ایک نظم۔۔۔ تکمیلِ شکست ۔۔۔۔ نوید صادق

نوید صادق

محفلین
نوید صادق

تکمیلِ شکست

مری نگاہوں پہ آئنہ ہے
وہ ایک منظر
کہ جب ہوا نے
گھنے شجر سے خراج لے کر،
مری برہنہ بدن زمیں کو
بہت سے پتوں سے ڈھک دیا تھا
۔۔۔
مجھے خبر ہی نہیں تھی شائد!
کہ ایک زہرِ زیاں طلب نے،
مرے لہو میں،
نمو کے پہلے ہی مرحلہ میں
ہزار رنگوں کی بے یقینی اُنڈیل دی تھی
وہ ایک خوابِ سفر
کہ جس کی بنا پہ دل نے ہزار قصرِ سکوں اُٹھائے
عقیدتوں کے، عبادتوں کے بھنور میں غرقاب ہو چکا ہے
۔۔۔۔۔
میں زادِ راہِ طلب پہ کس درجہ مطمئن تھا
مجھے خبر ہی نہ ہو سکی اور
مری انا کی شکستگی نے
فسردگی کا وہ روپ دھارا
کہ میرے تلووں کے آبلوں کو
اُجاڑ،بنجر زمیں نے بھی نہ گلے لگایا
۔۔۔۔۔۔۔
سخن سخن اضطراب آسا
وہ میرا ماضی
کسی سخی کی عطا نہیں تھا
وہ رنگ --- رنگِ کلیدِ حیرت
نگارِ شہرِ بقا نہیں تھا
کہ میں بھٹکنے سے باز رہتا
مجھے کسی کی نگاہِ خوش کُن کا آسرا تھا
مری شبوں کو وہ ایک پیکر اُجالتا تھا
کہ جس کے لمسِ گراں بہا سے
مجھے محبت کی رفعتوں پر یقیں ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔
مگر وہ آنکھیں،
سیاہ آنکھیں،
مرے بدن کی طلب کے حیطے میں ہی نہ آئیں
مری نگاہیں یقیں کی انتھک مسافتوں میں
بھٹک گئیں تو۔۔۔۔۔۔
سرابِ تعبیرِ خوابِ ممکن،
تلازموں کے نئے جنم میں
مری شکستِ انا کو،
محروم جسم و جاں کو
نئے سلیقے، انوکھی جدّت سے
ایک لَے میں اُجالنے کو
مرے مناظر میں خیمہ زن تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
میں دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپے
درونِ خانہ ،
یوں زینہ زینہ اُترتا آیا
کہ جیسے طفلِ جہاں گزیدہ
نئے سفر کی صعوبتوں کے مقابل آنے سے ڈر رہا ہو
بکھر رہا ہو
۔۔۔۔۔۔۔
مری نگاہوں پہ آئنہ ہے
وہ ایک منظر
کہ جب شکستہ بدن شجر نے
مری برہنہ بدن زمیں کو
بہت سے پتوں سے ڈھک دیا تھا!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(نوید صادق)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ! ایک اور خوبصورت نظم۔ نوید بھائی، بہت ہی عمدہ نظم ہے یہ بھی، بہت داد قبول کریں۔ مجھے آپ میں ایک نیا ن، م راشد نظر آ رہا ہے۔ :) اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
 

مغزل

محفلین
اپنی کیفیات ، بہاؤ ، وحدِت تاثر اور موضوعاتی دائروں کی بنا پرمکمل یک نشتی نظم، جواپنے بیان میں کسی جہانِ گم کردہ سے ، غنائی آہنگ کے رتھ پر سوار داخلی کیفیات و خارجی محسوسات کوتجسیم کرتے ہوئے تکمیلیاتی دائرے بناتی نظر آتی ہے ، زبان نہایت اعلیٰ ،نئی لفظی تراکیب ( ایک ترکیب غیر مانوس سی لگی کہ ’’اضطراب‘‘ (ع) کو ’’آسا‘‘ (ہ) کا پیوند لگا یا گیا ) کی صناعی میں غزل کا مزاج ( واضح رہے کہ ن میم راشد، غزل کی صناعی کو نہ تشکیل کر پائے اور نہ تسخیر ) جب کہ مذکورہ نظم میں‌یہ آہنگ موجود ہے جو ’’ موجودہ تخلیق کے‘‘ بارے میں کم از کم یہ باآسانی باور کراتی ہے کہ ’’ دوسرا ن م راشد ‘‘ کم از کم ’’ پہلے ن م راشد ‘‘ کی بہ نسبت نظم کی ہیت میں غزل کی صناعی کا حامل ہے اور ممتاز بھی ہے ، لیکن ’ پہلے ن م راشد ‘‘ کی طرح‌بے جان صنف میں کسی بڑی نفسیاتی بحث سے محروم ہو کر بھی نہیں ۔ نظم کی ساختیات پر ’’ عش ‘‘ کے محل کھڑے سے پیشتر ہمیں‌یہ جائزہ لینا پڑے گا کہ آیا نظم کی روح‌ کہیں‌تہہ خانے کی کوٹھری میں مقفل تو نہیں کردی گئی ،کہ محض ندرتِ‌کلام ، مثنوی کی سی سبک خرامی اورشخصی اعتبارپر ہی داد صادنہیں کر سکتے کہ نفسِ مضمون تخلیقِ‌اعلی ٰ سے عام حسی تجربے پر بنیاد کرتا نظر آتا ہے ۔ علامتی طور پر ہم اس سے نئے دائرے بناتے ہوئے داخلی تفکر پر مبنی پیرایہ اظہار کہہ سکتے ، نظم کی خاصیت مختصر طوالت پر منتج ہے جبکہ مضمون بھی شاہکار قدرتِ کلام کا منھ بولتا ثبوت ہے اور اپنا تکمیلی دائرہ مکمل کرتی ہے ، خاص طور پر ’چہرہ ‘‘ کی تکرار نے اسے مکمل ہوتے ہوئے ’’نا تکمیلیت ‘‘ کا حسن بخشا ہے ،۔اس احسن کلام اور اس کے پیش کرنے پر مجھ ایسے جاہل کی جانب سے ہدیہ ِ تحسین و مبارکباد ۔ گر قبول افتد زہے عزوشرف ۔۔۔والسلام
 

مغزل

محفلین
شکریہ محمود بھائی ، تبصرہ دادخواہی کے لیے نہیں ، مکالمہ کی بنیاد رکھتے ہوئے کیا ہے ، تاکہ اختلافی پہلو سامنے آئیں اور ایک مثبت رجحان پیدا ہوسکے۔آپ کی رائے کے لیے متشکر ہوں۔والسلام
 

مغزل

محفلین
دیگر صاحبان کی رائے موصول نہیں ہوئ ، ماسوائے تشکر آمیز ناب کے تکلف کے ۔۔ ؟؟ (‌ایں چہ معنی دارد)
 
Top