ایک غزل تنقید و تبصرہ کیلئے،'' کیا نظارا تھا، مجسم تھی حیا، دیکھ آیا''

کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا
اُس کی نظروں کو کُچھ ایسے میں جھُکا دیکھ آیا

دوست احباب بھی حیراں ہیں مری حالت پر
باولا بول کے کہتے ہیں تُو کیا دیکھ آیا

تُم حسینوں سے کہوں گا اُسے دیکھا کرنا
کیا بتاؤں تُمہیں اب میں جو ادا دیکھ آیا

خیر خواہی نہیں دیکھی تھی کبھی دُنیا میں
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا

ہوش بھی گُم ہوئے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں
اک نظر میں ہی خدا جانے میں کیا دیکھ آیا

زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں
پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا

گنگ رہتا تھا، ملاقات ہوئی تھی اظہر
کیا تھا اُس بت میں خدا جانے، جدا دیکھ آیا
 

الف عین

لائبریرین
کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا
اُس کی نظروں کو کُچھ ایسے میں جھُکا دیکھ آیا
۔۔درست

دوست احباب بھی حیراں ہیں مری حالت پر
باولا بول کے کہتے ہیں تُو کیا دیکھ آیا
÷÷’باولا بول کے‘ کا بیانیہ پسند نہیں آیا۔ الفاظ بدل دو

تُم حسینوں سے کہوں گا اُسے دیکھا کرنا
کیا بتاؤں تُمہیں اب میں جو ادا دیکھ آیا
۔۔واضح بیانیہ نہیں۔ دو لخت محسوس ہو رہا ہے۔

خیر خواہی نہیں دیکھی تھی کبھی دُنیا میں
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا
÷÷خوب، اچھا شعر ہے

ہوش بھی گُم ہوئے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں
اک نظر میں ہی خدا جانے میں کیا دیکھ آیا
÷÷درست

زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں
پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا
۔۔درست،

گنگ رہتا تھا، ملاقات ہوئی تھی اظہر
کیا تھا اُس بت میں خدا جانے، جدا دیکھ آیا
÷÷دوسرا مصرع اچھا ہے لیکن پہلا؟ شاید یہ کہنا چاہتے تھے کہ جب سے ملاقات ہوئی، میں گنگ رہنے لگا تھا
مگر یہ واضح نہیں ہوتا
 
کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا
اُس کی نظروں کو کُچھ ایسے میں جھُکا دیکھ آیا
۔۔درست

دوست احباب بھی حیراں ہیں مری حالت پر
باولا بول کے کہتے ہیں تُو کیا دیکھ آیا
÷÷’باولا بول کے‘ کا بیانیہ پسند نہیں آیا۔ الفاظ بدل دو

تُم حسینوں سے کہوں گا اُسے دیکھا کرنا
کیا بتاؤں تُمہیں اب میں جو ادا دیکھ آیا
۔۔واضح بیانیہ نہیں۔ دو لخت محسوس ہو رہا ہے۔

خیر خواہی نہیں دیکھی تھی کبھی دُنیا میں
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا
÷÷خوب، اچھا شعر ہے

ہوش بھی گُم ہوئے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں
اک نظر میں ہی خدا جانے میں کیا دیکھ آیا
÷÷درست

زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں
پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا
۔۔درست،

گنگ رہتا تھا، ملاقات ہوئی تھی اظہر
کیا تھا اُس بت میں خدا جانے، جدا دیکھ آیا
÷÷دوسرا مصرع اچھا ہے لیکن پہلا؟ شاید یہ کہنا چاہتے تھے کہ جب سے ملاقات ہوئی، میں گنگ رہنے لگا تھا
مگر یہ واضح نہیں ہوتا
اُستاد محترم کچھ تبدیلیاں آپ کے ارشادات کی روشنی میں


کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا
اُس کی نظروں کو کُچھ ایسے میں جھُکا دیکھ آیا

دوست احباب پریشاں ہیں مری حالت پر
پوچھتے ہیں کہ بتا ایسا تُو کیا دیکھ آیا


تُم حسینوں کے بھی انداز نرالے ہوں گے
کیا بتاؤں تُمہیں اب میں جو ادا دیکھ آیا

خیر خواہی نہیں دیکھی تھی کبھی دُنیا میں
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا

ہوش بھی گُم ہوئے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں
اک نظر میں ہی خدا جانے میں کیا دیکھ آیا

زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں
پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا

تھی ملاقات حسینوں سے بہت سی اظہر
کیا تھا اُس بت میں خدا جانے، جدا دیکھ آیا
 

الف عین

لائبریرین
مقطع کو پھر دیکھو۔ ’سی‘ گڑبڑ کر رہی ہے۔اور ردیف بھی مکمل درست نہیں بیٹھ رہی ہے۔
پہلا مصرع یوں ہو تو
یوں تو کتنے ہی حسینوں سے ملے تھے اظہر
 
مقطع کو پھر دیکھو۔ ’سی‘ گڑبڑ کر رہی ہے۔اور ردیف بھی مکمل درست نہیں بیٹھ رہی ہے۔
پہلا مصرع یوں ہو تو
یوں تو کتنے ہی حسینوں سے ملے تھے اظہر
اور یوں کہوں جناب تو


کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا
اُس کی نظروں کو کُچھ ایسے میں جھُکا دیکھ آیا

دوست احباب پریشاں ہیں مری حالت پر
پوچھتے ہیں کہ بتا ایسا تُو کیا دیکھ آیا

تُم حسینوں کے بھی انداز نرالے ہوں گے
کیا بتاؤں تُمہیں اب میں جو ادا دیکھ آیا

خیر خواہی نہیں دیکھی تھی کبھی دُنیا میں
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا

ہوش بھی گُم ہوئے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں
اک نظر میں ہی خدا جانے میں کیا دیکھ آیا

زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں
پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا

ایک سے ایک حسیں بڑھ کے تھا اظہر لیکن
کیا تھا اُس بت میں خدا جانے، جدا دیکھ آیا​
 
محاورہ ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ اس لئے یہ مصرع بھی رواں اور چست نہیں۔
بہت بہتر جناب آپ کا مصرع زیادہ مناسب ہے

کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا
اُس کی نظروں کو کُچھ ایسے میں جھُکا دیکھ آیا

دوست احباب پریشاں ہیں مری حالت پر
پوچھتے ہیں کہ بتا ایسا تُو کیا دیکھ آیا

تُم حسینوں کے بھی انداز نرالے ہوں گے
کیا بتاؤں تُمہیں اب میں جو ادا دیکھ آیا

خیر خواہی نہیں دیکھی تھی کبھی دُنیا میں
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا

ہوش بھی گُم ہوئے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں
اک نظر میں ہی خدا جانے میں کیا دیکھ آیا

زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں
پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا

یوں تو کتنے ہی حسینوں سے ملے تھے اظہر
کیا تھا اُس بت میں خدا جانے، جدا دیکھ آیا​
 
Top