ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ!

الف نظامی

لائبریرین
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ!
روزن دیوار سے
از عطاء الحق قاسمی
جس طرح ہمارے بلوچستان کے لوگ بجا طور پر احساس محرومی کا شکار ہیں اسی طرح میں بھی ایک حوالے سے احساس محرومی کا مارا ہواہوں۔ میرا احساس محرومی یہ ہے کہ اپنی طالب علمی کے زمانے میں مجھے صوفی تبسم صاحب سے پڑھنے کا اتفاق کیوں نہ ہوا کیونکہ ان کے شاگرد اپنے استاد کا ذکر جس محبت اور عقیدت سے کرتے ہیں اور بطور استاد ان کے ”فضائل“ جس طرح بیان کرتے ہیں اس سے میرے اندر احساس محرومی پیداہوتا ہے۔ صوفی صاحب کی شاگردی میں نہ آسکنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے لئے راوین ہونا ضروری تھا جبکہ میں راوین نہیں میں نے بی اے، ایم اے او کالج سے کیا تھا۔ البتہ میری بیوی اولڈ راوین ہے۔ کاش وہ صرف راوین ہوتی۔ ایم اے او کالج کا معاملہ یہ تھا کہ ایک دفعہ اعجاز حسین بٹالوی نے ایک طالب علم کے داخلے کی سفارش کے لئے مجھے اس کے ہاتھ ایک رقعہ بھیجا جس میں لکھا تھا: ”برادرم قاسمی صاحب! حامل رقعہ ہذا کا خیال ہے کہ انسان کو علم ضرور حاصل کرنا چاہئے خواہ اس کے لئے اسے ایم اے او کالج میں کیوں نہ جانا پڑے“ یہ اس زمانے کی بات ہے جب لڑکا وہاں فرسٹ ایئر میں داخلہ لیتا تھا اور فورتھ ایئر تک پہنچتے پہنچتے عموماً پولیس مقابلے میں مارا جاتا تھا تاہم پڑھائی مکمل کرکے وہاں بطور لیکچرر میری تعیناتی کے بعد صورتحال بدل گئی تھی۔ اس کے بعد کسی طالب علم کے نہیں استاد کے مارے جانے کا اندیشہ ہمیشہ لاحق رہتا تھا۔ تفنن برطرف، ایم ے او کالج اسلامیان ہند کا ایک قابل فخر تعلیمی ادارہ تھا جس کی بنیاد انجمن اسلامیہ نے امرتسر میں رکھی تھی اور فیض صاحب سے لے کر ڈاکٹر تاثیر تک اس عظیم ادارے سے بطور استاد وابستہ رہے ہیں۔ اس کے بعد سے بھی یہ ادارہ اپنے متعدد پرنسپل صاحبان ، اساتذہ کرام اور بہت سے ہونہار طالب علموں کی بدولت عزت و تکریم کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے!
خیر، اگرچہ مجھے صوفی صاحب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی لیکن ان سے ملاقات کا شرف ضرور حاصل رہا ہے۔ سوائے ایک ملاقات کے باقی اکثر ملاقاتیں مختصر دورانیئے کی ہوتی تھیں اور باعث ِ ملاقات مشاعرے بنتے تھے۔ یا ان سے سر راہے ملاقات ہو جاتی تھی البتہ ایک طویل ملاقات ان کی سمن آباد والی کوٹھی میں ہوئی تھی اور اس دوران وہ کافی دیر تک مجھ سے امرتسر، میرے والد صاحب مولانا بہاؤ الحق قاسمی اور میرے دادا مفتی غلام مصطفی قاسمی کی باتیں کرتے رہے۔ والد ماجد ایم اے او کالج اور ایم اے او ہائی سکول امرتسر سے 28 برس تک وابستہ رہے تھے، ویسے بھی امرتسر کے لوگ ایک گھرانے کی طرح رہتے تھے اور یوں ایک دوسرے سے شناسائیاں اور محبتیں بہت عام تھی۔ صوفی صاحب کے ساتھ میرے خاندان کا ایک رشتہ کشمیری ہونے کے ناتے بھی تھا اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ کشمیریوں کی نانی ایک ہوتی ہے، کسی دن مجھے صوفی صاحب اور اپنے شجرہ ٴ نسب میں پرنانی تلاش کرنا ہی پڑے گی بلکہ ایک دفعہ تو صوفیا صاحب کے داماد اور میرے دوست ماجد علی شاہ نے یہ فال ڈھونڈ ڈھانڈ کر نکال ہی لی تھی اور مجھے اس بارے میں بتایا بھی تھا۔
صوفی غلام مصطفی تبسم فارسی، اردو اور پنجابی زبان و ادب کے وہ خواص تھے جو ان سمندروں سے وہ موتی نکال کر لاتے تھے جن کی چمک آنکھوں کوخیرہ کردیتی تھی، وہ اپنے طالب علموں کی جھولیاں ان موتیوں سے بھر دیتے تھے۔ صرف طالب علم نہیں بلکہ اہل علم بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ان کے علم سے فیض یاب ہوتے مگر اس کے باوجود ان میں وہ ”خشکی“ نہیں پائی جاتی تھی جوزیادہ پڑھ لکھ جانے سے کچھ دماغوں میں پیدا ہوجاتی ہے اورپھر ان کی صحبت میں بیٹھنے والوں کو لگتاہے کہ انہوں نے وہ وقت کسی انسان کے ساتھ نہیں بلکہ کسی بسّے ہوئے کریلے کی محبت میں گزارا ہے۔ اس کے برعکس صوفی صاحب اپنے تمام تر علم و فضل کے باوجود نہایت شگفتہ طبیعت کے مالک تھے۔ وہ پھلجھڑیاں چھوڑتے بھی تھے اور پھلجھڑیوں سے لطف اندوز بھی ہوتے تھے۔ ایک بار میں نے بھی لبرٹی لیتے ہوئے اپنے کالم میں صوفی صاحب کی ایک میٹھی سی چٹکی لی مگر پھر ڈر کے مارے ان کے سامنے آنے سے گریز کرنے لگا۔ ایک روز میں انارکلی سے نیلاگنبد کی طرف آرہا تھا کہ ناگاہ میری نظر صوفی صاحب پر پڑی وہ ٹائروں کی دکانوں کے ساتھ چلتے چلتے میری طرف ہی آ رہے تھے۔ میں ابھی وہاں سے دوڑ لگانے کی سوچ ہی رہا تھا کہ صوفی صاحب نے مجھے پکارا ”اوئے ایدھر آ“ میں سر جھکائے گربہ ٴ مسکین بنا ان کے پاس گیا۔ انہوں نے ایک ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا اور کہا ”وہ تم نے اپنے کالم میں کیا لکھا تھا؟“ میں نے منمناتے ہوئے کہا ”کچھ نہیں جی! بس ایسے ہی!“ یہ سن کرصوفی صاحب نے اپنے جھالروں والے سر کے ”میدانی حصے“ میں ہاتھ پھیرتے اور ہنستے ہوئے کہا ”توں بڑا…“ اگلا لفظ میں چھوڑ رہاہوں۔ صوفی صاحب سے ملنے والے جانتے ہیں کہ وہ لفظ کیا تھا اور انہیں یہ بھی علم ہے کہ اس لفظ کا استعمال عموماً شاباش دینے کے لئے ہی کیا کرتے تھے۔
تاہم ایک دفعہ میں نے صوفی صاحب کو ایک مشاعرے کے دوران جو پنجاب آرٹس کونسل کے زیراہتمام ہو رہا تھا ، غصے میں بھی دیکھا لیکن ان کے اس غصے کو سٹیج پر موجود ہم سب شعراء نے بہت انجوائے کیا کیونکہ اس میں ہم سب کے غصے کی نمائندگی بھی موجود تھی۔ دراصل اس مشاعرے میں لاہور کے ایک شاعر بھی موجود تھے جو مسلم لیگ کی حکومت میں اپنی جناح کیپ اور پیپلزپارٹی کی حکومت میں اپنی ماؤ کیپ سے لوگوں کو ڈراتے رہتے تھے۔ وہ جب سٹیج پر کلام سنانے کے لئے تشریف لائے تو ایک بے ہودہ قسم کی نظم پڑھی جو سامعین نے بمشکل ہضم کی۔اس کے بعد جب وہ دوسری نظم پڑھنے لگے تو لوگوں نے انہیں ہوٹ کرنا شروع کردیا۔ صدر ِمشاعرہ صوفی صاحب نے انہیں مخاطب کرکے آہستہ سے کہا ”اب واپس آجاؤ“ لیکن جو شاعر اپنے کلام کے نشے میں دھت ہو وہ کسی کی کب سنتا ہے چنانچہ موصوف نے نظم جاری رکھی۔ صوفی صاحب نے ایک مرتبہ پھر انہیں واپس آنے کے لئے کہا لیکن اس بار بھی انہوں نے نہ صرف یہ کہ سنی اَن سنی کر دی بلکہ تیسری نظم کے لئے بھی سٹارٹ لے لیا۔ اس پر صوفی صاحب جھنجھلا کر اپنی صدارتی نشست سے کھسکتے کھسکتے ان کی طرف بڑھے اور ان کی قمیص پیچھے سے کھینچتے ہوئے بآواز بلند غصے سے کہا ”توں واپس آنا کہ نئیں“ جس پر ساراہال زعفران زار بن گیا! گویا صوفی صاحب کا غصہ بھی رنگ میں بھنگ ڈالنے والا نہیں بلکہ محفل کی رونق میں اضافے کا باعث بنا۔
میں صوفی صاحب کی شخصیت کا جو تہذیبی پہلو ہے اس کا بھی بہت مداح ہوں۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن ان کی خوبصورت غزلیں ،ان کے تراجم، ان کے علمی مضامین اور ایک اعلیٰ درجے کا استاد ہونا، ان کی ہمہ جہت شخصیت کے ایسے پہلو ہیں کہ ان کا احاطہ ایک مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں۔ ان کے صرف یہ دو شعر ہی ان کا شعری مقام متعین کرنے کے لئے کافی ہیں:

سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی

اور جو کچھ وہ بچوں کے لئے لکھ گئے ہیں پورے اردو ادب میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ وہ کون سا بچہ، جوان یا بوڑھا ہے جسے ”ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ“ یاد نہ ہو چنانچہ جب فوزیہ تبسم نے مجھے کہا کہ وہ صوفی تبسم کی برسی پر ایک تقریب منعقد کرنا چاہتی ہیں تو مجھے بہت عجیب سا لگا کیونکہ برسی تو مرحومین کی منائی جاتی ہے جبکہ صوفی صاحب تو ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ بہتر ہوگا کہ آئندہ برسی کی بجائے صوفی صاحب کی سالگرہ منائی جائے اور کوئی پیارا سا گول مٹول سا ٹوٹ بٹوٹ سالگرہ کا کیک کاٹے۔
(صوفی تبسم اکیڈمی کے زیراہتمام منعقدہ تقریب میں پڑھا گیا)
بحوالہ روزنامہ جنگ
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ نظامی صاحب ۔ مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میں اس اجلاس میں شریک کیوں نہ تھا جس میں‌یہ مضمون پڑھا گیا۔
 
Top