ایک غزل برائے اصلاح

عمرمختارعاجز

لائبریرین
لمحے اجنبی سے ہیں
رشتے موسمی سے ہیں
حلیے مشتمل پتھر پہ
چہرے کاغذی سے ہیں
وہ جو تم نے مجھ سے کئے
وعدے عارضی سے ہیں
جسم خاکی نے سارے زخم
پائے دوستی سے ہیں
مقام علم وعرفاں میں
عاجز عاجزی سے ہیں​
محفل کے تمام اساتذہ بالخصوص الف عین صاحب سے اصلاح کی خصوصی التجا ہے۔
ًًًًً



ً
 
آخری تدوین:
لمحے اجنبی سے ہیں
رشتے موسمی سے ہیں
حلیے مشتمل پتھر پہ
چہرے کاغذی سے ہیں
وہ جو تم نے مجھ سے کئے
وعدے عارضی سے ہیں
جسم خاکی نے سارے زخم
پائے دوستی سے ہیں
مقام علم وعرفاں میں
عاجز عاجزی سے ہیں​



ً

کوائف نامے میں آپ کا پیغام ملا، سو حاضر ہو گیا۔
مجھے کوئی اندازہ نہیں کہ آپ کا اب تک کا شعری سفر کتنا طویل ہے۔ اس کاوش سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی گرفت اوزان پر مضبوط نہیں ہے۔ دوسری اہم بات کہ چھوٹی بحر میں شعر کہنا میرے لئے ہمیشہ مشکل رہا ہے کیونکہ وہاں ہمارے پاس الفاظ کم ہوتے ہیں اور مضمون پورے کا پورا انہی میں سمونا ہوتا ہے۔
 
فرداً فرداً دیکھے لیتے ہیں۔

لمحے اجنبی سے ہیں
رشتے موسمی سے ہیں
اس شعر کی بنیاد پر ایک مصرع کا وزن ’’فاعلن مفاعیلن‘‘ بہت ہی مختصر اور یقیناً مشکل بھی۔ سو، آپ کو لمحے اور رشتے دونوں کی ے گرانا پڑی۔ تاہم مضمون بن گیا۔

حلیے مشتمل پتھر پہ
چہرے کاغذی سے ہیں
اس میں پہلا مصرع وزن سے خارج ہے۔ دوسری بات یہاں معنوی ٹکراؤ ہے۔ حلیہ اور چہرہ ایک ہی بات تو ہے، یا کم از کم یہاں ایسا گمان گزر رہا ہے۔ یا تو کچھ ایسی بات ہو کہ دل پتھر کے ہیں اور چہرے، بشرے، حلیے (جو آپ کی ترجیح ہو) کاغذی ہیں۔ اس کو یوں بھی دیکھا جا سکتا ہے: ’’جسم سنگِ مرمر کے ۔۔ چہرے کاغذی سے ہیں‘‘ اگرچہ اس میں بھی بہتری کی گنجائش ہے۔

وہ جو تم نے مجھ سے کئے
وعدے عارضی سے ہیں
اس میں بھی پہلا مصرع وزن سے نکل گیا۔ اس کو کسی طور وزن میں لے آئیے، مضمون مناسب ہے۔

جسم خاکی نے سارے زخم
پائے دوستی سے ہیں
یہاں بھی پہلا مصرع وزن سے باہر۔ اس کو اگر یوں دیکھا جائے: ’’زخم جسم نے سارے‘‘ تو کیسا رہے گا۔ دوستی کی عرایت سے معنوی سطح پر یہاں جسم سے کہیں زیادہ تقاضا دل کا ہے۔ ’’زخم سارے اس دل نے‘‘ کو بھی دیکھ لیجئے گا۔

مقام علم وعرفاں میں
عاجز عاجزی سے ہیں
ایک اہم بات کہ الف کو ہم گرا سکتے ہیں یا ایصال میں حسبِ موقع حذف بھی کر سکتے ہیں، ع کو نہیں۔ اس شعر کے دونوں مصرعوں میں معنوی ربط بھی خاصا کمزور ہے، پہلا مصرع یہاں بھی وزن سے خارج ہے۔

آپ کو بہت محنت اور مزید مطالعے کی ضرورت ہے۔ جاری رکھئے۔
 
آخری تدوین:

عمرمختارعاجز

لائبریرین
جی استاذی بہت شکریہ میں تو ابھی طفل مکتب ہوں جی شاعری کا بہت شوق ہے ۔اس محفل میں چونکہ اساتذہ بڑی توجہ سے اصلاح کرتےہیں بس اسی وجہ سے محفل میں آگیا اور اب تو یہ حال ہے کہ میرا بہت سا وقت جو فیس بک پہ گزرتا تھا وہ ختم ہوگیا ۔بس اب تو حرز جان اردو محفل ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک اور ممکن بحر ہو سکتی ہے
فاعلن مفاعلن
اس صورت میں مطلع کے لمحے اور رشتے کی ے کے علاوہ سے ہیں‘ کی ے بھی گرا کر ’سَ ہیں‘ ممکن ہے۔ مجھے یہ بحر زیادہ مانوس محسوس ہو رہی ہے۔ اکثر اشعار اس میں ڈھالے جا سکتے ہیں۔
 
ایک اور ممکن بحر ہو سکتی ہے
فاعلن مفاعلن
اس صورت میں مطلع کے لمحے اور رشتے کی ے کے علاوہ سے ہیں‘ کی ے بھی گرا کر ’سَ ہیں‘ ممکن ہے۔ مجھے یہ بحر زیادہ مانوس محسوس ہو رہی ہے۔ اکثر اشعار اس میں ڈھالے جا سکتے ہیں۔

بجا ارشاد، تاہم یہاں یہ عرض کروں گا کہ یوں تو بحر اور بھی سکڑ جائے گی تو کیا شعر کہنا مشکل تر نہیں ہو جائے گا؟ میں نے ایک غزل کہی تھی ایک مصرعے میں ’’مفاعلن‘‘ چار بار۔ ایک شعر پیش کرتا ہوں:
سیاہ رات رہ گئی ہے روشنی کے شہر میں
دکھا کے چاند تارے اپنی تاب و تب چلے گئے​
اس میں تاب و تب قافیہ ہے۔ بحر بڑی مزے کی ہے، اور اقبال کی ’’حدی‘‘ سے ماخوذ ہے۔
 
۔استادِ محترم پوری غزل عطا ہو تو مزہ آجائے
وہ غزل تو ہم نے خود قلم زد کر دی۔ یہی ایک شعر تھا جو پیش کیا جا سکتا تھا، ایک اور ہے کسی قدر ناقص۔ تاہم آپ کی خواہش کے احترام میں پیش کئے دیتے ہیں:
زباں کوئی نہ مل سکی ظہورِ اضطراب کو
تمام لفظ چھوڑ کر لرزتے لب چلے گئے​
بہت آداب
 
Top