ایک تکبندی برائے اصلاح

نہیں اب سخن میں وہ لذت یقینا
اسے چاہئے کوئی جدت یقینا

شمیم وفا ہے نہ بوئے سخن ہے
خفا ہے چمن سے وہ نگہت یقینا

ہواؤں میں اک بے کلی ہے عجب سی
ہوا دشت سے قیس رخصت یقینا

گلستاں گلستاں ہے خوشبو ہی خوشبو
کسی زلف کی ہے یہ نکہت یقینا

کسی کے خیالوں میں رہتے ہیں گم سم
انہیں ہوگئی ہے محبت یقینا

یہ سرخی یہ کاجل یہ کنگن یہ پایل
نہیں تم کو ان کی ضرورت یقینا

کہے آئینہ ہر کسی سے، نہیں ہے
کوئی آپ سا خوبصورت یقینا

رحیم ساگر
 
Top