سعود عثمانی ایک نظم - سعود عثمانی

ہر طرف ڈوبتے سورج کا سماں دیکھیے گا
اک ذرا منظرِ غرقابٔی جاں دیکھیے گا

(عرفان صدیقی )

ریت ، گرم اور نرم ریت ، سفید ، خاکی ، مٹیالی اور ریتلی ریت ۔ ہر نقش قدم کو کچھ دیر محفوظ کرتی اوراس قدم دھرنے والے کو اپنا آپ سونپتی ہوئی ۔

کرنوں کے بدلتے زاویے ، ہرے، آسمانی اور فیروزی ، نقرئی ، سرمئی رنگوں میں بتدریج اور لمحہ بہ لمحہ بدلتا، پر کشش ،پراسرار، پر تجسس اور پرہول سمندر ۔ ہر ایک پر عیاں اور ہر ایک سے نہاں سمندر۔

دھیرے دھیرے سنہرے، پیلے اور زرد رنگوں میں لحظہ بہ لحظہ ڈھلتا اور ڈھالتا،ایک نظر ڈال کر اپنے رنگ میں رنگ ڈالتا سورج ۔ ہر ایک کے پاس ، بالکل پاس ، اور ہر ایک سے دور بہت دور سورج ۔
تھک کر سمندر میں غرقاب ہوتا ہوا سورج ۔ پھر بھی اپنے جاہ و جلال کو اسی طرح مبہوت کن بناتا ہوا جیسے طلوع کے وقت تھا

یہ منظر غرقابئ جاں کا کیوں لگتا ہے ہمیشہ ۔؟

ایک اداسی اس منظر میں سدا کیوں چھپی ہوتی ہے ؟

آنکھیں کیوں ٹمٹما اٹھتی ہیں آب دیدہ دیوں کی طرح ؟

ایک گھمبیر خاموشی سے کیوں بھردیتا ہے یہ منظر ہمیشہ ؟

ایک چپ سی کیوں لگ جاتی ہے بات کرتے ؟

ایک چاپ کیوں پھرنے لگتی ہے رگ و پے میں ؟

کسے خبر ۔ کون جان سکتا ہے

جانتے ہیں تو بس یہ ۔ خبر ہے تو بس اتنی

آج کی شام یہ سورج تو سعود
جسم میں ڈوب رہا ہو جیسے

(سعود عثمانی)
 
Top