مصطفیٰ زیدی ایک شام،،،،، مصطفی زیدی

علی فاروقی

محفلین
ایک شام

یو ں تو لمحوں کے اس تسلسل میں
اب سے پہلے بھی عمر کٹتی تھی
موم بتی کی روشنی میں نظر
حافظے کے ورق الٹتی تھی
ریت کے سوگوار ٹیلوں پر
چاندنی رات بھر بھٹکتی تھی

آج لیکن تھکے ہوے دل پر
جسم کا تار تار بھاری ہے
شام کی دم بخود ہواوں پر
صبح کا انتظار بھاری ہے

مقبروں سے اٹھی ہوئ آندھی
ٹہنیوں سے الجھ کے چلتی ہے
خشک پلکوں پہ آنسووں کی امید
پے بہ پے کروٹیں بدلتی ہے
ایک اک عکس سانس لیتا ہے
ایک اک یاد آنکھ ملتی ہے
جیسے صحرا میں سر جھکاے ہوئے
حاجیوں کی قطار چلتی ہے

زرد چنگاریوں کے دامن میں
یوں سلگتا ہے سرد آتش دان
جیسے بچوں کی بھوک کے آگے
ایک نادار باپ کا ایمان

دم بخود خامشی میں دھیرے سے
زرد پتے قدم اٹھاتے ہیں
یاد کے کارواں اندھیرے میں
خواب کی طرح سر سراتے ہیں
کھڑکیوں کے ڈرے ہوئے چہرے
اپنی آہٹ سے کانپ جاتے ہیں

دل کی قربان گاہ کے آگے
ایک ٹوٹا ہوا دیا بھی نہیں
کسی پیپل کے نرم سائے میں
کوئ پتھر کا دیوتا بھی نہیں
روح کے کاسہءِگدائ کو
چار ٹکڑوں کا آسرا بھی نہیں

لمبی چوڑی سڑک کے دامن پر
قمقمے سہمے سہمے چلتے ہیں
جیسےاکثر بڑے گھرانوں میں
فاقہ کش رشتہ دار پلتے ہیں

سوچتاہوں کہ اس دیار سے دور
ایک ایسا بھی دیس ہے جس کی
رات تاروں میں سج کے آئے گی
صبح ہو گی تو گھر کے گوشوں میں
تیری معصوم مسکراہٹ کی
نرم سی دھوپ پھیل جائے گی
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوبصورت نظم ہے مصطفیٰ زیدی کی۔ بہت شکریہ پوسٹ کے لئے۔ علی صاحب بس ایک گزارش ہے کہ عنوان میں بھی مصطفیٰ زیدی کا نام درست کرلیں وہاں پر مسطفیٰ لکھا گیا ہے۔
:)
 

علی فاروقی

محفلین
بہت شکریہ غلطی کی نشاندہی کا،میں نے عنوان درست کر دیا ہے۔فونٹک کی بورڈ سے یہ غلطی اکثر ہو جاتی ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایک شام

یو ں تو لمحوں کے اس تسلسل میں
اب سے پہلے بھی عمر کٹتی تھی
موم بتی کی روشنی میں نظر
حافظے کے ورق الٹتی تھی
ریت کے سوگوار ٹیلوں پر
چاندنی رات بھر بھٹکتی تھی

آج لیکن تھکے ہوے دل پر
جسم کا تار تار بھاری ہے
شام کی دم بخود ہواؤں پر
صبح کا انتظار بھاری ہے

مقبروں سے اٹھی ہوئی آندھی
ٹہنیوں سے الجھ کے چلتی ہے
خشک پلکوں پہ آنسوؤں کی امید
پے بہ پے کروٹیں بدلتی ہے
ایک اک عکس سانس لیتا ہے
ایک اک یاد آنکھ ملتی ہے
جیسے صحرا میں سر جھکائے ہوئے
حاجیوں کی قطار چلتی ہے

زرد چنگاریوں کے دامن میں
یوں سلگتا ہے سرد آتش دان
جیسے بچوں کی بھوک کے آگے
ایک نادار باپ کا ایمان

دم بخود خامشی میں دھیرے سے
زرد پتے قدم اٹھاتے ہیں
یاد کے کارواں اندھیرے میں
خواب کی طرح سر سراتے ہیں
کھڑکیوں کے ڈرے ہوئے چہرے
اپنی آہٹ سے کانپ جاتے ہیں

دل کی قربان گاہ کے آگے
ایک ٹوٹا ہوا دیا بھی نہیں
کسی پیپل کے نرم سائے میں
کوئی پتھر کا دیوتا بھی نہیں
روح کے کاسۂ گدائی کو
چار ٹکڑوں کا آسرا بھی نہیں

لمبی چوڑی سڑک کے دامن پر
قمقمے سہمے سہمے جلتے ہیں
جیسےاکثر بڑے گھرانوں میں
فاقہ کش رشتہ دار پلتے ہیں

سوچتاہوں کہ اس دیار سے دور
ایک ایسا بھی دیس ہے جس کی
رات تاروں میں سج کے آئے گی
صبح ہو گی تو گھر کے گوشوں میں
تیری معصوم مسکراہٹ کی
نرم سی دھوپ پھیل جائے گی

(مصطفیٰ زیدی)​
 
Top