فیض ایک دکنی غزل ۔ فیض احمد فیض

ایک دکنی غزل

کچھ پہلے ان آنکھوں آگے کیا کیانہ نظارے گزرے تھا
کیا روشن ہو جاتا تھی گلی جب یار ہمارا گزرے تھا

تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غم سے فرصت تھی
سب پو چھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا

اب کہ خزاں ایسی ٹھہری وہ سارے زمانے بھول گئے
جب موسم گل ہر پھیرے میں آ آ کے دوبارہ گزرے تھا

تھی یاروں کی بہتات تو ہم اغیار سے بھی بیزار نہ تھے
جب مل بیٹھے تو دشمن کا بھی ساتھ گوارا گزرے تھا

اب تو ہاتھ سجھائی نی دیوے، لیکن اب سے پہلے تو
آنکھ اٹھتے ہی ایک نظر میں عالم سارا گزرے تھا

فیض احمد فیض

 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ پیاسا صحرا ۔ آپ کی پوسٹ میں کچھ ٹائپنگ کی اغلاط تھیں انہیں درست کر کے دوبارہ پوسٹ کر رہا ہوں۔

ایک دکنی غزل

کچھ پہلے ان آنکھوں آگے کیا کیا نہ نظارا گزرے تھا
کیا روشن ہو جاتی تھی گلی جب یار ہمارا گزرے تھا

تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غم سے فرصت تھی
سب پوچھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا

اب کے تو خزاں ایسی ٹھہری وہ سارے زمانے بھول گئے
جب موسمِ گل ہر پھیرے میں آ آ کے دوبارا گزرے تھا

تھی یاروں کی بہتات تو ہم اغیار سے بھی بیزار نہ تھے
جب مل بیٹھے تو دشمن کا بھی ساتھ گوارا گزرے تھا

اب تو ہاتھ سجھائی نہ دیوے، لیکن اب سے پہلے تو
آنکھ اٹھتے ہی ایک نظر میں عالم سارا گزرے تھا

ماسکو اکتوبر 78

فیض احمد فیض
 
Top