایک درہم کے سکے پڑے ہوئے تھے میں نے یہ سوچ کر بابے کو وہ سارے سکے دے دیئے کہ بابا جی نے اب اتنی محنت کی ہے اسکا پھل تو انہیں ملنا ہی چاہیئے ۔ اور وہ دیکر میں سیدھا محمود کے پاس پہنچا اس کو 4سو درہم دیا اور باقی ایک سو رکھ کر واپسی کا قصد کیا ۔ واپسی پر ایک جگہ سے فون آگیا کہ ایک فیملی کو العین جانا تھا میں سیدھا ناصر سکوئیر گیا اور اس فیملی کو لیکر العین کے لئے روانہ ہو گیا ۔ منال کا ایک سو میرے پاس ہی تھا جس میں سے پچاس میرے اور پچاس باقی دینے تھے ۔ میں نے احتیاط کے طور پر جاتے ہوئے راستے میں سے ٹینکی فل کروا لی تاکہ راستے میں کوئی مشکل نہ ہو ۔ العین میں آندھی اور طوفان کے ساتھ ساتھ بارش ہوئی ۔ راستے میں گاڑی ہوا سے جھٹکے کھا رہی تھی ۔ ریت تیز ہوا سے اڑ کر راستے میں گرد و غبار کی دبیز تہہ پھیلا رہی تھی پچاس میٹر دور کا منظر نظر نہ آتا تھا ۔ ایسا صرف پانچ سات منٹ کے لئے رہا پھر الحمدللہ سب ٹھیک رہا ۔ جبل حفیت ۔ العین کا چڑیا گھر ۔ مبذرہ خضرا ۔ اور پھر ہیلی فن سیٹی (جو اتوار کو بند ہونے کی وجہ سے اویس صاحب اور ان کے اہل خانہ کو بڑی کوفت ہوئی) کے بعد دوبئی کا رخ کیا ۔ میرے آج کے ہم سفر اویس صاحب تھے جن کا کراچی میں فرنیچر کا کاروبار ہے ۔ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ دوبئی کی سیر کو آئے ہوئے تھے اور ہوٹیل لینڈ مارک میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ رات کو ساڑھے نو بجے دوبئی پہنچے اور چکن تکہ ان جمیرا سے کھانا پیک کروا کے انہیں انکے ہوٹل چھوڑ کر میں گھر واپس آگیا ۔ پیسے اب انشاء اللہ کل ملیں گے ۔
 
6 اگست سن دو ہزار سات

--------------------------------------------------------------------------------

صبح اٹھا تو دیکھا کہ لمیا کی مس کال تھی ۔ صبح 4 بجے کی ۔ آج کل لمیا کا کام اچھا نہیں چل رہا ۔ اور اسکی مالی حالت ٹھیک نہیں ہے ۔ میں نے اسے اگنور کر دیا ۔ اٹھ کر کام کے لئے نکلا تو پہلے گاری سروس کروانے کے لئے لے کر جانا تھا کیونکہ رات کی العین والی بارش نے گاڑی کی ایم سی کر کے رکھ دی تھی ۔ ابھی قبائل سنٹر کے سامنے سے گزر ہی رہا تھا کہ منال کا فون آگیا پوچھنے لگی کہاں ہو ۔ میں نے کہا کہ قبائل اور حمرعین سنٹر کے درمیان سے گزر رہا ہوں ۔ کہنے لگی فورا حمرعین کے پیچھے والی سڑک پر آجاؤ ۔ میں نے وہیں سے گاڑی اندر کی تو سامنے سے منال اور جیہاں چلی آرہی تھیں انہیں رامادا کونٹینینٹل نزد ابوہیل سنٹر جانا تھا انہیں اتار کر گاڑی سروس کروائی اور کام کی طرف نکل گیا ۔ کوئی کام نہیں لگ رہا تھا ساڑھے گیارہ بجے لمیا کا فون آیا کہ شارجہ سے مجھے لیکر دبئی گولڈ سوق کا چکر لگوا دو اور پیسے جب میرا کوئی کام لگے گا میں دے دوں گی ۔ اب میرے پاس بھی صبح سے کوئی کام نہیں تھا میں نے کہا چلو نقد نہیں آتا تو نہ سہی ادھار ہی سہی کبھی نہ کبھی تو ملے گا ہی نا ۔ ھامی بھر لی اسی وقت منال کا بھی فون آگیا کہ محمود کے پاس سے 2500 درھم لیکر اسے ہاوانا پیلیس ہوٹیل میں پہنچا دوں اور کل والے 50 برابر کر لوں ۔ میں نے پہلے منال کا کام کیا اور پھر لمیا کو فون کیا کہ چلو تمہیں لے چلوں اور اس طرح اسے لیکر آیا اور گولڈ سوق پہنچا دیا ۔ گولڈ سوق میں اسکے کسی “جاننے والے“ نے اسے سفید سونے کی انگوٹھی تحفہ دی جو دیکھ کر واپسی پر لمیا مجھے کہنے لگی اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ایسی معمولی انگوٹھی تحفہ دے گا تو شارجہ سے کبھی نہ آتی ۔ میں نے کہا اسکی قیمت نہ دیکھو اسکے پیچھے جو جذبہ ہے اسے دیکھو ۔
کہنے لگی ۔
جذبات وزبات کچھ نہیں ہوتے ۔ اہم چیز ہے پیسہ اگر یہ پاس ہے تو سارے جذبات اہم ہوتے ہیں اور میری کیا اوقات میں تو ایک طوائف ہوں 2500 درہم لیکر کسی کے بھی جذبات کا رات بھر خیال رکھ سکتی ہوں اس لئے یہ کہانیاں مجھے مت سناؤ ۔

کتنی سچی بات کی تھی لمیا نے ۔ یر لمیا کو چھوڑا واپسی پر دو عمانی لڑے ملے انہیں ساتھ لیکر تمباکو لیکر دیا اور پھر رات کو واپس گھر پہنچ گیا ۔ ابھی گھر پہنچا ہی تھا کہ ندیم کا فون آگیا کل والے العین ٹرپ کے پیسے دینے کے لئے آواری ہوٹل کے پاس ڈاکخانے والی پارکنگ میں بلا رہا تھا جو میں جا کر لے آیا۔
 
لمیا کا تعارف:
مراکش سے تعلق رکھنے والی یہ 22 سالہ خاتون خود کو وہاں کے شاہی خاندان کی آل سے بتاتی ہیں اور واقعی یہ ادریسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں ۔ پوچھنے پر کہ تم یہ کام کیوں کرتی ہو بس خاموش رہتی ہے ۔ اپنے خاندان کی واحد کفیل ہے ۔ بلا کی سگریٹ نوش ہے مے نوشی بھی کرتی ہے مگر رمضان سے 40 دن پہلے شراب چھوڑ دیتی ہے ۔

منال کا تعارف :

منال بھی مراکش سے ہے عمر 25 سال گھاٹ گھاٹ (قطر ۔ بحرین ۔ کویت ۔ یورپ) کا پانی پیتی ہوئی دبئی گھاٹ پر آن پہنچی اسکی سواری اب کب یہاں سے اٹھتی ہے اللہ جانتا ہے ۔ موبائل میں 400 سے زائد گانے رکھے ہوئے ہیں ۔ چین اسموکر ہے ۔ اپنے اس کام میں آنے کا بتاتے ہوئے کہتی ہے ۔ پہلے پہل ایسے ہی مستی میں یہ کام کرتی تھی پھر جب کہیں سے پیسے ملے تو اسے معلوم ہوا کہ ایسا بھی ہوتا ہے اور پھر اس نے اسے ہی ذریعہ معاش بنا لیا ۔ مستقبل کا کہتی ہےدوچار لڑکیاں رکھوں گی اور انکی ایجنسی چلاکر اچھا بھلا گزارا کروں گی شادی کا کہتی ہے ۔ ہنہ ہمیں شادی کی کیا ضرورت ۔ ۔ ؟

جیہان

مراکش کی یہ لڑکی بھی 25 سال کی ہی ہے ۔ کہتی ہے ہمارے کام میں عمر بہت تھوڑی ہے بس جو لپیٹ سکتے ہو لپیٹو اور موج مستی کرکے زندگی کے ہر لمحے سے زندگی کا مزہ چوس کر نچوڑ لو

منیٰ

“ایک عرب ملک“ سے تعلق رکھنے والی یہ لڑکی بہت بڑے خاندان کی چشم و چراغ ہے جیب خرچ پورا کرنے کو اس دھندے میں ہے کہتی ہے کہ گھر سے ملنے والے خرچ سے تو موبائل کا بل بھی پورا نہیں ہوتا اور اخراجات کہاں سے پورے کرے ۔ گھر سے چھپ چھپا کر اس دھندے کو سرانجام دیتی ہے اور 8000 میں رات کالی کرتی ہے ۔
 
سات اگست 2007

صبح 6:30 ایک شارجہ ایئر پورٹ کا ٹرانفر تھا وہ کیا پھر واپس آکر کام پر بیٹھا اور بیٹھتے ہی سوگیا ۔ ایک آواز سے آنکھ کھلے جیسے کوئی ٹیکسی کی آواز دے رہا ہو اٹھ کر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص جو شکل سے ہی ٹھرکی سا لگ رہا تھا مجھے پوچھ رہا ہے کہ کوئی باڈی مساج اور کلینزینگ کا سنٹر بتاؤ میں نے اسکو بتا دیا اور ابھی لانے لیجانے پر بھاؤ تاؤ ہو ہی رہا تھا کہ ایک ابن بطوطہ جانے والی سواری نکل گئی ۔ میں لگا رہا کہ چلو فائینل ہو جائے گا تو کچھ آئے گا ہی نا ۔ آخر 40 میں آنے جانے کی بات ہوئی ۔ اسکو مساج سنٹر چھوڑ کر آگیا اور جب مقررہ وقت پر میں دوبارہ وہاں گیا تو وہ بندہ غائب اسے گالیاں دیتا ہوا واپس پہنچا تو ایک قطری فیملی کے ساتھ سارے دن کی بکنگ ہو گئی ۔ شیخ فلاح التھانی کا تعلق قطر سے ہے اور اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ چھٹیاں گزارنے دبئی آئے ہیں ۔ انہیں ساتھ لیکر میں حتا روڈ پر ویجیٹیبل مارکیٹ کے بعد دبئی انٹرنیشنل سیٹی کے پہلو میں موجود ڈریگن مال گیا جہاں سے واپسی پر انہوں نے تاج پیلس کھانا کھایا اور پھر واپس انکی رہائش گاہ پر پہنچایا ۔
اور اسطرح آج کا دن بھی بیت گیا۔
 
11 اگست 2007

تین دن سے شیخ فلاح کے ساتھ شوفر کر رہا ہوں الحمد للہ اچھا چل رہا ہے ۔ آج شیخ سے باتیں کرتے کرتے انکی ایک بات نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ۔ کہنے لگے تم پاکستانی ہو میری بات کا برا مت ماننا مگر اگر مجھے کوئی کہے کہ کسی پاکستانی سے کچھ تجارت کی چیز منگاؤں تو میں کبھی ایسا نہیں کروں گا ۔ باتوں باتوں میں یہ بات اس موڑ پر آئی تھی لہذا مجھے یہ سوال پوچھنا پڑا کہ کیوں ۔
کہنے لگے کہ 99 فیصد پاکستانی تاجر لالچی ہوتے ہیں اور پہلی ہی ڈیل میں ساری کسریں نکالنا چاہتے ہیں جیسے پھر کبھی کاروبار ہی نہ کرنا ہو ۔ میری کمپنی کے پاس قطر کی فوج کے یونیفارمز بنانے کی ذمہ داری ہے ۔ ہم نے کپڑے کا نمونہ منگوایا تو سب سے بہترین نمونہ پاکستان سے ایک کمپنی نے بھیجا انکی قیمتیں بھی بہت مناسب تھیں ہم نے منظور کر کے انہیں مال بھجوانے کا آرڈر دے دیا ۔ مال آنے پر جب ہم نے کنٹینرز کھولے تو ردی ترین مال جو کہ ہمیں بعد میں کھلے بازار میں تھانوں کے حساب سے انتہائی ارزاں قیمت پر بیچنا پڑا ۔ اس ایک ڈیل میں ہم نے سوا تین ملین ریال کا نقصان کھالیا ۔ مگر اچھا ہوا اتنے میں نصیحت ملی کہ کسی بھی صورت میں کبھی بھی کسی پاکستانی کمپنی سے مال نہیں خریدنا ۔ ۔۔ تم لوگوں سے ہندوستانی اچھے ہوتے ہیں ۔ دو پیسے کمائیں گے مگر سروس ایسی دیں گے کہ مت پوچھو ۔ جو سیمپل بھیجیں گے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مال کی کوالٹی اس سے کم ہو ۔ ۔ ۔ شیخ بولے جارہے تھے اور میں سوچ رہا تھااور ابھی بھی سوچ رہا ہوں کہ ایک شخص کی حرکت نے وقتی طور پر اس کی جیب میں تو کچھ مال ڈال دیا ہوگا مگر ہمارے ملک کی کاروباری ساکھ کو کتنا نقصان اٹھانا پڑا کون جانے ۔ ۔ ۔ پھر کہتے ہیں ہماری عزت نہیں ہوتی
 
13 اگست 2007

آج شیخ فلاح التہانی کا دبئی میں آخری دن تھا ۔ سارا دن انکے ساتھ رہا ۔ سامان کارگو کروایا پھر ٹائمز اسکوئیر میں آئیس کیفے میں جاکر انہوں نے اپنی فیملی کے ساتھ منفی بیس درجہ حرارت پر کافی پی اور پھر میں فارغ تھا ۔ کچھ خاص کام نہیں تھا مگر کراچی سے ایک کلائینٹ کا فون آگیا ۔ یہ وہی صاحب ہیں جو ایک انتہائی با اثر سیاسی شخصیت ہیں ۔ ایک سندھ کے بڑے پیر صاحب کے بیٹے سے ملاقات کرنے دبئی آئے تھے اور جاتے جاتے مجھے ایک بہت بڑی خاتون سیاستدان کی علیحدگی اور خلع کے بارے میں بتا گئے تھے جسکا اعلان نہ ہوا ہے اور شاید ہو بھی نہ کیونکہ اس خاتون سیاستدان کا سیاسی کیریئر خراب ہونے کا اندیشہ ہوگا ۔ یہ صاحب کچھ دنوں میں آرہے ہیں اور پھر سے میری بکنگ چاہتے تھے میں نے حامی بھر لی ہے اب دیکھتے ہیں کہ کب آتے ہیں نئی نئی راز کی باتیں لے کر ۔ ۔ ۔ ۔
 
16 اگست 2007

لیجئے جناب محترم “و“ صاحب تشریف لے آئے ہیں ۔ “و“ صاحب کی اپنی عمر کوئی 50-60 کے قریب ہوگی ۔ اور ہر ہفتے پندرہ دن میں دوبئی موجود ہوا کرتے ہیں ۔ دو مشہور انڈین نائیٹ کلبز میں پکے گاہک ہیں ۔ اور کال گرلز ایک سے ایک پائے کی منگوایا کرتے ہیں اتنی زبردست کہ بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہ پوچھیں ۔ انہوں نے آج سہ پہر تین بجے اپنے ہوٹل سے فون کر کے مجھے بلایا تھا ۔ ان کے ساتھ اس بار ایک مشہور اداکارہ “ س - ا “ تھی جسے کچھ خریداری کروانے کے لئے بھیجنا تھا ۔ اور اس اداکارہ کے ساتھ انکی ایک آنٹی بھی تھیں ۔ شاید اس اداکارہ کا یہ دوبئی کا پہلا چکر تھا یا پھر بہت عرصے بعد آئی تھی ۔ ہر چیز اور جگہ کے متعلق کرید کرید کر پوچھ رہی تھی ۔ سٹی سنٹر سے ہیروں کا سیٹ ۔مینا بازار سے کچھ کپڑے وغیرہ کی خریداری کی تو رات کو کلب کی بجائے صاحب کے کمرے میں ہی رونق میلہ لگا لیا ۔ رات کو ایک بجے کے قریب فون آیا کہ خوشی فورا ہوٹل پہنچو ۔ حکم کا بندہ پہنچ گیا ۔ صاحب نے میڈم کو پہلو میں بٹھایا اور نکل پڑے دوبئی کی لانگ ڈرائیو پر ۔ میڈیم صاحب کو پوچھ رہی تھیں کہ اب پھر مجھے دوبئی کا ملٹیپل ویزہ لگوا دو نا اور صاحب بھی فرما رہے تھے کہ جان فکر ہی مت کرو میں پرسنل ملازمین کے طور پر پانچ لوگوں کو لا سکتا ہوں تو تیرا ویزہ تو کوئی پرابلم ہی نہیں ہے ۔ میں دل ہی دل میں ہنس رہا تھا ۔ ملٹیپل ویزہ ۔ پانچ ملازمین ۔ نو پرابلم ۔ اور صاحب کے آگے میڈم کا بچھ بچھ جانا ۔ اللہ اگر پاکستان میں کوئی انہیں دیکھ لے تو ان سے نفرت کرنا شروع کر دے ۔ مگر چھوڑیں جی ہمیں کیا ۔ کوئی اپنے گھر میں جو مرضی ہو ۔ اور ایسے لوگوں سے تو ہمارا کام چلتا ہے کہاں ہم معمولی ڈرائیور اور کہاں وہ بڑے لوگ ۔ رات کو تین بجے میڈم اور صاحب اوپر چلے گئے اور میں واپس گھر ۔ اس طرح یہ دن بھی بیت ہی گیا
 
رمضان شریف کی آمد کی تیاریاں یہاں دوبئی میں بہت دن پہلے سے ہی نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ تقریبا ایک ہفتہ پہلے اچانک سعودی اور قطری صاحبان کی آمد بتانا شروع کر دیتی ہے کہ رمضان کی آمد آمد ہے ۔ مگر اس بار رمضان سے تین دن پہلے ہی "و" صاحب کا فون آگیا کہ بھئی "خوشی محمد" آجانا آج میڈم کو ذرا گولڈ سوق لے کر جانا ہے ۔ پہنچنے پر پتہ چلا کہ میڈم کوئی اور نہیں کارلٹن ٹاور کی سابقہ بار ڈانسر ہے ۔ اور انہیں کچھ زیورات خریدنے کے لیئے جانا ہے ۔ میں انہیں لے کر چلا گیا زیورات خریدنے کے بعد "میڈم" کو سٹی سنٹر لے گیا ۔ یہ میڈیم بھی خوب ہے ۔ عمر 22 سال ۔ مومبائی سے تعلق ۔ نام سونالی ۔ بھارت میں اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہیں ۔ ملنے پر ابتدائی تعارف میں بتانے لگیں کہ "و" صاحب ہمارے فیملی فرینڈ ہیں ۔ میرے پتا کے دیہانت کے بعد سے ہمارے گھر آتے جاتے ہیں ۔ میرے باپ کی جگہ پر ہیں بہت شفقت کرتے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ (بھولی بیچاری کو یہ نہیں علم تھا کہ "و" صاحب کس کس کے باپ کی جگہ ہیں یہ تو شاید و صاحب کو خود بھی پتہ نہ ہو) ۔ اب ہمارا کیا کام ہے کہ بڑے لوگوں کی باتوں کو جھوٹا کہیں ۔
 
میڈم سونالی کے ساتھی کافی فرینکنیس سی ہو گئی ۔ انہیں لے کر سیٹی سنٹر کے فوڈ کورٹ میں گیا جہاں ہم دونوں نے میکڈونلڈز ویج برگر کا آرڈر دیا ۔ اتنے میں وڈیرہ صاحب کا فون آگیا کہ بھئی خوشی محمد ہم آگئے ہیں کہاں ہو ۔ میں نے سچ سچ بتا دیا کہ جی ایک گیسٹ کے ساتھ سیٹی سنٹر میں ہوں کہنے لگے ہم بھی سیتی سنتر میں ہیں کب تک فارغ ہو جاؤ گے ۔ کہا کہ دو ایک گھنٹہ لگے گا ۔ اتنے میں میں نے انہیں اور انہوں نے مجھے دیکھ لیا ۔ دیکھ کر فون کر کے کہنے لگے کہ ساتھ کون ہے بتا دیا کہ ایک گیسٹ کا شوق ہے ۔ کہنے لگے بہت بہتر بھگتا کر بتا دینا ۔ برگر کھانے کے بعد نکل کر میڈم کو کرامہ لے کر گیا کہ جہاں انہیں ایک مینی اسکرٹ لینا تھا ۔ وہ لیکر انہیں انکے ہوٹل اتار کر وڈیرہ صاھب کو پوچھا کہ کہاں ہیں کہنے لگے کہ ابھی سیٹی سنٹر ہی ہیں اب تم ٹھیک پانچ بجے شام ہمارے اپارٹمنٹ پر آجانا ۔ آج شام کو نکلیں گے ۔ میں نے کہا کہ جی بہت بہتر اور واپس گھر آگیا ۔
 
ساڑھے تین بجے "و" صاحب کا فون آگیا ۔ بھئی خوشی محمد رات کو ساڑھے نو بجے آجانا کچھ سیر کو جائیں گے ۔ کہا کہ جی بہت بہتر اور اب اٹھ کر تیار ہو کر وڈیرہ صاحب کے اپارٹمنٹ پر پہنچ گیا ۔انہیں ساتھ لیکر شیخ زاید روڈ پر بی ایم ڈبلیو کے شوروم گیا اور پھر کوئی ساڑھے آٹھ بجے واپس اپارٹمنٹ پہنچایا ۔ صاحب پوچھنے لگے کہ ابھی کلب کونسا کھلا ہوگا ۔ میرے ذہن میں "ؤ" صاحب کا وقت بھی تھا تو میں نے کہ دیا کہ جی کلب تو ابھی سارے کھلے ہونگے مگر محفل جوبن پر رات بارہ کے بعد آئے گی ۔ کہنے لگے کہ بہت بہتر تم بارہ بجے تک آجانا ۔ انہیں گولی کرا کے نکلا اور سیدھا "و" صاحب کے پاس پہنچ گیا ۔
 
کوئی دس منٹ انتظار کے بعد "و" صاحب میڈم سونالی کے ساتھ آگئے میڈم شاید اپنا کل والا وہ بیان جو میرے سامنے دیا جا چکا تھا بھول چکی تھیں اب "و" صاحب جانو بن چکے تھے ۔ اور پیچھے بیٹھ کر انہیں چھیڑنے کا سلسلہ جاری تھا ۔ یہ چھیر چھاڑ بالکل اسی طرح کی جارہی تھی جیسے کہ نئی نئی Love Story شروع ہونے کے بعد پہلی بار لانگ ڈرائیو پر نکلا جاتا ہے ۔ انہیں لیکر حاجی علی جوس کارنر پر چلا گیا جو کہ لامسی پلازا کے پاس واقع ہے ۔ میڈم نے کیسر والا فالودہ منگوایا ساتھ میں گرلڈ ویج سینڈوچ منگوایا ۔ جسے کھا کر وہی ٹور اسٹارٹ ہوا جو اس سے پہلے پچھلے مہینے میڈم "س-ا" کو کروایا تھا ۔ شیخ زاید روڈ سے لیکر برج العرب اور پھر جمیرا کے رستے واپس ساڑھے گیارہ بجے انہیں ہوٹل اتارا ۔ پونے بارہ بجے وڈیرہ صاحب کے اپارٹمنٹ پہنچ گیا ۔ وڈیرہ صاحب کا موڈ آج شکار کرنے کا تھا ۔ لہذا وہ مراکشی کلب چلے گئے ۔ مگر انکی قسمت کہ زیادہ تر "کال گرلز" رمضان آنے کی وجہ سے مراکش اور یورپ کا رخ کر چکی تھیں ۔ اور اس طرح انکی رات کالی ہونے سے بچ گئی ۔ کل پہلا روضہ ہے ۔ یعنی اب اگلا ایک مہینہ کام نہیں ہوگا اللہ مالک ہے دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے
 
رات کو ساڑھے تین بجے واپسی ہوئی اور سوتے سوتے چار بج گئے ۔ صبح تقریبا چھے بجے یعقوب ڈرائیور کا فون آگیا یعقوب کے پاس کاپریس گاڑی ہے اور کافی موڈی قسم کا آدمی ہے کہنے لگا کہ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے ال قصیص میں البستان روٹانا کے قریب کوئی ایمبیسیڈر رہتا ہے اس کے گھر جانا ہے اور پھر اس کے ساتھ رہنا ہے ۔ ایمبیسیڈر کے گھر ساڑھے آٹھ بجے پہنچ گیا اور وہ بھی ٹھیک آٹھ تیس پر گھر سے باہر نکل آیا ۔ مجھے دیکھتے ہی پوچھنے لگا کہ تم ہی ہو۔۔۔۔؟ شناخت کروانے پر گاڑی میں بیٹھ گیا ۔ کچھ دفتری کام تھے انکی تکمیل کے بعد اسے آئیکیا لے گیا جہاں سے اس نے کچھ فرنیچر کی خریداری کی اور پھر اسے گھر چھوڑنے جا رہا تھا کہ "و" صاحب کا فون آگیا کہ ڈیرھ گھنٹے کے بعد ہوٹل سے ائیرپورٹ کے لئے حاضر ہو جانا ۔ ایمبیسیڈر صاحب کے ساتھ اچھی انڈر اسٹیندنگ کے ہو گئی تھی اور انہوں نے مجھے آنے والے چار دن کے لئے بک کر بھی لیا تھا ۔ انہیں گھر چھوڑ کر "ؤ" صاھب کو ائیرپورٹ چھوڑ کر گھر آگیا ۔ سردرد اور سردی کی شکایت لگ رہی ہے شاید تھکان کی وجہ سے ہے ۔
 
سردی کی شکایت صبح کچھ زیاہ محسوس ہونے لگی ساتھ میں سر درد بھی ہونے لگا ۔ مسٹر کاسم (قاسم نہیں) نائیجیریا کے ممبر پارلیمنٹ ہیں انکے ساتھ مجھے یہ دوسرا دن ہے صبح چائے کے ساتھ رس کھا کر 4 گولیاں اے ڈول (یہاں کی پینا ڈول) کھا کر کام پر نکل گیا ۔ معلوم ہے کہ رمضان میں کام کی کیا پوزیشن ہوتی ہے یہ چند دن کام ہے پھر تو پورا مہینہ آرام ہی آرام ہے ۔ کاسم صاحب کے گھر ٹھیک نو بجے پہنچ گیا ۔ انہیں لیکر پھر نکلا اور ڈیرہ ٹیکسی سٹینڈ کے پاس بلدیہ کے میڈیکل سنٹر پہنچا جہاں انہیں میڈیکل کرانا تھا میڈیکل کرا کے انکے دفتر لے گیا جہاں وہ اوپر دفتر میں چلے گئے اور میں نیچے گاڑی میں انتظار کرنے لگا ۔ ریڈیو کے چینل 2۔106 پر کرکٹ کمنٹری لگی ہوئی ہے خانہ خراب گلی محلے کا کرکٹ اب انٹر نیشنل ہو گیا ہے پتہ نہیں ترقی کی علامت ہے یا کہ تنزلی کی مگر کہتے ہیں کہ اگر خاوند عیاش ہوں تو بیویاں خراب ہو ہی جاتی ہیں وہی حال اس کرکٹ کا ہے بہر حال ساڑھے آٹھ بجے کاسم صاحب کی واپسی ہوئی انہیں انکے گھر اتار کرمیں سیدھا گھر پہنچ گیا ایک گلاس دودھ کو مائیکرو ویو میں گرم کر کے دو گولیاں اے ڈول کی لیکر میں جو سویا تو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب نیند آئی اور کب میں غافل ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
صبح اٹھا تو کپڑے پسینے سے تر تھے اب کمبل ہٹاتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا کہیں ہوا نہ لگ جائے مگر پھر بھی آہستہ آہستہ کرکے کمبل ہٹایا اور تھوڑی دیر بعد نہانے کے لئے باتھ روم میں تھا ۔ گرمیون میں گرم پانے سے نہانے سے آدمی برائلر مرغی بن جاتا ہے مگر دبئی میں یہ مجبوری ہے ۔ یہاں سال کے 365 دن پانی گرم ہی آتا ہے لہذا سردیوں میں مزا آتا ہے جبکہ گرمیوں میں ڈر ڈر کر نہانا پڑتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے گرم گرم چائے پینے سے پہلے آدمی چھوٹی سی سرکی لگا کر دیکھتا ہے کہ کتنا گرم ہے ۔ نہا کر شیو کرکے ناشتہ کیا کو کہ ایک عدد ملواری پراٹھے اور چائے پر مشتمل تھا اور سیدھا کاسم صاحب کی طرف نکل گیا گیارہ بجنے میں ابھی دس منٹ باقی تھے کہ میں کاسم صاحب کے گھر کے سامنے تھا ٹھیک گیارہ بجے کاسم صاحب باہر نکلتے ہوئے دکھائی دیئے ۔ جب ہم روانہ ہوئے تو سامنے سے دھوپ پڑ رہی تھی کہنے لگے سن شیڈ نیچے کر لو عرض کیا کہ سکرین پوری نظر نہیں آئے گی لہذا ڈرائیونگ میں سستی کا اندیشہ ہے کہنے لگے سیٹی سنٹر کی طرف لے لو میں نے کہا کہ جی ٹھیک ہے اور سیدھا سیٹی سنٹر لے گیا جہاں وہ اوپر گئے تو ایک گھنٹے بعد نیچے آکر میرے ہاتھ میں ایک چشمہ دیتے ہوئے کہنے لگے یہ لو چشمہ لگا کر گاڑی چلایا کرو ورنہ آنکھیں رہ جائیں گی اور پھر کام بھی نہیں کر سکو گے ۔ دیکھا تو Ray Ban کا سن گلاسز چشمہ تھا شکریہ ادا کرکے چشمہ لے کر میں سوچنے لگا ۔ کیا یہ سچ میں کافر ہے ۔ ۔ ۔ ؟ پھر سوچا اللہ اسے اور ہمیں سب کو ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین اور اس عیسائی کی مہربانی دیکھ کر مجھے اپنے پاکستانی مسلمان بھائیوں کی مہربانیاں یاد آنے لگیں ۔

خیر آج کاسم صاحب سے کافی باتیں ہوئیں کہنے لگے تمہارے خیال میں اب کون وزیر اعظم آئے گا میں نے کہا کہ جی ایک بات تو طے ہے کہ اس بار بھی کوئی کٹھ پتلی وزیر اعظم ہی آئے گا۔ یہ سن کر بہت ہنسے کہنے لگے تم پاکستانی لوگ بھی عجیب ہوتے ہو کرپشن کرپشن کا رونا روتے رہتے ہو مگر سب سے بڑے کرپٹ تم لوگ خود ہو یعنی عوام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے پوچھا کہ جی وہ کیسے کہنے لگے دیکھو تمہارے ملک کے پاس ایک آئین ہے جس میں ہر شعبے کے کردار ۔ اختیارات اور احتساب کے متعلق واضح ہدایات ہیں ۔ میں نے کہا کہ جی ہے کہنے لگے تو پھر قومی اسمبلی ہو یا صوبائی اسمبلی انکا کام ملکی مفاد میں قانون سازی اور پالیسیاں بنانا اور قومی موقف کی وضاحت کرنا ہے اور یہ میں نہیں کہتا بلکہ تمہارا آئین کہتا ہے ۔ اب تمہارے عوام کیا کرتے ہیں انہیں منتخب ہی اس شرط پر کرتے ہیں کہ بھئی ہماری گلیاں بنوا دو ۔ ہمارے گٹر ٹھیک کروا دو ۔ میرے بیٹے کو نوکری لگوا دو۔ وغیرہ وغیرہ تو کیا یہ جن سے بوٹ پالش کا کام لینا نہیں ہے تو اور کیا ہے ۔


اب ایک اور مثال سنو لوکل گورنمنٹ میں جس میں کونسلر وغیرہ آتے ہیں انہیں آپ لوگ ذات برادری کی بنیاد پر چنتے ہیں ۔ انکا کام گلیوں محلوں کی بنیادی سہولیات کا خیال رکھنا ہوتا ہے جبکہ آپ ان سے شادیوں میں صلحیں کروانے کا کام لیتے ہو ۔ان لوگوں سے جنہیں اتنا علم نہیں ہوتا کہ کن صورتوں میں شادی جوڑنا اور کن صورتوں میں نہ جوڑنا بہتر ہے ۔ میونسپل کونسلرز کو آپ لوگ میرج کونسلرز بنا لیتے ہو ۔

فوج سے آپ کی عوام بہت تنگ ہے لیکن کسی بھی سیاسی بحران میں سیاست دانوں کی ملاقاتیں چیف آف آرمی اسٹاف سے شروع ہو جاتی ہیں ۔ فوج کو حکومت کا چسکا لگانے والے فوجی نہیں بلکہ آپ کے سول افراد ہیں اور بری بنتی ہے فوج ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کاسم صاحب بولے جارہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ ہزاروں میل دور ایک چھوٹے سے ایسے ملک میں جہاں شاید کرپشن کا لیول ہمارے ملک سے بھی زیادہ ہے اسکا ایک شخص ہمارے معاشرے کا کتنا علم رکھتا ہے اور ہم جو اسی ماحول میں پلے بڑھے ہیں ہم نے کبھی اس رخ سے سوچا ہی نہیں ۔ ہم اپنا فرض کب پہچانیں گے ۔ کب ہم پاکستانی بنیں گے ۔

خیر کاسم صاحب کو ان کے گھر چھوڑا ابھی افطاری میں کچھ وقت باقی تھا ۔ کاسم صاحب کل نائیجیریا واپس جا رہے ہیں اور کہتے ہیں اکتوبر کے درمیاں میں واپس آئیں گے ۔ طبیعت کافی بہتر ہے ۔ ریڈیو پر بار بار اعلان آرہا ہے کہ اگر کوئی میرے جیسا پکڑا گیا توپہلی بار 5000 درہم اور دوسری بار 10000 جرمانہ ہوگا مگر جی ہم کیا کریں ۔ جب بھوک لگتی ہے اور آپکا بچہ کہتا ہے کہ ابا کھانا چاہیئے۔۔ تو اگر لوگ راستوں میں تلواریں لیکر بھی کھڑے ہوں تو انسان نکلتا ہے کوئی چھپ کے اور کوئی مارا ماری کرکے بچوں کا رزق اکٹھا کرے گا اور جب دوسری نوکریوں میں آمدن بھی اتنی نہ ہو کہ آپ کچھ گھر بھیج سکو ۔ دوبئی کا تو یہ حساب ہے جو کچھ کماؤ اسے ہی دے کر جب بھی جاؤ چاہے ہرسال یا پھر دس سال بعد ادھر ادھر سے پکڑ پکڑا کے ہی جانا ہے ۔
 
لمیا مراکش جا چکی ہے ۔ منال بھی غائب ہے اور دوسری کسی کا بھی فون نہیں آرہا ۔ سارا دن سوکر گزرتا ہے اور پیسے راشد بھائی شارجہ والے سے قرض پکڑ پکڑ کو گزارا کر رہا ہوں ۔ عید بھیجنی ہے ۔ گھر کا خرچہ بھیجنا ہے ۔ روم پر کرایہ دینا ہے ۔ کھانے پینے کا بل دینا ہے ۔ گاڑی کا خرچ بھی پورا کرنا ہے ۔ پچھلے سال کا قرضہ بھی واپس کرنا ہے اللہ مالک ہے پتہ نہیں اب کیا ہوگا ۔ خیر رمضان میں ہمیشہ یہی حال ہوتا ہے اس بار ہوا تو کیا نیا ہوا ۔
 
Top