ایک ٹیلیفونی مکالمہ

عاطف بٹ

محفلین
راجہ: السلام علیکم
عاطف: وعلیکم السلام و رحمۃاللہ
راجہ: عاطف بٹ صاحب بات کررہے ہیں؟
عاطف: جی، عرض کررہا ہوں۔
راجہ: بٹ صاحب، ×××××××× راجہ بات کررہا ہوں، ××××× اخبار سے۔
عاطف: جی جناب، کیسے ہیں آپ؟
راجہ: الحمدللہ میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں سر؟
عاطف: الحمدللہ میں بھی ٹھیک ہوں۔
راجہ: بٹ صاحب، آپ کی مدد چاہئے۔
عاطف: جی بتائیے!
راجہ: تھانہ انارکلی میں ایک بندہ پکڑا گیا ہے توہین آمیز لٹریچر بیچنے پر۔ پولیس پر بہت دباؤ ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ وہ بندہ چھوڑ نہ دیں۔ آپ تھانے فون کر کے ان پر دباؤ ڈالیں کہ بندہ نہ چھوڑیں۔
عاطف: بندہ پکڑا کہاں سے گیا ہے اور کیسے؟
راجہ: ختمِ نبوت والوں نے پکڑ کر پولیس کو دیا ہے۔
عاطف: کس جگہ سے؟
راجہ: اردو بازار سے۔
عاطف: اردو بازار میں وہ توہین آمیز لٹریچر بیچتا تھا۔
راجہ: جی۔
عاطف: اس بات کا کیا ثبوت ہے؟
راجہ: ختمِ نبوت والوں نے اس بندے کو پولیس کی حراست میں دیتے ہوئے ساتھ وہ کتابیں بھی دی ہیں جو وہ بیچتا تھا۔
عاطف: راجہ صاحب، یہ تو کوئی ثبوت نہیں ہے۔ میں کل آپ کو تھانے میں پکڑوا کر ساتھ چند کتابیں اور رسالے دے کر کہہ دوں کہ آپ انہیں بیچنے کا کاروبار کرتے تھے تو کیا اس بات کو تسلیم کرلیا جائے۔
راجہ: نہیں سر مگر وہ توہین آمیز لٹریچر اسی کا تھا۔
عاطف: توہین آمیز لٹریچر سے مراد کیا ہے آپ کی؟
راجہ: قادیانیوں کی کتابیں۔
عاطف: قادیانیوں کی کتابیں عام لوگ اس سے خریدنے کے لئے آتے تھے؟
راجہ: نہیں، اس کے اپنے مذہب کے لوگ ہی لیتے ہوں گے۔
عاطف: تو پھر قادیانیوں کے اپنے مذہب سے متعلق کتابیں خریدنے پر آپ کو کیا اعتراض ہے؟
راجہ: نہیں بٹ صاحب، اس کی دکان عام مارکیٹ میں تھی جہاں وہ قادیانیوں کی کتابیں بیچتا تھا۔
عاطف: راجہ صاحب، اس ملک میں تحریف شدہ تورات، زبور اور انجیل مل جاتی ہیں، یہاں بھگوت گیتا، رامائن اور مہا بھارت اردو ترجموں کے ساتھ عام مارکیٹ میں دستیاب ہیں، یہاں ایسے ایسے قصوں کہانیوں پر مبنی کتابیں سرعام بکتی ہیں جو سراسر اسلام کے منافی ہیں، ایسی ایسی کتابیں عام مارکیٹ میں ہیں کہ پڑھتے ہی ایک مسلمان دوسرے کا گلہ کاٹنے چل پڑتا ہے، ان سب پر تو کوئی روک ٹوک نہیں تو پھر قادیانیوں کی کتابیں بیچنے پر پابندی کیوں؟ چلیں، کافر تو وہ قرار دیئے ہی جاچکے ہیں مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ انہیں جینے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کا بھی حق نہیں ہے۔
راجہ: بٹ صاحب، قادیانی اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے اور اسی طرح کی اور بھی بہت سی پابندیاں ہیں ان پر۔
عاطف: ان پابندیوں میں یہ بات کہاں سے آگئی کہ وہ اپنے مذہب کی کتابیں بھی خرید بیچ نہیں سکتے۔
راجہ: بٹ صاحب، یہ دین کا کام ہے اور آپ اور ہم پر مسلمان ہونے کی وجہ سے فرض ہے۔
عاطف: راجہ صاحب، ہم لوگ تو فرض نمازیں صحیح طرح ادا نہیں کرتے جن کے بارے میں سب سے پہلے پوچھا جانا ہے تو پھر اس طرح کے فریضوں کی ادائیگی کے لئے اتنی بےتابی کیوں؟ اور پتہ نہیں کس قاعدے کے مطابق آپ اس کام کو فرض قرار دے رہے ہیں۔
راجہ: بٹ صاحب، میں نے تو آپ سے مدد لینے کے لئے فون کیا ہے۔
عاطف: راجہ صاحب، میں ایک صحافی ہوں، کوئی مذہبی جنونی نہیں۔ میرا کام معروضی حقائق کو لوگوں کے سامنے پیش کر کے انہیں یہ فیصلہ کرنے دینا ہے کہ درست کیا ہے اور غلط کیا۔ میں نے جتنا عرصہ رپورٹنگ میں گزارا ہے اس میں مجھے میرے نظریات کے خلاف بیٹ بھی ملی تو میں نے اس میں پوری دیانتداری کے ساتھ کام کیا کیونکہ میرے لئے میرا کام اتنا ہی مقدس و محترم ہے، جتنی فرض نماز۔ میں کسی بھی شخص پر ظلم کرنے کے لئے اپنا کندھا فراہم کرنے سے قاصر ہوں، خواہ وہ شخص میرا بدترین دشمن ہی کیوں نہ ہو۔
راجہ: بٹ صاحب، برا نہ منائیے گا مگر ہم صحافیوں کو ساری معروضیت اسی وقت یاد آتی ہے جب بات اسلام اور پاکستان کی ہوتی ہے ورنہ ہم جو چاہیں کرتے پھرتے ہیں۔
عاطف: راجہ صاحب، آپ مجھ سے پوری طرح واقف نہیں ہیں اس لئے آپ نے اس طرح کی بات کردی ہے۔ الحمدللہ میری کئی برسوں کو محیط پیشہ ورانہ زندگی اتنی شفاف ہے کہ کوئی مائی کا لال اس کے ایک لحظے پر بھی انگلی نہیں اٹھاسکتا۔
راجہ: بٹ صاحب، میں نے یہ بات عمومی طور پر کی تھی۔
عاطف: راجہ صاحب، آپ کی عمومی بات کے جواب میں میری یہ خصوصی عرض سن لیجئے کہ میں کسی شخص پر ظلم کرنے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ آپ اس طرح کسی بھی سلسلے میں مدد کے لئے مجھ سے رابطہ نہیں کریں گے۔ فی امان اللہ!
 

عسکری

معطل
ہاں جی اب جینا سانس لینا کتابیں بیچنا خریدنا عبادت کرنا سب توہین آمیز ہو گیا اس ملک مین جہالت اور نفرت کا کوئی اینڈ نہیں ہے ۔
 

سید ذیشان

محفلین
ہمارے معاشرے میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ اگر ہم کسی کام کو صحیح سمجھتے ہیں تو اس کے لئے ہر صحیح غلط راستہ اپنانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
 

عمراعظم

محفلین
عاطف بٹ صاحب ۔ یہ بھی دہشت گردی کی ایک قسم ہے جسے مذہب کا لبادہ دیا گیا ہے۔مقامِ افسوس ہے کہ جو لوگ اکثریت کا ذہن بنانے اور مذہبی علم کی آگاہی دینے پر مامور ہیں ’ان میں سے کچھ غیر ذمہ دارانہ افکار اور تعصب کو فروغ دے رہے ہیں اور جاہل اسے اپنے مذہبی فریضے کا درجہ دیئے ہوئے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
راجہ: بٹ صاحب، یہ دین کا کام ہے اور آپ اور ہم پر مسلمان ہونے کی وجہ سے فرض ہے۔
عاطف: راجہ صاحب، ہم لوگ تو فرض نمازیں صحیح طرح ادا نہیں کرتے جن کے بارے میں سب سے پہلے پوچھا جانا ہے تو پھر اس طرح کے فریضوں کی ادائیگی کے لئے اتنی بےتابی کیوں؟ اور پتہ نہیں کس قاعدے کے مطابق آپ اس کام کو فرض قرار دے رہے ہیں۔
یہ بیتابی اسلئے ہے کہ مذہبی جنونیت کی وجہ سے اسلام کی روح تو بھول گئی ہے لیکن اسکے ذریعہ ناجائز سیاست کا استعمال بھولتا نہیں۔ چونکہ قادیانی باقی مسلمانوں کی طرح پتھر کا جواب اینٹ سے نہیں دیتے، اسلئے انکے خلاف توہین رسالت کے قوانین باقی اقلیتوں کے مقابلہ میں زیادہ استعمال کئے جاتے ہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
عاطف: راجہ صاحب، آپ کی عمومی بات کے جواب میں میری یہ خصوصی عرض سن لیجئے کہ میں کسی شخص پر ظلم کرنے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ آپ اس طرح کسی بھی سلسلے میں مدد کے لئے مجھ سے رابطہ نہیں کریں گے۔ فی امان اللہ!

اسی حوالہ سے چند ایک مزید واقعات پیش ہیں۔
  1. زمانہ طالب علمی میں میرا ایک ”دوست“ احمدی تھا، جس کی کریانہ کی دکان تھی۔ شام میں اکثر میں اُس کے پاس جا بیٹھتا اور گپ شپ کرتا حالانکہ میں تب بھی خاتم النبیین پر مکمل ایمان رکھتا تھا، لیکن احمدیت پر مطالعہ کوئی نہیں تھا۔ ہمارے درمیان اس موضوع پر گفتگو بھی ہوا کرتی تھی لیکن کبھی بات چیت تلخی کی حدود میں داخل نہیں ہوئی۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی ”عار“ نہیں کہ تب میں اس کے سوالات پر اکثر ”لاجواب“ ہوجایا کرتا تھا۔ چنانچہ اُس نے مجھے احمدیت سے متعلق کتابچے دینے شروع کردیئے، جسے میں گھر لے جا کر گھر والوں سے چھُپ کر پڑھا کرتا۔:) ”کنفیوزڈ“ میں تب بھی نہیں ہوا حالانکہ ان کتابچوں میں اُٹھائے گئے سوالات کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوا کرتا۔ ان جوابات کی تلاش تو کوئی خاص نہیں کی البتہ ایک مرتبہ قرآن کی تفسیر کا مطالعہ کرتے ہوئے سورۃ الاحزاب کی آیت ”خاتمۃ النبیین“ پر نظر پڑی تو احمدیت سے متعلق تفصیلی مواد مل گیا۔ چنانچہ وہیں سے اپنی ڈائری میں نوٹس تیار کئے اور اگلی شام دوست کے پاس پہنچ گیا۔ مین نے کہا، ہاں اب سوال جواب ہو جائے۔ تم سوال کرو، میں جواب دوں گا۔ اُس نے پہلے وہی سوالات اٹھائے، جن سے پہلے مجھے لاجواب کرتا رہا تھا۔ اب میں نے اسے لاجواب کرنا شروع کردیا، ڈائری دیکھ دیکھ کر۔ کہنے لگا: یہ ڈائری میں تم کیا لکھ کر لائے ہو اور کہاں سے؟ میں نے کہا یہ تمہارا نہیں میرا مسئلہ ہے۔ اب تم اپنے سارے سوال، اعتراضات کرو۔ ان شاء اللہ میں تمہیں سب کے جوابات دوں گا :) لیکن وہ سمجھ گیا کہ اب مجھے مزید ”الجھانا“ اس کے بس کی بات نہیں،لہٰذا اس نے یہ موضوع ہی بند کردیا۔ اس کے بعد بھی میرا اس کے پاس آنا جانا رہا لیکن وہ جلد ہی ایک پکنک کے دوران حیدرآباد میں کسی نہر میں ڈوب کر فوت ہوگیا۔
  2. لاہور کا ایک مصدقہ واقعہ سننے کو ملا کہ ایک احمدی کسی دور دراز علاقہ سے لاہور میں اپنے مرکز کی طرف جارہا تھا۔ پتہ اس کے پاس تھا، لیکن لاہور میں اجنبی تھا اور کسی سے ”احمدی مرکز“ کاپتہ پوچھتے ہوئے ڈر رہا تھا۔ لیکن کافی تلاش و بسیار کے باوجود جب وہ ناکام رہا تو ڈرتے ڈرتے ایک شخص سے پوچھ ہی بیٹھا۔ اُس نے عمومی انداز میں راستہ کی رہنمائی کی لیکن جب اسے پتہ چلا کہ یہ لاہور میں قطعی اجنبی ہے تو یہ اسے اس کے مرکز کے دروازہ تک چھوڑدیا۔ مرکز میں داخل ہونے سے قبل احمدی نے اُسے ”اپنا“ سمجھتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ بھی ۔ ۔ ۔ ؟ اُس نے فوراً کہا: نہیں بھئی! میرا تعلق تو جماعت اسلامی سے ہے۔ احمدی حیرت سے کہنے لگا کہ لیکن جماعت والے تو ہمارے سخت خلاف ہیں۔ اُس نے کہا وہ تو میں بھی ہوں، لیکن جب میں نے آپ کو یہاں اجنبی جانا تو آپ کو پریشانی سے بچانے کے لئے آپ کو آپ کے مطلوبہ مقام پر پہنچانا میں نے ضروری سمجھا۔
  3. جب اس احقر نے قرآن مجید کے بالترتیب آیات کے مفہوم کی موضوعاتی درجہ بندی پر مبنی ایک منفرد کتاب پیغامِ قرآن تالیف کی تو اپنے دوست احباب کو اس کا نسخہ تحفتاً دینے لگا۔ دفتر میں بھی حتی الامکان اکثر ساتھیوں کو اس کے نسخے دیئے۔ ایک نسخہ ایک ایسے ساتھی کو بھی دیا جو احمدی تھا۔ جب یہ بات اس کے ساتھ کام کرنے والے ساتھی کو معلوم ہوئی تو وہ مجھ پر معترض ہوا اور مجھے ”سمجھانے“ لگا کہ آپ نے اسے پیغامِ قرآن کیوں دیا؟ یہ تو احمدی ہے۔ رفع فساد کی خاطر اُسے تو میں نے کچھ نہیں کہا لیکن دل میں سوچنے لگا کہ اگر ایک فرد دین حق سے بھٹکا ہوا ہے تو کیا میں اُسے دین حق پر مبنی کتاب بھی پیش نہ کروں؟
  4. میرے چھوٹے بھائی کا ایک اسکول کا کلاس فیلو احمدی ہے جو اب بھی اُس کے حلقہ احباب میں شامل ہے۔ بھائی اکثر اُس کے کام آتا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ بقرعید پر یہ مجھ سے قصائی فراہم کرنے کو کہتا ہے، کیا میں اپنا قصائی اس کے پاس بھیج سکتا ہوں۔ میں نے کہا کہ کیوں نہیں۔ ضرور بھیجو۔ جب پیغام قرآن چھپ کر آئی تو پوچھنے لگا کہ ایک نسخہ اسے بھی دوں یا نہیں؟ میں نے کہا کہ ضرور دو۔ یہ کتاب (جس میں عربی متن موجود نہیں ہے) مسلمان اور غیر مسلمان سب کو دی جاسکتی ہے اور غیر مسلموں کو تو ضرور دینی چاہئے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
عاطف بٹ صاحب ۔ یہ بھی دہشت گردی کی ایک قسم ہے جسے مذہب کا لبادہ دیا گیا ہے۔مقامِ افسوس ہے کہ جو لوگ اکثریت کا ذہن بنانے اور مذہبی علم کی آگاہی دینے پر مامور ہیں ’ان میں سے کچھ غیر ذمہ دارانہ افکار اور تعصب کو فروغ دے رہے ہیں اور جاہل اسے اپنے مذہبی فریضے کا درجہ دیئے ہوئے ہیں۔
جی بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ سر۔
 
Top