ایک غزل ،'' بُرا کیا تھا مجھے، جو ہجر تھوڑا مختصر ہوتا ''

بُرا کیا تھا مجھے، جو ہجر تھوڑا مختصر ہوتا
کنارے سے میں جب لگتا، تو کوئی منتظر ہوتا
وفاوں کو مری جیسے اُڑا کر لے گئی پروا
اثر اُس کی جفاوں کا بھی کچھ تو منتشر ہوتا
مرا جو شخص ہے، وہ میرے جیسا نرم دل ہی تھا
اگر وہ سنگدل ہوتا ، تو شائد جانبر ہوتا
تجھے پھولوں سا رکھتا میں، بہاریں روک گر سکتا
نہیں قسمت میں تھا لکھا کہ میں بھی مقتدر ہوتا
کہانی چل پڑی تو تھی، مگر سب موڑ آگے کے
رویے پر، تری مرضی پہ ہی سب منحصر ہوتا
گزرتی خوب تر لیکن گزارہ چل گیا اظہر
مزاج یار گر تیری طرح سے منکسر ہوتا
 
بُرا کیا تھا مجھے، جو ہجر تھوڑا مختصر ہوتا
کنارے سے میں جب لگتا، تو کوئی منتظر ہوتا
وفاوں کو مری جیسے اُڑا کر لے گئی پروا
اثر اُس کی جفاوں کا بھی کچھ تو منتشر ہوتا
مرا جو شخص ہے، وہ میرے جیسا نرم دل ہی تھا
اگر وہ سنگدل ہوتا ، تو شائد جانبر ہوتا
تجھے پھولوں سا رکھتا میں، بہاریں روک گر سکتا
نہیں قسمت میں تھا لکھا کہ میں بھی مقتدر ہوتا
کہانی چل پڑی تو تھی، مگر سب موڑ آگے کے
تری مرضی، رویے پر ہی سب کچھ منحصر ہوتا
گزرتی خوب تر لیکن تمنا ہی رہی اظہر
مزاج یار گر تیری طرح سے منکسر ہوتا
 

الف عین

لائبریرین
قوافی میں کہیں کسرہ ہے اور کہیں فتحہ۔ یہ درست نہیں ہے۔منتظِر اور منتظَر دونوں کے معنی الگ الگ ہیں۔ زیر کے ساتھ۔ جو انتطار کرے، زبر کے ساتھ، جس کا انتطار کیا جائے۔مطلع میں ہی اسے منتظِر ہونا چاہئے جب کہ دوسرا قافیہ مختصَر ہے، زبر کے ساتھ۔ اسی طرح جانبر کا تلفظ جا ۔نَبَر نظم ہوا ہے، درست جابر جاں بر) ہے۔
 
محترم اُستاد ایک سوال کہ کیا دو مقطع ہو سکتے ہیں؟ اور مجوزہ تبدیلیاں


بُرا کیا تھا مجھے، جو ہجر تھوڑا مختصر ہوتا

مرا کوئی ، کسی کا کاش میں بھی منتظر ہوتا


وفاوں کو مری جیسے اُڑا کر لے گئی پروا

اثر اُس کی جفاوں کا بھی کچھ تو منتشر ہوتا


تجھے پھولوں سا رکھتا میں، بہاریں روک گر سکتا

نہیں قسمت میں تھا لکھا کہ میں بھی مقتدر ہوتا


کہانی چل پڑی تو تھی، مگر سب موڑ آگے کے

رویے پر، تری مرضی پہ ہی سب منحصر ہوتا


سخن میں جان ہے تیرے، وگرنہ جان لے اظہر

نہ اس کی پھیلتی خوشبو، نہ ایسے مُشتہر ہوتا


گزرتی خوب تر لیکن گزارہ چل گیا اظہر

مزاج یار گر تیری طرح سے منکسر ہوتا
 

الف عین

لائبریرین
دو مقطع یا ایک مقطع یا صفر مقطع، سب شاعر کی مرضی پر منحصر ہے۔
میرے مشورے کے مطابق کیا تبدیلیاں ہیں، میری سمجھ میں نہیں آ سکیں۔ اب قوافی مفتوح ہیں یا مکسور؟ آسان اردو میں زیر کے ساتھ یا زبر کے ساتھ؟
 
دو مقطع یا ایک مقطع یا صفر مقطع، سب شاعر کی مرضی پر منحصر ہے۔
میرے مشورے کے مطابق کیا تبدیلیاں ہیں، میری سمجھ میں نہیں آ سکیں۔ اب قوافی مفتوح ہیں یا مکسور؟ آسان اردو میں زیر کے ساتھ یا زبر کے ساتھ؟
اُستاد محترم زبر کے ساتھ


بُرا کیا تھا مجھے، جو ہجر تھوڑا مختصر ہوتا

مرا کوئی ، کسی کا کاش میں بھی منتظر ہوتا


وفاوں کو مری جیسے اُڑا کر لے گئی پروا

اثر اُس کی جفاوں کا بھی کچھ تو منتشر ہوتا


تجھے پھولوں سا رکھتا میں، بہاریں روک گر سکتا

نہیں قسمت میں تھا لکھا کہ میں بھی مقتدر ہوتا


کہانی چل پڑی تو تھی، مگر سب موڑ آگے کے

رویے پر، تری مرضی پہ ہی سب منحصر ہوتا


سخن میں جان ہے تیرے، وگرنہ جان لے اظہر

نہ اس کی پھیلتی خوشبو، نہ ایسے مُشتہر ہوتا


گزرتی خوب تر لیکن گزارہ چل گیا اظہر

مزاج یار گر تیری طرح سے منکسر ہوتا
 
تبدیلی سبھی مفتوح ہیں جناب

بُرا کیا تھا مجھے، جو ہجر پہ میں مقتدر ہوتا
وصال یار میری ہی رضا پر منحصر ہوتا
وفاوں کو مری جیسے اُڑا کر لے گئی پروا
اثر اُس کی جفاوں کا بھی کچھ تو منتشر ہوتا
مسافت کی تھکن کا کچھ اثر معنی نہیں رکھتا
کنارے سے میں جب لگتا ، کوئی تو منتظر ہوتا
کہانی چل پڑی تو تھی، مگر سب موڑ آگے کے
تری مرضی رویے پر ہی سب کچھ منحصر ہوتا
گزرتی خوب تر لیکن، یہ بس خواہش رہی میری
مزاج یار گر میری طرح سے منکسر ہوتا
سخن میں جان ہے تیرے، وگرنہ جان لے اظہر
نہ اس کی پھیلتی خوشبو، نہ ایسے مُشتہر ہوتا
 
کچھ مزید تبدیلیاں

بُرا کیا تھا محبت میں ذرا سا مقتدر ہوتا
وصالِ یار بس میری رضا پر منحصر ہوتا
وفا میری پریشاں کرگئی نامہرباں جیسے
اثر اس کی جفا کا بھی صبا سے منتشر ہوتا
انا اصرار کرتی ہی رہی، جانا ضروری ہے
اگر رکنے کو وہ کہتا، تو کیسے میں مصر ہوتا
مسافت کی تھکن کا بوجھ کچھ معنی نہیں رکھتا
کنارے پر اترتے وقت کوئی منتظر ہوتا
محبت تھی سہی، مشکل مگر تھا معترف ہونا
کہاں لگنا تھا یہ عرصہ؟ اگر کوئی مقر ہوتا
صحیح کہتا ہوں میں اظہر گزرتی خوب دونوں میں
مزاج یار گر میری طرح سے منکسر ہوتا
 
مزید تبدیلیاں


بُرا کیا تھا محبت میں ذرا سا مقتدر ہوتا
وصالِ یار بس میری رضا پر منحصر ہوتا
مسافت کی تھکن کا بوجھ کچھ معنی نہیں رکھتا
کنارے پر اترتے وقت کوئی منتظر ہوتا

وفا میری پریشاں کرگئی نامہرباں جیسے
اثر اس کی جفا کا بھی صبا سے منتشر ہوتا
مزے کی خوب ہوتی ہیں ، یہ قلبی وارداتین بھی
تمنا یہ ہی رہتی ہے، وقوعہ کاش پھر ہوتا

مزاج یار تو برہم ہمیشہ سے ہی تھا اظہر
ترے جیسا اگر ہوتا، ذرا سا منکسر ہوتا
 
ایک اور تبدیلی

بُرا کیا تھا محبت میں ذرا سا مقتدر ہوتا
وصالِ یار بس میری رضا پر منحصر ہوتا
مسافت کی تھکن کا بوجھ کچھ معنی نہیں رکھتا
کنارے پر اترتے وقت کوئی منتظر ہوتا
وفا میری پریشاں کرگئی نامہرباں جیسے
اثر اس کی جفا کا بھی صبا سے منتشر ہوتا
ابھی تک ہے سرورِ وارداتِ قلب اے واعظ
زمانہ خود کو دہراتا، وقوعہ کاش پھر ہوتا
مزاج یار تو برہم ہمیشہ سے ہی تھا اظہر
ترے جیسا اگر ہوتا، ذرا سا منکسر ہوتا
 

الف عین

لائبریرین
بُرا کیا تھا محبت میں ذرا سا مقتدر ہوتا
وصالِ یار بس میری رضا پر منحصر ہوتا
// بُرا کیا تھا محبت میں اگر کچھ مقتدر ہوتا
بہتر واضح کرتا ہے تمہارے مدعا کو

مسافت کی تھکن کا بوجھ کچھ معنی نہیں رکھتا
کنارے پر اترتے وقت کوئی منتظر ہوتا
//یہاں مراد شاید یہ ہے کہ ’اگر کوئی منتظر ہوتا‘ زیر کے ساتھ، زبر کے ساتھ محل غلط ہے۔ دوسرا مصرع بھی یوں بہتر ہوتا
کنارے پر اترتے جب تو کوئی منتظِر ہوتا۔

وفا میری پریشاں کرگئی نامہرباں جیسے
اثر اس کی جفا کا بھی صبا سے منتشر ہوتا
//شعر واضح نہیں۔ صبا سے اثر کا منتشر ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔

ابھی تک ہے سرورِ وارداتِ قلب اے واعظ
زمانہ خود کو دہراتا، وقوعہ کاش پھر ہوتا
//یہ تو واضح کسرہ آ گیا ہے۔ پھِر۔

مزاج یار تو برہم ہمیشہ سے ہی تھا اظہر
ترے جیسا اگر ہوتا، ذرا سا منکسر ہوتا
//دوسرا یوں بہتر اور واضح ہوتا ہے
اگر ہوتا وہ مجھ جیسا تو تھوڑا منکسر ہوتا
 
بُرا کیا تھا محبت میں ذرا سا مقتدر ہوتا
وصالِ یار بس میری رضا پر منحصر ہوتا
// بُرا کیا تھا محبت میں اگر کچھ مقتدر ہوتا
بہتر واضح کرتا ہے تمہارے مدعا کو

جی بجا ارشاد فرمایا
بُرا کیا تھا محبت میں اگر کچھ مقتدر ہوتا
وصالِ یار بس میری رضا پر منحصر ہوتا

مسافت کی تھکن کا بوجھ کچھ معنی نہیں رکھتا
کنارے پر اترتے وقت کوئی منتظر ہوتا
//یہاں مراد شاید یہ ہے کہ ’اگر کوئی منتظر ہوتا‘ زیر کے ساتھ، زبر کے ساتھ محل غلط ہے۔ دوسرا مصرع بھی یوں بہتر ہوتا
کنارے پر اترتے جب تو کوئی منتظِر ہوتا۔

جی صحیح
مسافت کی تھکن کا بوجھ کچھ معنی نہیں رکھتاکنارے پر اترتے جب تو کوئی منتظر ہوتا
وفا میری پریشاں کرگئی نامہرباں جیسے
اثر اس کی جفا کا بھی صبا سے منتشر ہوتا
//شعر واضح نہیں۔ صبا سے اثر کا منتشر ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔

گویا اُس کی جفائیں ہوا میں تحلیل ہو جاتیں

ابھی تک ہے سرورِ وارداتِ قلب اے واعظ
زمانہ خود کو دہراتا، وقوعہ کاش پھر ہوتا
//یہ تو واضح کسرہ آ گیا ہے۔ پھِر۔

تھوڑی وضاحت ہو جاتی اگر جناب معذرت چاہتا ہوں سمجھ نہیں آیا کہ کہاں

مزاج یار تو برہم ہمیشہ سے ہی تھا اظہر
ترے جیسا اگر ہوتا، ذرا سا منکسر ہوتا
//دوسرا یوں بہتر اور واضح ہوتا ہے
اگر ہوتا وہ مجھ جیسا تو تھوڑا منکسر ہوتا


جی درست فرمایا
مزاج یار تو برہم ہمیشہ سے ہی تھا اظہراگر ہوتا وہ مجھ جیسا، تو تھوڑا منکسر ہوتا

گویا اب کچھ یوں ہے

بُرا کیا تھا محبت میں اگر کچھ مقتدر ہوتا
وصالِ یار بس میری رضا پر منحصر ہوتا
مسافت کی تھکن کا بوجھ کچھ معنی نہیں رکھتا
کنارے پر اترتے جب تو کوئی منتظر ہوتا
وفا میری پریشاں کرگئی نامہرباں جیسے
اثر اس کی جفا کا بھی صبا سے منتشر ہوتا
ابھی تک ہے سرورِ وارداتِ قلب اے واعظ
زمانہ خود کو دہراتا، وقوعہ کاش پھر ہوتا
مزاج یار تو برہم ہمیشہ سے ہی تھا اظہر
اگر ہوتا وہ مجھ جیسا، تو تھوڑا منکسر ہوتا
 

الف عین

لائبریرین
درست ہو سکتی ہے اس صورت میں جب قوافی سارے مکسور ہوں، تم ہی اعلان کر چکے ہو کہ مفتوح ہیں!!
ہوا میں بکھرنا محاورہ ہوتا ہے، صبا میں منتشر ہونا نہیں۔ وہ شعر اب بھی واضح نہیں۔
 
Top