ایک مُسکراتی ہوئی غزل،'' بات بھی چلتی رہی'' تبصرہ، تنقید اور اصلاح کی غرض سے

بات بھی چلتی رہی، اور رابطہ ہوتا رہا
پیار تھا، بولے نہیں ، بس تجربہ ہوتا رہا
اسکی اُسکی چاہتوں پر تبصرے دن بھر کئے
یار اپنی بھی تو سوچو، مسخرہ ہوتا رہا
سوچتے تھے روز کچھ تو گفتگو آگے بڑھے
خاک ڈالو کیا محبت، فلسفہ ہوتا رہا
فیض کی غالب کی جیسے شاعری دیوار ہو
پیار کی باتیں نہیں بس تجزیہ ہوتا رہا
کیوں وہاں اُسکی طرف ہر بات لے جاتی رہی
بے وجہ بھی گفتگو میں تزکرہ ہوتا رہا
دل محبت سے بھرا تھا، بات بنتی ہی رہی
رنجشیں آئیں بہت پر تصفیہ ہوتا رہا
لوگ پاگل ہی سمجھتے تھے، سمجھتے ہی رہے
تجھ پہ اظہر جب بھی اُن کا تبصرہ ہوتا رہا
 

الف عین

لائبریرین
یہ شعر سمجھ میں نہین آیا۔
اسکی اُسکی چاہتوں پر تبصرے دن بھر کئے
یار اپنی بھی تو سوچو، مسخرہ ہوتا رہا
اور یہ ’وجہ‘ ہر جگہ بلا وجہ گھس جا رہی ہے آج کل اصلاح سخن میں!!
 
یہ شعر سمجھ میں نہین آیا۔
اسکی اُسکی چاہتوں پر تبصرے دن بھر کئے
یار اپنی بھی تو سوچو، مسخرہ ہوتا رہا
اور یہ ’وجہ‘ ہر جگہ بلا وجہ گھس جا رہی ہے آج کل اصلاح سخن میں!!
اُستاد محترم گویا اپنی محبت کے بارے میں سوچنے کی جگہ دوسروں کی محبتوں پر تبصرہ کرتے رہے، وجہ کو بالوجوہ تبدیل کیے دیتا ہوں جناب
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین

الف عین

لائبریرین
بات بھی چلتی رہی، اور رابطہ ہوتا رہا
پیار تھا، بولے نہیں ، بس تجربہ ہوتا رہا
//’بولے نہیں‘ سے کیا مراد ہے؟ اس سے شعر مبہم ہو رہا ہے۔

اسکی اُسکی چاہتوں پر تبصرے دن بھر کئے
یار اپنی بھی تو سوچو، مسخرہ ہوتا رہا
//شعر بے معنی محسوس ہوتا ہے۔

سوچتے تھے روز کچھ تو گفتگو آگے بڑھے
خاک ڈالو کیا محبت، فلسفہ ہوتا رہا

فیض کی غالب کی جیسے شاعری دیوار ہو
پیار کی باتیں نہیں بس تجزیہ ہوتا رہا
//دوسرے مصرع کا پہلے سے تعلق؟

کیوں وہاں اُسکی طرف ہر بات لے جاتی رہی
بے وجہ بھی گفتگو میں تزکرہ ہوتا رہا
//وجہ کا تلفظ غلط باندھا ہے، اس کو سبب کر دو، باقی شعر درست۔

دل محبت سے بھرا تھا، بات بنتی ہی رہی
رنجشیں آئیں بہت پر تصفیہ ہوتا رہا
//درست

لوگ پاگل ہی سمجھتے تھے، سمجھتے ہی رہے
تجھ پہ اظہر جب بھی اُن کا تبصرہ ہوتا رہا
//درست
 
بات بھی چلتی رہی، اور رابطہ ہوتا رہا
پیار تھا، بولے نہیں ، بس تجربہ ہوتا رہا
//’بولے نہیں‘ سے کیا مراد ہے؟ اس سے شعر مبہم ہو رہا ہے۔

جی تبدیل کیے دیتا ہوں
بات بھی چلتی رہی، اور رابطہ ہوتا رہا
پیار کی باتوں میں لیکن مسئلہ ہوتا رہا
اسکی اُسکی چاہتوں پر تبصرے دن بھر کئے
یار اپنی بھی تو سوچو، مسخرہ ہوتا رہا
//شعر بے معنی محسوس ہوتا ہے۔

جی تبدیل کیے دیتا ہوں
اسکی اُسکی چاہتوں میں دم نہیں ہے، یا کہ ہے؟
پیت اپنی بھاڑ میں یہ تجزیہ ہوتا رہا
سوچتے تھے روز کچھ تو گفتگو آگے بڑھے
خاک ڈالو کیا محبت، فلسفہ ہوتا رہا

فیض کی غالب کی جیسے شاعری دیوار ہو
پیار کی باتیں نہیں بس تجزیہ ہوتا رہا
//دوسرے مصرع کا پہلے سے تعلق؟

جی اس طرح دیکیے تو جناب
فیض کی غالب کی جیسے شاعری دیوار ہو
روز وہ معشوق پڑھتی جائزہ ہوتا رہا
کیوں وہاں اُسکی طرف ہر بات لے جاتی رہی
بے وجہ بھی گفتگو میں تزکرہ ہوتا رہا
//وجہ کا تلفظ غلط باندھا ہے، اس کو سبب کر دو، باقی شعر درست۔

جی بہت بہتر ہے
کیوں وہاں اُسکی طرف ہر بات لے جاتی رہی
بے سبب بھی گفتگو میں تزکرہ ہوتا رہا
دل محبت سے بھرا تھا، بات بنتی ہی رہی
رنجشیں آئیں بہت پر تصفیہ ہوتا رہا
//درست

لوگ پاگل ہی سمجھتے تھے، سمجھتے ہی رہے
تجھ پہ اظہر جب بھی اُن کا تبصرہ ہوتا رہا
//درست

گویا اب صورتحال کچھ یوں بنی

بات بھی چلتی رہی، اور رابطہ ہوتا رہا
پیار کی باتوں میں لیکن مسئلہ ہوتا رہا
اسکی اُسکی چاہتوں میں دم نہیں ہے، یا کہ ہے؟
پیت اپنی بھاڑ میں یہ تجزیہ ہوتا رہا
سوچتے تھے روز کچھ تو گفتگو آگے بڑھے
خاک ڈالو کیا محبت، فلسفہ ہوتا رہا
فیض کی غالب کی جیسے شاعری دیوار ہو
روز وہ معشوق پڑھتی جائزہ ہوتا رہا
کیوں وہاں اُسکی طرف ہر بات لے جاتی رہی
بے سبب بھی گفتگو میں تزکرہ ہوتا رہا
دل محبت سے بھرا تھا، بات بنتی ہی رہی
رنجشیں آئیں بہت پر تصفیہ ہوتا رہا
لوگ پاگل ہی سمجھتے تھے، سمجھتے ہی رہے
تجھ پہ اظہر جب بھی اُن کا تبصرہ ہوتا رہا
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
گویا اب صورتحال کچھ یوں بنی
اسکی اُسکی چاہتوں میں دم نہیں ہے، یا کہ ہے؟
پیت اپنی بھاڑ میں یہ تجزیہ ہوتا رہا
÷÷بھاڑ میں؟؟ ایک مرتبہ ہم نے ایک شاعرہ کا کلام پڑھا اور وہ ہمیں اچھا لگا۔ ہم نے اسی وزن میں پوری غزل کہہ دی۔ اس میں ایک مصرع تھا جس میں ایک محاورہ استعمال ہوا تھا ’’ایسی تیسی کرنا‘‘ میرے ایک بزرگ دوست ہیں جو جدہ سے مجھے کال کرکے اشعار کی داد بھی دیتے اور اصلاح بھی فرماتے ہیں۔ کہنے لگے : آپ کسی بھی شاعر کا کلام اٹھا کر اس پر شاعری شروع کردیتے ہیں۔ ایسا مت کیجئے۔ آدمی کا کوئی معیار ہونا چاہئے۔ (یہ ان کے الفاظ من و عن نہیں ہیں، وہ بڑی شائستگی اور پیار سے بات کرنے کے عادی ہیں)، مذکورہ مصرع کا حوالہ دے کر فرمانے لگے: ہمارے علاقے میں اس کو گٹر لینگویج کہتے ہیں۔ یہ غزل کی زبان نہیں ہے۔ اس سے بچئے۔ سو یہی نصیحت میں آپ کو بھی کر رہا ہوں کہ زبان شائستہ ہونی چاہئے۔ کچھ اور لکھئے۔۔​
اس کی اس کی چاہتوں میں دم نہیں ہے یا کہ ہے۔۔۔ سوچتے ہی رہ گئے اور تجزیہ ہوتا رہا۔۔۔ کیا یہ بہترہے؟؟
سوچتے تھے روز کچھ تو گفتگو آگے بڑھے
خاک ڈالو کیا محبت، فلسفہ ہوتا رہا
÷÷ دوسرا مصرع پہلے سے ملتا نہیں ہے۔ پھر وہ ہمیں اسی غزل کی زبان کے حوالے سے اچھا نہیں لگا۔پہلا مصرع بہترہے۔ اس سے ملتا جلتا کچھ لکھئے:​
سوچتے تھے روزکچھ تو گفتگو آگے بڑھے​
گفتگو آگے نہ بڑھ پائی، گلہ ہوتا رہا​
فیض کی غالب کی جیسے شاعری دیوار ہو
روز وہ معشوق پڑھتی جائزہ ہوتا رہا
÷÷÷ اس کی نثر کیجئے۔ فیض اور غالب کی شاعری جیسے ایک دیوار کی طرح ہو۔ وہ معشوق روز پڑھتی اور جائزہ جاری رہا۔ان دو باتوں کا آپس میں تعلق ہمیں محسوس نہیں ہوا۔ پھر ایک مصرع جوڑنے کی کوشش ہے:​
فیض کی غالب کی جیسے شاعری دیوار ہو​
شاعری میری تھی، ان کا تذکرہ ہوتا رہا​
کیوں وہاں اُسکی طرف ہر بات لے جاتی رہی
بے سبب بھی گفتگو میں تزکرہ ہوتا رہا
÷÷÷ پہلے مصرعے پر غور فرمائیے۔ہر بات وہاں لے جاتی تھی یا اس کی طرف؟ کسی ایک طرف کی بات کرنا بہتر ہوگا۔اور دوسرے مصرعے میں سبب کے بعد بھی بدلنا پڑے گا۔ تو یہ اس طرح کرلیجئے:
کیوں ہمیں اس کی طرف ہر بات لے جاتی رہی​
بے سبب کیوں گفتگو میں تذکرہ ہوتا رہا​
دل محبت سے بھرا تھا، بات بنتی ہی رہی
رنجشیں آئیں بہت پر تصفیہ ہوتا رہا
÷÷دوسرے مصرعے میں پر کی جگہ اور لکھیں تو بہتر ہے لیکن ضروری نہیں۔
لوگ پاگل ہی سمجھتے تھے، سمجھتے ہی رہے
تجھ پہ اظہر جب بھی اُن کا تبصرہ ہوتا رہا
÷÷دوسرا مصرع قابل غور ہے۔ عموما اس طرح بات نہیں کی جاتی شاید۔ نثر کرکے دیکھتے ہیں تاکہ میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ آپ پر واضح ہو:
ہم پر جب بھی ان کا تبصرہ ہوتاتھا،لوگ ہمیں پاگل سمجھتے تھے اور سمجھتے رہے۔ یعنی یہاں ہوتا رہا کی بجائے ہوتا تھا کا مقام ہے۔​
لوگ پاگل ہی سمجھتے تھے، سمجھتے ہی رہے​
تجھ پہ اظہر ان سے جب بھی تبصرہ ہوتا رہا​
اب یہ صورت بہتر ہے کہ نہیں، اس پر میں کوئی رائے دینے سے قاصر ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ شعر میں نے لکھا ہے۔اس پر تبصرہ آپ خود کرلیجئے۔​
 
Top