ایک روٹی کی برکت

یوسف سلطان

محفلین
حضرت سیدنا ابو بردہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''جب حضرت سید نا ابو موسیٰ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے تمام بیٹوں کو اپنے پاس بلاکر فرمایا:'' میں تمہیں صاحب الرغیف (یعنی روٹی والے) کا قصہ سناتا ہوں ، اسے ہمیشہ یاد رکھنا،
پھرفرمایا:''ایک عابد شخص اپنی جھو نپڑی میں لوگو ں سے الگ تھلگ عبادت کیاکرتا تھا ۔ وہ ستر سال تک اسی جھونپڑی میں رہا ،اس عرصہ میں کبھی بھی اس نے عبادت کو ترک نہ کیا اور نہ ہی کبھی اپنی جھونپڑی سے باہر آیا۔پھر ایک دن وہ جھونپڑی سے باہر آیا تو اسے شیطان نے ایک عورت کے فتنے میں مبتلا کردیا، اور وہ سات دن یا سات راتیں اسی عورت کے ساتھ رہا، سات دن کے بعد جب اس کی آنکھوں سے غفلت کا پردہ ہٹا تو وہ اپنی اس حرکت پر بہت نادم ہوا، اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تو بہ کی، اور وہاں سے رخصت ہوگیا ۔ وہ اپنے اس فعل پر بہت نادم تھا ،اب اس کی یہ حالت تھی کہ ہر ہر قدم پر نما ز پڑھتا اور تو بہ کرتا۔ پھر ایک رات وہ ایسی جگہ پہنچا جہاں بارہ مسکین رہتے تھے ۔ وہ بہت زیادہ تھکا ہوا تھا، تھکاوٹ کی وجہ سے وہ ان مسکینوں کے قریب گر پڑا ۔
ایک راہب روزانہ ان بارہ مسکینوں کو ایک ایک روٹی دیتا تھا ۔ جب وہ راہب آیا تو اس نے رو ٹی دینا شروع کی اور اس عا بد کو بھی مسکین سمجھ کر ایک روٹی دے دی ،اوران بارہ مسکینوں میں سے ایک کو روٹی نہ ملی تو اس نے راہب سے کہا : ''آج آپ نے مجھے روٹی کیوں نہیں دی؟'' راہب نے جب یہ سنا تو کہا:''میں تو بارہ کی بارہ روٹیاں تقسیم کر چکاہوں ۔''پھر اس نے مسکینوں سے مخاطب ہو کر کہا: ''کیا تم میں سے کسی کو دو روٹیاں ملی ہیں؟'' سب نے کہا :''نہیں ہمیں توصرف ایک ایک ہی ملی ہے ۔ ' '
یہ سن کر راہب نے اس شخص سے کہا : ''شاید تم دوبارہ روٹی لینا چاہتے ہو،جاؤ آج کے بعد تمہیں روٹی نہیں ملے گی۔''
جب اس عابد نے یہ سنا تو اسے اس مسکین پر بڑا ترس آیا چنانچہ اس نے وہ روٹی مسکین کو دے دی اور خود بھوکار ہا اور اسی بھوک کی حالت میں اس کا انتقال ہوگیا ۔
جب اس کی ستر سالہ عبادت اور غفلت میں گزری ہوئی سات راتوں کا وزن کیا گیا ،تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں گزاری ہوئیں راتیں اس کی ستر سالہ عبادت پر غالب آگئیں۔ پھرجب ان سات راتوں کا موازنہ اس روٹی سے کیا گیا جو اس نے مسکین کو دی تھی تو وہ روٹی ان راتوں پر غالب آگئی اور اس کی مغفرت کردی گئی۔
(عُیُوْنُ الْحِکَایَات (مترجم) (حصہ اوّل صفحہ 47)مؤلف امام ابوالفرج عبدالرحمن بن علی الجوزی علیہ رحمۃ اللہ القوی المتوفیٰ ۵۹۷ ھ۔)
معلوم ہوا صدقہ اللہ کی نظر میں بڑی قدر والی چیز ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو بھی غریبوں مسکینوں کی مدد کرنے کی توفیق دے۔ آمین
 
clear.png
پسندیدہ
 

x boy

محفلین
مجھے اس لڑی سے کوئی اتفاق نہیں ہے
ایک شخص ستر سال تک ایک جھونپڑی میں رہا، آج کل تو ایک پچاس سے ساٹھ سال تک کا شخص دوائی کے بغیر ازدواجی تعلق نہیں بناسکتا،،،
دوسری بات دنیا میں لوگوں کے درمیان رہ کر ہی فکرآخرت کرنی ہے نہ ایک جھونپڑی میں بند ہوکر،،،
تیسری بات ایک شخص کی عزت کو بازار میں لانا،،،
چوتھی بات،،، ستر سال کے بعد ایک شخص کسی عورت یا لڑکی پر فدا ہونا جبکہ اس عمر میں انسان لاغر نہیں تو کم ازکم ایسی باتیں سوچ بھی نہیں سکتا
روٹی کا سلسلہ اور پھر توبہ اور توبہ اللہ تو قبول کرتا ہے لیکن اللہ کی غائب کی باتیں منظر عام میں کیسے آگئی کہ فلاں شخص کے ساتھ فلاں معاملہ اللہ رب العالمین نے کیا،، کیا قرآن الکریم میں یہ واقعہ کسی جگہہ لکھا ہے،،،
نہیں تو من گھڑت واقعے سے اسلام اور انسان میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہونے والی۔۔۔

انہی قصے کہانی کو لیکر ملحد قوم مسلمانوں کا مزاق اڑاتے پھرتے ہیں،،،
 
معلوم ہوا صدقہ اللہ کی نظر میں بڑی قدر والی چیز ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو بھی غریبوں مسکینوں کی مدد کرنے کی توفیق دے۔ آمین
ہمیں تو یہ معلوم ہوا کہ معاملات عبادات سے زیادہ وزن رکھتے ہیں۔ اللہ ہمیں تمام معاملات میں اپنی مخلوق کے ساتھ خیر کی توفیق عطا فرمائے!
آدم کی کسی روپ میں تحقیر نہ کرنا---
پھرتا ہے زمانے میں خدا بھیس بدل کر​
 
مجھے اس لڑی سے کوئی اتفاق نہیں ہے
ایک شخص ستر سال تک ایک جھونپڑی میں رہا، آج کل تو ایک پچاس سے ساٹھ سال تک کا شخص دوائی کے بغیر ازدواجی تعلق نہیں بناسکتا،،،
دوسری بات دنیا میں لوگوں کے درمیان رہ کر ہی فکرآخرت کرنی ہے نہ ایک جھونپڑی میں بند ہوکر،،،
تیسری بات ایک شخص کی عزت کو بازار میں لانا،،،
چوتھی بات،،، ستر سال کے بعد ایک شخص کسی عورت یا لڑکی پر فدا ہونا جبکہ اس عمر میں انسان لاغر نہیں تو کم ازکم ایسی باتیں سوچ بھی نہیں سکتا
روٹی کا سلسلہ اور پھر توبہ اور توبہ اللہ تو قبول کرتا ہے لیکن اللہ کی غائب کی باتیں منظر عام میں کیسے آگئی کہ فلاں شخص کے ساتھ فلاں معاملہ اللہ رب العالمین نے کیا،، کیا قرآن الکریم میں یہ واقعہ کسی جگہہ لکھا ہے،،،
نہیں تو من گھڑت واقعے سے اسلام اور انسان میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہونے والی۔۔۔

انہی قصے کہانی کو لیکر ملحد قوم مسلمانوں کا مزاق اڑاتے پھرتے ہیں،،،
بھائی، یہ حکایت ہے، حقیقت نہیں۔ مدعا صرف نصیحت ہے۔ آپ نے تو موشگافی کی انتہا کر دی۔
جہاں تک ملحدوں کا تعلق ہے، وہ ہر بات پہ مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ یہ قصہ حذف کر دیجیے تو کون سی دستار دے دیں گے وہ آپ کو؟ آپ چونکہ ان سے بحث کرتے رہتے ہیں اس لیے غالباً نیک نیتی سے اسلام کو سائنس بنا کر اپنے تئیں بچا لینا چاہتے ہیں۔ لیکن ادیان کا موازنہ فنون سے تو ہو سکتا ہے، سائنس اور فلسفہ سے ہرگز نہیں۔ فنون اور ادیان دونوں کا خطاب انسان کے دل سے ہوتا ہے۔ فلسفہ اور سائنس دماغ کو للکارتے ہیں۔ دل کے معاملات کو دل والوں تک رہنے دیں!
 

x boy

محفلین
بھائی، یہ حکایت ہے، حقیقت نہیں۔ مدعا صرف نصیحت ہے۔ آپ نے تو موشگافی کی انتہا کر دی۔
جہاں تک ملحدوں کا تعلق ہے، وہ ہر بات پہ مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ یہ قصہ حذف کر دیجیے تو کون سی دستار دے دیں گے وہ آپ کو؟ آپ چونکہ ان سے بحث کرتے رہتے ہیں اس لیے غالباً نیک نیتی سے اسلام کو سائنس بنا کر اپنے تئیں بچا لینا چاہتے ہیں۔ لیکن ادیان کا موازنہ فنون سے تو ہو سکتا ہے، سائنس اور فلسفہ سے ہرگز نہیں۔ فنون اور ادیان دونوں کا خطاب انسان کے دل سے ہوتا ہے۔ فلسفہ اور سائنس دماغ کو للکارتے ہیں۔ دل کے معاملات کو دل والوں تک رہنے دیں!


جس کا حقیقت سے تعلق نہ ہو اس کو بزرگوں کے نام سے جوڑ کے بزرگوں کی توہین کرتے ہیں، کیا ہمارے بزرگوان اس طرح فیری ٹیل لوگوں کو سناکر اسلام کا بول بالا کرتے تھے؟ بالکل نہیں،، سیدھی سادھی بات ستر سال جھونپڑی میں ایک شخص کیا کررہا تھا اللہ نے آزادی دی ہے اس نے اپنے آپ کو جیل میں کیوں بند کررکھا تھا،،،


نیکی صرف اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی
اطاعت کا نام ہے
صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ تین افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود نہ تھے ۔ انہوں نے پردے کے پیچھے سے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عبادت کے بارے میں پوچھا ، ان کی خواہش تھی کہ ہماری رات کی عبادت اس کا طریقہ اور اس کا وقت بھی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ اور وقت کے مطابق ہو ، بالکل ویسے کریں جیسے اللہ کے پیغمبر کیا کرتے تھے ۔
حدیث کے الفاظ ہیں : فلما اخبروا تقالوھا
جب انہیں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبادت کے بارے میں بتلایا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کو تھوڑا سمجھا ۔ پھر خود ہی کہا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام تو وہ برگزیدہ ہستی ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے تمام گناہ معاف کر دئیے ہیں اور ہم چونکہ گناہ گار ہیں لہٰذا ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئیے ۔ چنانچہ تینوں نے کھڑے کھڑے عزم کر لیا ۔

ایک نے کہا میں آج کے بعد رات کو کبھی نہیں سوؤں گا بلکہ پوری رات اللہ کی عبادت کرنے میں گزاروں گا ۔
دوسرے نے کہا میں آج کے بعد ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا ۔
تیسرے نے کہا میں آج کے بعد اپنے گھر نہیں جاؤنگا اپنے گھر بار اور اہل و عیال سے علیحدہ ہو جاؤں گا تا کہ ہمہ وقت مسجد میں رہوں ۔ چنانچہ تینوں یہ بات کہہ کر چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تشریف لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ تین افراد آئے تھے اور انہوں نے یوں عزم ظاہر کیا ۔
جب امام الانبیاءنے یہ بات سنی تو حدیث کے الفاظ ہیں : فاحمر وجہ النبی کانما فقع علی وجھہ حب الرمان ” نبی علیہ السلام کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا یوں لگتا تھا گویا سرخ انار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر نچوڑ دیا گیا ہے اتنے غصے کا اظہار فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں کو بلا کر پوچھا کہ تم نے یہ کیا بات کی ؟ کیا کرنے کا ارادہ کیا ؟ پھر نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے اپنا عمل بتایا کہ میں تو رات کو سوتا بھی ہوں اور جاگتا بھی ہوں ، نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میرا گھر بار ہے اور میری بیویاں ہیں ۔ میں انہیں وقت بھی دیتا ہوں اور اللہ کے گھر میں بھی آتا ہوں ۔ یہ میرا طریقہ اور سنت ہے جس نے میرے اس طریقے سے اعراض کیا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہ ہے ۔ یعنی جس نے اپنے طریقے پر چلتے ہوئے پوری پوری رات قیام کیا ۔ زمانے بھر کے روزے رکھے اور پوری عمر مسجد میں گزار دی اس کا میرے دین سے میری جماعت سے میری امت سے کوئی تعلق نہ ہو گا ۔ وہ دین اسلام سے خارج ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی محنت کا نام نہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام نیکی ہے ۔ ایک عمل اس وقت تک ” عمل صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تائید اور تصدیق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رد کر دیا ۔ کیونکہ وہ عمل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور منہج کے خلاف تھا ۔ یاد رہے کہ کوئی راستہ بظاہر کتنا ہی اچھا لگتا ہو اس وقت تک اس کو اپنانا جائز نہیں جب تک اس کی تصدیق و تائید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔
 

x boy

محفلین
۔

حکایاتِ رومی کیا ہیں پھر
اس کو کون مانتا ہے میرے لئے اللہ رب العزت، الکتاب قرآن الکریم، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافی ہے۔
رومی، صوفی، اوردیگر مولویوں کو نہ ماننے سے مسلمانوں کے ایمان میں کوئی کمی نہیں آتی۔
 
ہمیں تو یہ معلوم ہوا کہ معاملات عبادات سے زیادہ وزن رکھتے ہیں۔ اللہ ہمیں تمام معاملات میں اپنی مخلوق کے ساتھ خیر کی توفیق عطا فرمائے!
آدم کی کسی روپ میں تحقیر نہ کرنا---
پھرتا ہے زمانے میں خدا بھیس بدل کر​
اصل معاملہ اخلاص کا ہوتا ہے۔ جو بھی نیکی کا عمل جتنے زیادہ اخلاص سے کیا جائے گا اس کا اجر اتنا ہی زیادہ ہوگا۔
 
سیدھی سادھی بات ستر سال جھونپڑی میں ایک شخص کیا کررہا تھا اللہ نے آزادی دی ہے اس نے اپنے آپ کو جیل میں کیوں بند کررکھا تھا،،،
یہ غالباً کسی پچھلی امت کا واقعہ ہے۔ اصل بات نصیحت ہے جو اس حکایت میں بالکل واضح ہے ۔
 
بھائی، یہ حکایت ہے، حقیقت نہیں۔ مدعا صرف نصیحت ہے۔ آپ نے تو موشگافی کی انتہا کر دی۔
جہاں تک ملحدوں کا تعلق ہے، وہ ہر بات پہ مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ یہ قصہ حذف کر دیجیے تو کون سی دستار دے دیں گے وہ آپ کو؟ آپ چونکہ ان سے بحث کرتے رہتے ہیں اس لیے غالباً نیک نیتی سے اسلام کو سائنس بنا کر اپنے تئیں بچا لینا چاہتے ہیں۔ لیکن ادیان کا موازنہ فنون سے تو ہو سکتا ہے، سائنس اور فلسفہ سے ہرگز نہیں۔ فنون اور ادیان دونوں کا خطاب انسان کے دل سے ہوتا ہے۔ فلسفہ اور سائنس دماغ کو للکارتے ہیں۔ دل کے معاملات کو دل والوں تک رہنے دیں!
راحیل بھائی فلاسفہ اسلام پر فلسفے کی بنیاد پر اسلام پر پہلے بھی حملہ آور ہوتے رہے ہیں امام غزالی ، امام ماتریدی اور امام اشعری ان فلاسفہ کو عقلی اور منطقی اور فلسفیانہ بنیادوں پر شکست دینے کیوجہ سے ہی مشہور ہیں۔
 

x boy

محفلین
یہ غالباً کسی پچھلی امت کا واقعہ ہے۔ اصل بات نصیحت ہے جو اس حکایت میں بالکل واضح ہے ۔

ایسی نصیحت کیا اثر ہوگا جو حقیقت میں نہیں،،
پریکٹیکل ہونا ہے کراچی کے مضافات میں تقریبا 4 لاکھ لوگوں کو فلاح و بہبود والے صبح و شام کھانا کھلاتے ہیں یہ پریکٹیکل ہے
صدر، ٹاور، تمام بڑے بڑے مرکزی علاقوں میں لوگ روٹی اور مٹن بیف کھاتے ہیں یہ پریکٹیکل،،
ایک دفعہ تو ایسا ہوا دوشخص میرے پاس آئے اور کہا بھائی روٹی کھانی ہے ہم بہت دور سے آئے ہیں الحمدللہ میں نے ریسٹورانٹ والے کو پیسے دیئے اور ان بٹھادیا، میں نے یہ نہیں دیکھا کہ ان کی حالت اور اسٹنڈرڈ کیا تھا ایک پاکستانی نے دوسرے پاکستانی سے کہا بھائی کھانا کھلادو ہم بھوکے ہیں فقط اللہ کے لئے میں نے یہ کام کردیا ، اور یہ سب کام اللہ ہی کرواتا ہے۔
 
Top