ایک غزل برائے تنقید، اصلاح، تبصرہ، زخم دل ہے، دکھا، کروں بھی تو کیا؟

زخم دل ہے، دکھا، کروں بھی تو کیا؟
حال اپنا سُنا، کروں بھی تو کیا؟
پاس ہوتے ہوئے بھی دور ہے وہ
اب اُسے میں جدا کروں بھی تو کیا؟
کچھ بھی کر لوں، اُسے نہیں بھاتا
میرے مالک، خدا، کروں بھی تو کیا؟
دل مجھے کھینچتا ہی لے جائے
ایسی ایسی ادا، کروں بھی تو کیا؟
اُس سے ہے ابتدا بھی آخر بھی
اور اُس کے سوا، کروں بھی تو کیا؟
پیار تھا ابتدا میں بس اظہر
عشق ہے انتہا، کروں بھی تو کیا
 

الف عین

لائبریرین
یہیں مشورہ دے دوں، باقی اشعار تو درست ہیں۔ لیکن مطلع کے دوسرے مصرع اور آکری شعر میں ردیف بے معنی لگتی ہے۔بلکہ مقطع یوں بھی مفہوم طلب ہے۔ اس کے علاوہ
دل مجھے کھینچتا ہی لے جائے​
ایسی ایسی ادا، کروں بھی تو کیا؟​
÷÷ دونوں مصرعوں میں تفہیم مکمل نہیں ہو رہی ہے۔ اس کو یوں کر دیں تو۔​
کھینچ لے جائے اس کی بزم میں دل​
یا​
دل تو کھنچتا ہی جائے اس کی طرف​
اُس سے ہے ابتدا بھی آخر بھی​
اور اُس کے سوا، کروں بھی تو کیا؟​
÷÷اس کو یوں کر دو تو واضح بیان ہو جائے۔
ابتدا بھی اسی سے، آخر بھی
 
اُس کی محفل میں جا ،کروں بھی تو کیا؟
زخم کھُل جائے گا، کروں بھی تو کیا؟
پاس ہوتے ہوئے بھی دور ہے وہ
اب اُسے میں جدا کروں بھی تو کیا؟
کچھ بھی کر لوں، اُسے نہیں بھاتا
میرے مالک، خدا، کروں بھی تو کیا؟
کھینچ لے جائے اُس کی بزم میں دل
ایسی ایسی ادا، کروں بھی تو کیا؟
ابتدا بھی اُسی سے آخر بھی
اور اُس کے سوا، کروں بھی تو کیا؟
اُس کی حالت بہت بُری مجھ سے
حال اپنا سُنا ،کروں بھی تو کیا؟
میں تو خود کا نہ بن سکا اظہر
اُس کو اپنا بنا ، کروں بھی تو کیا؟
 
تینوں نئے اشعار پسند نہیں آئے۔ ردیف کے سلسلے میں ایک پوسٹ الگ سے کرتا ہوں
یوں دیکھ لیجیے اُستاد محترم

عشق، تیرے سوا کروں بھی تو کیا؟
چل، مجھے آزما، کروں بھی تو کیا؟
کون سا بس میں ہے علاج اُسکے؟
زخم دل کے دکھا، کروں بھی تو کیا؟
پاس ہوتے ہوئے بھی دور ہے وہ
اب اُسے میں جدا کروں بھی تو کیا؟
کچھ بھی کر لوں، اُسے نہیں بھاتا
میرے مالک، خدا، کروں بھی تو کیا؟
کھینچ لے جائے اُس کی بزم میں دل
ایسی ایسی ادا، کروں بھی تو کیا؟
ابتدا بھی اُسی سے آخر بھی
اور اُس کے سوا، کروں بھی تو کیا؟
وہ مکر جاٗے نہ کہیں اظہر
اُس کو اپنا بتا ، کروں بھی تو کیا؟
 
بلکہ اگر یوں ہو جائے تو اُستاد محترم، دو مطلع ہیں آپ دیکھیے کہ کون سا بہتر رہو گا؟

عشق، تیرے سوا کروں بھی تو کیا؟
چل، مجھے آزما، کروں بھی تو کیا؟
یا
ذخم دل ہے، دکھا، کروں بھی تو کیا؟
کون بھر جاٗے گا، کروں بھی تو کیا؟(کون سے مراد کونسا)
کوٗی صورت نہیں منانے کی
اسقدر ہے خفا، کروں بھی تو کیا؟
کون سا بس میں ہے علاج اُسکے؟
زخم دل کے دکھا، کروں بھی تو کیا؟
پاس ہوتے ہوئے بھی دور ہے وہ
اب اُسے میں جدا کروں بھی تو کیا؟
کچھ بھی کر لوں، اُسے نہیں بھاتا
میرے مالک، خدا، کروں بھی تو کیا؟
کھینچ لے جائے اُس کی بزم میں دل
ایسی ایسی ادا، کروں بھی تو کیا؟
ابتدا بھی اُسی سے آخر بھی
اور اُس کے سوا، کروں بھی تو کیا؟
وہ مکر جاٗے نہ کہیں اظہر
اُس کو اپنا بتا ، کروں بھی تو کیا؟
 

الف عین

لائبریرین
عزیزم، کروں بھی تو کیا میں اپنے بارے میں شاعر کہہ رہا ہے۔ اس میں محبوب سے خطاب ہو یا کسی اعر سے بھی ہو، یعنی واحد حاضر، بطور امر، رو ردیف سے مطابقت تو ممکن نہیں نا!!! ان سبھی اشعار میں کچھ ایسی ہی بات ہے۔ ویسے یہ تو ممکن ہے کہ ایک بار محض کسی ایسی حالت کا ذکر ہو اور پھر یہ کہا جائے کہ ان حالات میں کروں بھی تو کیا۔ لیکن ایسا قرینہ ہونا چاہئے کہ یہ لگے کہ ایسے حالات ہیں۔ جیسے
’۔۔۔دل دکھا، کروں بھی تو کیا‘ تو درست ہے، لیکن کون بھر جائے گا، یا زخم دکھا بے محل ہوں گے
 
اُستاد محترم اگر مطلع کے بغیر یوں کہوں تو

اور تو کچھ مجھے نہیں آتا
عشق، تیرے سوا کروں بھی تو کیا؟
تُو نے بہتوں کو آزمایا ہے
چل، مجھے آزما، کروں بھی تو کیا؟
زخم دل کا دکھا دیا اُس کو
کون بھر جاٗے گا، کروں بھی تو کیا؟
کوٗی صورت نہیں منانے کی
اسقدر ہے خفا، کروں بھی تو کیا؟
پاس ہوتے ہوئے بھی دور ہے وہ
اب اُسے میں جدا کروں بھی تو کیا؟
کچھ بھی کر لوں، اُسے نہیں بھاتا
میرے مالک، خدا، کروں بھی تو کیا؟
کھینچ لے جائے اُس کی بزم میں دل
ایسی ایسی ادا، کروں بھی تو کیا؟
ابتدا بھی اُسی سے آخر بھی
اور اُس کے سوا، کروں بھی تو کیا؟
وہ مکر جاٗے نہ کہیں اظہر
اُس کو اپنا بتا ، کروں بھی تو کیا؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مطلع کہنا کیا مشکل ہے؟؟
حسن کے وار کا کروں بھی تو کیا
عشق تیرے سوا کروں بھی تو کیا
۔۔۔
دل ہوا ہے ترا کروں بھی تو کیا
عشق تیرے سوا کروں بھی تو کیا
۔۔۔۔۔
یہ دو پسند نہ آئیں تو اور بھی دس لکھ کر دے سکتا ہوں۔۔۔ آپ کا قافیہ ہی اتنا آسان ہے۔۔۔
 
مطلع کہنا کیا مشکل ہے؟؟
حسن کے وار کا کروں بھی تو کیا
عشق تیرے سوا کروں بھی تو کیا
۔۔۔
دل ہوا ہے ترا کروں بھی تو کیا
عشق تیرے سوا کروں بھی تو کیا
۔۔۔ ۔۔
یہ دو پسند نہ آئیں تو اور بھی دس لکھ کر دے سکتا ہوں۔۔۔ آپ کا قافیہ ہی اتنا آسان ہے۔۔۔

یوں کیسا رہو گا؟ اور باقی اشعار پر بھی کچھ رائے دیجیے

اور کچھ جانتا، کروں بھی تو کیا؟
یا
کاش کچھ جانتا، کروں بھی تو کیا
عشق، تیرے سوا کروں بھی تو کیا؟
تُو نے بہتوں کو آزمایا ہے
چل، مجھے آزما، کروں بھی تو کیا؟
زخم دل کا دکھا دیا اُس کو
کون بھر جاٗے گا، کروں بھی تو کیا؟
کوٗی صورت نہیں منانے کی
اسقدر ہے خفا، کروں بھی تو کیا؟
پاس ہوتے ہوئے بھی دور ہے وہ
اب اُسے میں جدا کروں بھی تو کیا؟
کچھ بھی کر لوں، اُسے نہیں بھاتا
میرے مالک، خدا، کروں بھی تو کیا؟
کھینچ لے جائے اُس کی بزم میں دل
ایسی ایسی ادا، کروں بھی تو کیا؟
ابتدا بھی اُسی سے آخر بھی
اور اُس کے سوا، کروں بھی تو کیا؟
وہ مکر جاٗے نہ کہیں اظہر
اُس کو اپنا بتا ، کروں بھی تو کیا؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کاش کچھ جانتا، کروں بھی تو کیا
عشق، تیرے سوا کروں بھی تو کیا؟
÷÷درست
تُو نے بہتوں کو آزمایا ہے
چل، مجھے آزما، کروں بھی تو کیا؟
÷÷÷یہاں دوسرا مصرع قابل غور ہے۔۔۔جب وہ آزمائے گا تو کرنا کیا ہے آزمانے کےلیے، یہ سوال شاید اس پر عائد ہوتا ہے، آپ پر نہیں۔۔۔ امر کے الفاظ یہاں سوچ سمجھ کر استعمال ہوں گے۔۔۔
زخم دل کا دکھا دیا اُس کو
کون بھر جاٗے گا، کروں بھی تو کیا؟
۔۔۔۔
÷÷اس کا دوسرا مصرع بھی درست نہیں۔۔۔ کون بھر جائے گا اور کروں بھی تو کیا کے مابین تطابق مفقود لگتا ہے
کوٗی صورت نہیں منانے کی
اسقدر ہے خفا، کروں بھی تو کیا؟
÷÷ٹھیک ہے۔۔
پاس ہوتے ہوئے بھی دور ہے وہ
اب اُسے میں جدا کروں بھی تو کیا؟
÷÷ٹھیک ہے۔۔
کچھ بھی کر لوں، اُسے نہیں بھاتا
میرے مالک، خدا، کروں بھی تو کیا؟
÷دوسرے مصرع کمزور لگ رہا ہے۔۔
کھینچ لے جائے اُس کی بزم میں دل
ایسی ایسی ادا، کروں بھی تو کیا؟
÷÷÷ ادا کا تعلق آپ سے ہے، اس کا شک ہوتا ہے
ابتدا بھی اُسی سے آخر بھی
اور اُس کے سوا، کروں بھی تو کیا؟
÷÷ٹھیک ہے۔۔
وہ مکر جاٗے نہ کہیں اظہر
اُس کو اپنا بتا ، کروں بھی تو کیا؟
÷÷بتا کر کروں زیادہ فصیح ہے لیکن یہ آ نہیں سکتا۔۔۔ اس سے بہترکچھ اور سوچئے۔۔۔
یہ پھر میری رائے ہے ۔۔۔ استاد کی نہیں۔۔
 
کاش کچھ جانتا، کروں بھی تو کیا
عشق، تیرے سوا کروں بھی تو کیا؟
÷÷درست
تُو نے بہتوں کو آزمایا ہے
چل، مجھے آزما، کروں بھی تو کیا؟
÷÷÷یہاں دوسرا مصرع قابل غور ہے۔۔۔ جب وہ آزمائے گا تو کرنا کیا ہے آزمانے کےلیے، یہ سوال شاید اس پر عائد ہوتا ہے، آپ پر نہیں۔۔۔ امر کے الفاظ یہاں سوچ سمجھ کر استعمال ہوں گے۔۔۔
زخم دل کا دکھا دیا اُس کو
کون بھر جاٗے گا، کروں بھی تو کیا؟
۔۔۔ ۔
÷÷اس کا دوسرا مصرع بھی درست نہیں۔۔۔ کون بھر جائے گا اور کروں بھی تو کیا کے مابین تطابق مفقود لگتا ہے
کوٗی صورت نہیں منانے کی
اسقدر ہے خفا، کروں بھی تو کیا؟
÷÷ٹھیک ہے۔۔
پاس ہوتے ہوئے بھی دور ہے وہ
اب اُسے میں جدا کروں بھی تو کیا؟
÷÷ٹھیک ہے۔۔
کچھ بھی کر لوں، اُسے نہیں بھاتا
میرے مالک، خدا، کروں بھی تو کیا؟
÷دوسرے مصرع کمزور لگ رہا ہے۔۔
کھینچ لے جائے اُس کی بزم میں دل
ایسی ایسی ادا، کروں بھی تو کیا؟
÷÷÷ ادا کا تعلق آپ سے ہے، اس کا شک ہوتا ہے
ابتدا بھی اُسی سے آخر بھی
اور اُس کے سوا، کروں بھی تو کیا؟
÷÷ٹھیک ہے۔۔
وہ مکر جاٗے نہ کہیں اظہر
اُس کو اپنا بتا ، کروں بھی تو کیا؟
÷÷بتا کر کروں زیادہ فصیح ہے لیکن یہ آ نہیں سکتا۔۔۔ اس سے بہترکچھ اور سوچئے۔۔۔
یہ پھر میری رائے ہے ۔۔۔ استاد کی نہیں۔۔
یوں دیکھ لیجیے کچھ بہتری ہے کہ نہیں

عشق، تیرے سوا کروں بھی تو کیا؟
کچھ نہیں جانتا، کروں بھی تو کیا؟
عشق، تُو میری آزمائش ہے
میں تُجھے آزما، کروں بھی تو کیا؟
زخم دل کا اُسے دکھاوں میں
یا ابھی لوں چھپا، کروں بھی تو کیا؟
کوٗی صورت نہیں منانے کی
اسقدر ہے خفا، کروں بھی تو کیا؟
پاس ہوتے ہوئے بھی دور ہے وہ
اب اُسے میں جدا کروں بھی تو کیا؟
کچھ بھی کر لوں، اُسے نہیں بھاتا
میرے مالک بتا، کروں بھی تو کیا؟
کھینچ لے جائے اُس کی بزم میں دل
اُسکی ایسی ادا، کروں بھی تو کیا؟
ابتدا بھی اُسی سے آخر بھی
اور اُس کے سوا، کروں بھی تو کیا؟
میں تو خود کا رہا نہیں اظہر
اُس کو اپنا بنا ، کروں بھی تو کیا؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
عشق، تیرے سوا کروں بھی تو کیا؟
کچھ نہیں جانتا، کروں بھی تو کیا؟
۔۔۔۔درست
عشق، تُو میری آزمائش ہے
میں تُجھے آزما، کروں بھی تو کیا؟
۔۔۔۔درست، لیکن آپ ’’آزما کر ‘‘ کہنا چاہتے ہیں لفظ کر کا حذف کیاجانا موجودہ دور میں شایدجائز نہ سمجھاجائے۔
زخم دل کا اُسے دکھاوں میں
یا ابھی لوں چھپا، کروں بھی تو کیا؟
÷÷ لوں چھپا بے ربط لگتا ہے، جیسے ہم نثر میں لکھیں گے تو واضح طور پر بے ربط لگے گا، شعر میں بھی اس کا اطلاق کیجئے تو آپ کو جملے کا ترتیب میں ہونا زیادہ بہتر محسوس ہوگا۔۔۔
کوٗی صورت نہیں منانے کی
اسقدر ہے خفا، کروں بھی تو کیا؟
۔۔۔۔درست لیکن فاعل موجود نہیں، اس ، وہ، آپ ، یعنی کون خفا ہے، یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے۔۔۔مجھے ذاتی طور پر یہ تنقید بے جا محسوس ہوتی ہے، لیکن فاعل موجود ہوتا تو شعر بہتر ہوسکتا تھا۔
پاس ہوتے ہوئے بھی دور ہے وہ
اب اُسے میں جدا کروں بھی تو کیا؟
۔۔۔۔درست
کچھ بھی کر لوں، اُسے نہیں بھاتا
میرے مالک بتا، کروں بھی تو کیا؟
۔۔۔۔درست
کھینچ لے جائے اُس کی بزم میں دل
اُسکی ایسی ادا، کروں بھی تو کیا؟
۔۔۔۔دوسرے مصرعے میں ردیف سے پہلے جو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، ان کا تعلق آپ ہی سے رہے تو بہتر ہے۔۔۔ جو کمی یہاں ہے وہ ابلاغ کی کمی لگتی ہے، شعری لحاظ سے ہوسکتا ہے غلط نہ ہو۔ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اس کی ایسی ادا پر بات ختم ہوجاتی ہے اور ردیف پر تنہائی مسلط ہوجاتی ہے یعنی ردیف پر بے معنویت کا الزام لگایاجاسکتا ہے۔۔۔
ابتدا بھی اُسی سے آخر بھی
اور اُس کے سوا، کروں بھی تو کیا؟
۔۔۔۔درست
میں تو خود کا رہا نہیں اظہر
اُس کو اپنا بنا ، کروں بھی تو کیا؟
۔۔۔۔درست، لیکن یہاں بھی وہی مسئلہ ہے کہ ’’بنا کر‘‘ لکھنا میری ذاتی رائے میں ضروری ہے ۔
اب ایک بات اور ہے۔۔۔ جو اس غزل کو دیکھتے ہوئے ذہن میں پیدا ہو رہی ہے۔۔ غزل میں قافیے تو بے انتہا استعمال ہوسکتے ہیں لیکن ان کو اقسام کے حساب سے دیکھا جائے تو آپ کا تصور واضح ہوجائے گا۔۔۔اور آپ اس سے بہتر لکھ سکیں گے۔۔۔ اس قافیے میں فعل ماضی مطلق کا استعمال بہت ہوسکتا تھا جو آپ نے نہیں کیا یعنی گیا، لکھا، کیا، اٹھا، بیٹھا، پڑھا، سکا، ہوا ۔۔۔۔ وغیرہ۔
اسم بھی استعمال ہوسکتے ہیں جیسے: حوصلہ، سلسلہ، شائبہ ، گلہ ، صلہ وغیرہ۔۔۔
امر کا استعمال بھی ہوسکتا تھا جو آپ نے کیا بھی ہے یعنی میرے مالک بتا کروں بھی کیا، یہ بالکل درست ہے اور اظہار کی بہتر صورت بھی۔۔
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ شاہد، میرا کام آسان کر دیا۔ میں تو اکثر کسی غلطی کو نام بھی نہیں دے پاتا اور پریشان ہوتا ہوں کہ اس کو کیسے لکھوں کہ غلطی ہے!!
اظہر کی اس غزل میں زیادہ تر ان کے ذہن میں بناؤں تو کیا، چھپاؤں تو کیا، وغیرہ کا خیال ہے، جو ’بنا کروں، چھپا کروں اور آزما کروں‘ سے ادا نہیں ہو سکتا۔ اگر ردیف نبھانا مشکل لگتا ہے تو بہتر ہے کہ یوں کر دیں۔ آزماؤں تو کیا، چھپاؤں تو کیا وغیرہ۔
 
شکریہ شاہد، میرا کام آسان کر دیا۔ میں تو اکثر کسی غلطی کو نام بھی نہیں دے پاتا اور پریشان ہوتا ہوں کہ اس کو کیسے لکھوں کہ غلطی ہے!!
اظہر کی اس غزل میں زیادہ تر ان کے ذہن میں بناؤں تو کیا، چھپاؤں تو کیا، وغیرہ کا خیال ہے، جو ’بنا کروں، چھپا کروں اور آزما کروں‘ سے ادا نہیں ہو سکتا۔ اگر ردیف نبھانا مشکل لگتا ہے تو بہتر ہے کہ یوں کر دیں۔ آزماؤں تو کیا، چھپاؤں تو کیا وغیرہ۔
جناب شاہد شاہنواز کی سفارشات کی روشنی مین کچھ تبدیلیاں کی ہیں

عشق اب ہو گیا، کروں بھی تو کیا؟
اِس سے بڑھ کر خطا، کروں بھی تو کیا؟
پاس ہوتے ہوئے بھی دور ہے وہ
اب اُسے میں جدا کروں بھی تو کیا؟
کچھ بھی کر لوں، اُسے نہیں بھاتا
میرے مالک بتا، کروں بھی تو کیا؟
دل مجھے کھینچتا ہی لے جائے
کچھ نہیں مانتا،کروں بھی تو کیا؟
ابتدا بھی اُسی سے آخر بھی
اور اُس کے سوا، کروں بھی تو کیا؟
کوئی صورت کہ مان جائے وہ
اسقدر ہے خفا، کروں بھی تو کیا؟
زخم دِل کا اُسے دکھاؤں میں
کیا یہ ہو گا بُرا، کروں بھی تو کیا؟
میں تو خود کا رہا نہیں اظہر
اب میں اپنا بھلا کروں بھی تو کیا؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
دل مجھے کھینچتا ہی لے جائے
کچھ نہیں مانتا،کروں بھی تو کیا؟
÷÷پہلا مصرع میں سمجھا نہیں۔ ’’دل مجھے کھینچتا ہے اس کی طرف‘‘ شاید بہتر ہو۔۔۔
کوئی صورت کہ مان جائے وہ
اسقدر ہے خفا، کروں بھی تو کیا؟
÷÷÷ اس قدر ہے خفا، کتنا خفا؟ یہ سوال ہے، اس قدر کو بدلا جاسکتا ہے: یعنی ’’کوئی صورت کہ مان جائے وہ، کیوں ہے مجھ سے خفا؟ کروں بھی تو کیا؟ ، یہاں کیوں کا استعمال میں نے کیا ہے، صرف اس قدر کو کسی بھی طرح دور کردیجئے تو ٹھیک ہوگا۔
زخم دِل کا اُسے دکھاؤں میں
کیا یہ ہو گا بُرا، کروں بھی تو کیا؟
÷÷÷ ہے برا یا بھلا، کروں بھی تو کیا؟ ۔۔۔ میری تجویز ہے۔۔۔ کہ صرف ایک سوال مجھے کمزور سا لگا۔
’’ہے مگر یہ برا، کروں بھی تو کیا‘‘ بھی کرسکتے ہیں۔لیکن ایسی صورت میں پہلا مصرع کچھ اور ہوگا:
زخم دل کا اسے دکھا تو دوں​
ہے مگر یہ برا، کروں بھی تو کیا۔۔۔​
بہرحال میری رائے کوئی حتمی نہیں کہی جاسکتی۔۔۔ بعض اشعار کو شاعر ناقد سے بہتر سمجھ رہا ہوتا ہے، اس لیے آپ خود فیصلہ کیجئے۔ہمیں تو مشورہ دینا تھا، سو دے دیا۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
عشق اب ہو گیا، کروں بھی تو کیا؟​
اِس سے بڑھ کر خطا، کروں بھی تو کیا؟​
۔÷درست​
پاس ہوتے ہوئے بھی دور ہے وہ​
اب اُسے میں جدا کروں بھی تو کیا؟​
÷÷درست​
کچھ بھی کر لوں، اُسے نہیں بھاتا​
میرے مالک بتا، کروں بھی تو کیا؟​
۔۔درست​
دل مجھے کھینچتا ہی لے جائے​
کچھ نہیں مانتا،کروں بھی تو کیا؟​
÷÷شاہد کی اصلاح درست تو ہے، لیکن یوں بہتر ہو گا۔​
کھنچتا ہی جاؤں اس کی جانب میں (اس کی کچھ بہتر صورت بھی سوچو)​
دل نہیں مانتا کروں بھی تو کیا (دوسرا مصرع مجھے بہتر لگ رہا ہے)​
ابتدا بھی اُسی سے آخر بھی​
اور اُس کے سوا، کروں بھی تو کیا؟​
۔۔ اس سے کیا مطلب؟​
کوئی صورت کہ مان جائے وہ​
اسقدر ہے خفا، کروں بھی تو کیا؟​
÷÷شاہد کی اصلاح قبول کی جا سکتی ہے۔​
زخم دِل کا اُسے دکھاؤں میں​
کیا یہ ہو گا بُرا، کروں بھی تو کیا؟​
÷÷دوسرا مصرع بدل دو۔ پہلے کی ترمین شاہد کی مناسب ہے۔​
میں تو خود کا رہا نہیں اظہر​
اب میں اپنا بھلا کروں بھی تو کیا؟​
÷÷واضح نہیں​
 
Top