مصطفیٰ زیدی ایک زخمی تصّور

غزل قاضی

محفلین
ایک زخمی تصّور

یہ ترا عزم ِ سفر یہ مرے ہونٹوں کا سکوت
اب تو دنیا نہ کہے گی کہ شکایت کی تھی

میں سمجھ لوں گا کہ میں نے کسی انساں کے عوض
ایک بےجان ستارے سے محبّت کی تھی

اک دمکتے ہوئے پتھر کی جبیں چومی تھی !
ایک آدرش کی تصویر سے اُلفت کی تھی !

میں نے سوچا تھا کہ آندھی میں چَراغاں کر دوں
میں نے چاہا تھا کہ سیلاب کو انساں کر دوں

ولولے دوش پہ لائے تھے سمندر کا جَلال
حوصلے ڈال رہے تھے مہ و انجم پہ کمند

عزم ِ آغاز سے مخمور ، جنوں سے سرشار
فکر ِ انجام کے غرفے تھے بڑی دیر سے بَند

میں سمجھتا تھا کہ یہ جذبہ ء بےنام و نمود !!
شیشہ ء ذہن سے نازک ہے تصّور سے بلند

آج ہر پھول لہو ہے کہ بکھرنا ہوگا
حوصلے سر بہ گریباں ہیں کہ اب کیا ہو گا

صرف لمحوں کی بدلتی ہوئی تصویریں ہیں
اجنبی تیرے تصور سے عبارت ہے حیات

تجھ سے وابستہ ہیں وہ کرب کی راتیں جن میں
حدّت ِ غم سے سلگتے رہے بےبس لمحات

ذہن کی لو سے الجھتا رہا گہرا کہرا
دل کے ساگر سے ابلتے رہے اندھے جذبات

اب تو جب رات کو پچھلے کا سَماں ہوتا ہے
اپنی آواز پہ رونے کا گُماں ہوتا ہے

ایسی سنسان سڑک ! ایسا گَھنا سنّاٹا !
کون جذبات کی لہروں میں اُتر سکتا ہے

لوگ کہتے ہیں کہ اُجڑی ہوئی آبادی سے
رات کے وقت گزرتے ہوئے ڈر لگتا ہے

مقبروں پر نظر آتے ہیں بھیانک سَائے
موڑ پر دل کے پُر اسرار گھنڈر پڑتا ہے

اس اندھیرے میں ستارے تو کہاں ملتے ہیں!
کچھ سُلگتے ہوئے اشکوں کے نشاں ملتے ہیں

آج لیکن مری آنکھوں میں کوئی اشک نہیں
تھرتھراتے ہوئے ہونٹوں کا فسانہ بھی نہیں

روح پر بوجھ ہے اک قبر کی مانند مگر !
نوحہ ء دل بھی نہیں آہ ِ شانہ بھی نہیں

میری ویران نگاہیں ، مرا بےجان سکوت
زیست کو ہیچ سمجھنے کا بہانہ بھی نہیں

لیکن اس زیست میں ہے زیست سے بیزاری بھی
زخم ِ دل یوں تو ہے خوشرنگ مگر کاری بھی

مصطفیٰ زیدی

( روشنی )
 
Top