ایک طرحی غزل،'' دیار و دشت و دمن میں بکھر رہو تھا میں''

فقط جو کام تھے ذمے وہ کر رہا تھا میں
نہ جی رہا تھا خوشی سے نہ مر رہا تھا میں
بھٹک گیا تو پتہ بھی نہ چل سکا مجھ کو
نئی سی راہ تھی، جس سے گزر رہا تھا میں
میں پوچھتا ہی رہا، زندگی میں تھا اُسکی؟
مگر بتا نہ سکا وہ، اگر رہا تھا میں
عدو کے سامنے میں حوصلہ نہیں ہارا
دعا وہ کس کی تھی، سینہ سپر رہا تھا میں
سمیٹتا بھی کہاں تک مجھے وہ چارہ گر
دیار و دشت و دمن میں بکھر رہا تھا میں
وہی زمیں تھی، وہی آسماں مگر اظہر
گزر گیا تو فقط اک خبر رہا تھا میں
 

الف عین

لائبریرین
ارے میاں یہ طرحی ورحی کے چکر میں ابھی سے پڑ گئے؟؟ بہر حال طرح میں مجھے یہ پریشانی ہوتی ہے کہ اس قسم کے مشاعرے کی ایک تاریخ مقرر ہوتی ہے، اور مجھ سے یہ امید نہ رکھی جائے کہ میں فلاں تاریخ تک ہی غزل کا پوسٹ مارٹم کر سکوں گا!! اس سے قطع نظر کہ مجھے طرحی مشاعروں میں زبردستی غزل کہنا پسند نہیں ہے۔ بہر حال یہ گزل تو پھر بھی کافی بہتر نکالی ہے تم نے۔ انشاء اللہ جلد ہی اصلاح کر دی جائے گی۔
 

الف عین

لائبریرین
فقط جو کام تھے ذمے وہ کر رہا تھا میں
نہ جی رہا تھا خوشی سے نہ مر رہا تھا میں
//درست

بھٹک گیا تو پتہ بھی نہ چل سکا مجھ کو
نئی سی راہ تھی، جس سے گزر رہا تھا میں
//’نئی سی‘ عجیب سا لگ رہا ہے۔ یوں کر دو تو بہتر ہے
نئی تھی راہ وہ، جس سے گزر رہا تھا میں

میں پوچھتا ہی رہا، زندگی میں تھا اُسکی؟
مگر بتا نہ سکا وہ، اگر رہا تھا میں
//پہلا مصرع واضح نہیں کچھ بیانیے کی بے ترتیبی کی وجہ سے۔ اس کو یوں کہیں تو
میں پوچھتا تھا کہ ہے زندگی میں کون اس کی؟

عدو کے سامنے میں حوصلہ نہیں ہارا
دعا وہ کس کی تھی، سینہ سپر رہا تھا میں
// عدو کے سامنے بھی حوصلہ نہیں ہارا
دعا تھی کس کی کہ سینہ سپر رہا تھا میں
کیسا رہے گا؟

سمیٹتا بھی کہاں تک مجھے وہ چارہ گر
دیار و دشت و دمن میں بکھر رہا تھا میں
//چارہ گر میں ہ کا واضح اعلان درست تو ہے، لیکن اچھا نہیں لگتا۔
سمیٹتا بھی کہاں تک وہ چارہ گر مجھ کو
سے بات زیادہ صاف اور مصرع رواں ہو جاتا ہے
دشت و دمن تو درست ہے، لیکن ان کے ساتھ ’دیار‘ کا لفظ غلط سا لگ رہا ہے۔ دیارِ دشت تو کہہ سکتے ہو مگر دیار و دشت؟ اس مصرع کو محض ’تمام‘ کہہ دینے میں یہ خامی درست ہو سکتی ہے،
تمام دشت و دمن میں بکھر رہا تھا میں

وہی زمیں تھی، وہی آسماں مگر اظہر
گزر گیا تو فقط اک خبر رہا تھا میں
// یہاں ‘تھی‘ کی بجائے ‘رہی‘ اور ’رہا‘ سے بات صاف ہو جاتی ہے۔
رہی زمیں بھی وہی، آسماں وہی اظہر
 
Top