ایک تازہ غزل - آرزوئے بہار لاحاصِل

محمد وارث

لائبریرین
جُملہ کچھ 'بالغانہ' سا ہے لیکن لکھنے میں عار کچھ یوں نہیں کہ فرمودۂ قبلہ و کعبہ جنابِ حضرتِ علامہ اقبال علیہ الرحمہ ہے اور بلاگ کے قارئین میں (اور یہاں محفل پر بھی) کوئی "نابالغ" بھی نہیں۔ اپنی وفات سے کچھ ماہ قبل جب کہ آپ شدید بیمار تھے اور اپنی طویل بیماری سے انتہائی بیزار، سید نذیر نیازی، جن کے ذمّے علامہ کے اشعار کی ترتیب و تسوید تھی، کو فرماتے ہیں "آمدِ شعر کی مثال ایسی ہے جیسے تحریکِ جنسی کی، ہم اسے چاہیں بھی تو روک نہیں سکتے۔" آخر الذکر" تحریک کے متعلق ہمیں علامہ سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو، اول الذکر سے مکمل اتفاق ہے۔

شاعر بیچاروں کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ اگر ان پر کچھ اشعار کا نزول ہو جائے تو اپنی اس خود کلامی کو "خود ساختہ" کلام کا نام دے کر سرِ بازار ضرور رکھ دیتے ہیں، سو اپنی ایک نئی غزل لکھ رہا ہوں۔ پانچ ہی شعر لکھ پایا، مزید لکھنے کا ارادہ تھا لیکن پھر اس غزل کیلیے تحریک ہی پیدا نہیں ہوئی، عرض کیا ہے۔

آرزوئے بہار لاحاصِل
عشقِ ناپائدار لاحاصِل


قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے
تیرا ہونا نثار لاحاصِل


ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے
نیکیوں کا شمار لاحاصِل


دلِ دنیا ہے سنگِ مرمر کا
لاکھ کر لو پکار، لاحاصِل


شعر و گُل میں ڈھلے اسد لمحے

کب رہا انتظار لاحاصِل
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ بہت خوبصورت غزل ہے وارث صاحب۔ لیکن اس غزل کو پڑھ کر مجھے بانوقدسیہ کے ناول راجہ گدھ کا عشقِ لاحاصل یاد آگیا۔ آپ نے بھی تقریبا وہی خیالات بیان کیے جو بانو آپا نے اپنے ناول میں کئے تھے اور اس وقت بانو آپا یقینا" آپ کی عمر کی رہی ہوں گی۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
اچھے اشعار ہیں وارث، لیکن یار میری نظر کم بخت اغلاط پر ہی پڑتی ہے، اس نظر کو کیا کروں؟
چوتھا شعر محلِ نظر ہے۔
محاورہ کر لو پکار کیا ہوتا ہے، ہم لوگ تو اردو میں محض پکارتے ہیں، یا پکار لیتے ہیں، پکار کرتے نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نوازش فرخ صاحب، یا یہ کہ میں اب بانو قدسیہ کی "اس عمر" تک پہنچ گیا ہوں :)

بہت شکریہ اعجاز صاحب۔

"پکار کرنا [ار، محاورہ] (1) فریاد کرنا۔ (2) غل کرنا، شور کرنا۔"

علمی اردو لغت از وارث سرہندی
 

آصف شفیع

محفلین
وارث صاحب، مبارک ہو نئی غزل پر۔ غزل لاحاصلی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ عمدہ غزل ہے۔ ابھی تک بہت کم آرا آئی ہیں۔ چلیں ہم ہی سلسہ آگے بڑھاتے ہیں۔

آرزوئے بہار لاحاصِل
عشقِ ناپائدار لاحاصِل
( کیا عشق پائدار کا نا پائدار سے۔۔۔ اقبال یاد آرہا ہے)

قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے
تیرا ہونا نثار لاحاصِل
( یعنی پروانے کا نثار ہونا اس کی فطرت ہے۔ اس میں کوئی کمال کی بات نہیں؟ یہی مفہوم ہے غالبا۔ لیکن یہ فطرت بھی تو ہر اک کو نصیب نہیں ہوتی)

ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے
نیکیوں کا شمار لاحاصِل
( بہت خوب۔ اچھا مضمون باندھا ہے)
دلِ دنیا ہے سنگِ مرمر کا
لاکھ کر لو پکار، لاحاصِل
( سنگِ مر مر ہی کیوں؟عام پتھر کیوں نہیں۔ عام پتھر زیادہ سخت ہوتا ہے۔ شاید سنگِ مر مر خوبصورت بھی ہوتا ہے اور سخت بھی۔ اس لیے باندھا ہے؟)
شعر و گُل میں ڈھلے اسد لمحے
کب رہا انتظار لاحاصِل
( بہت خوب ۔ آخر لاحاصلی کا بھی کوئی حاصل نکل ہی آیا)
 

محمداحمد

لائبریرین
وارث بھائی،

ماشاءاللہ بہت اچھی غزل ہے۔ خاص طور پر یہ شعر:

شعر و گُل میں ڈھلے اسد لمحے
کب رہا انتظار لاحاصِل


واہ بہت خوب۔ داد حاضر ہے۔
 

مغزل

محفلین
جُملہ کچھ 'بالغانہ' سا ہے لیکن لکھنے میں عار کچھ یوں نہیں کہ فرمودۂ قبلہ و کعبہ جنابِ حضرتِ علامہ اقبال علیہ الرحمہ ہے اور بلاگ کے قارئین میں (اور یہاں محفل پر بھی) کوئی "نابالغ" بھی نہیں۔ اپنی وفات سے کچھ ماہ قبل جب کہ آپ شدید بیمار تھے اور اپنی طویل بیماری سے انتہائی بیزار، سید نذیر نیازی، جن کے ذمّے علامہ کے اشعار کی ترتیب و تسوید تھی، کو فرماتے ہیں "آمدِ شعر کی مثال ایسی ہے جیسے تحریکِ جنسی کی، ہم اسے چاہیں بھی تو روک نہیں سکتے۔" آخر الذکر" تحریک کے متعلق ہمیں علامہ سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو، اول الذکر سے مکمل اتفاق ہے۔

شاعر بیچاروں کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ اگر ان پر کچھ اشعار کا نزول ہو جائے تو اپنی اس خود کلامی کو "خود ساختہ" کلام کا نام دے کر سرِ بازار ضرور رکھ دیتے ہیں، سو اپنی ایک نئی غزل لکھ رہا ہوں۔ پانچ ہی شعر لکھ پایا، مزید لکھنے کا ارادہ تھا لیکن پھر اس غزل کیلیے تحریک ہی پیدا نہیں ہوئی، عرض کیا ہے۔

آرزوئے بہار لاحاصِل
عشقِ ناپائدار لاحاصِل

قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے
تیرا ہونا نثار لاحاصِل

ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے
نیکیوں کا شمار لاحاصِل

دلِ دنیا ہے سنگِ مرمر کا
لاکھ کر لو پکار، لاحاصِل

شعر و گُل میں ڈھلے اسد لمحے
کب رہا انتظار لاحاصِل


آداب ۔

معلوم حقیقتوں کا بیان ہماری شاعری کا عمومی حصہ ہے اس سے قطع نظر کہ بہت کم ایسے شعراءایسے خوش فکر ہوتے ہیں کہ ان کے ہاں سوز و گداز و گداختہ وارداتِ قلبی کے ہمراہ ظہوریاب ہوتے ہیں، داخلی و خارجی عوامل کو احوالِ واقعی کی بھٹیوں سے گزار کر نطق و سخن کاحوالہ دیا جائے تو شعر میں وہ بلاغت ومفاہیم در آتے ہیں جن کا عموماً شاعر کو بھی ادراک نہیں ہوتا،خالصتاِ وارداتِ قلبی کی آئینہ دار یہ اشعار اپنی معنویت میں ایک اور ہی جہانِ فراموش کردہ کا احوال لیے ہوئے ہیں، گوکہ فلسفہِ بود و نبود، وجود و عدم وجود کی لفظیات کی حشر سامانیوں سے مبرا یہ اشعار اپنے تئیں سیدھا دل میں جاگزیں ہوتے ہیں مگر مفاہیم کے وہ در کھولتے ہیں کہ جنہیں کم از کم مجھ ایسا جہل مرتبت سپردِ قرطاس کرنے سے معذور ہے ہاں میں اپنے آپ پر لطائفِ قلبی کے وہ در کھلتے دیکھ سکتا ہوں جو شاید میری ہی طبیعت کے عکاس ہیں،مجرد کو مشخص کرنا ، علامات کا استعمال اور لفظوں کا دروبست بہت اعلیٰ ہے ، امید ہے مزید اشعار بھی لذتِ روح و دل کو میسر ہونگے ، کلامِ ” اسد“ نظام پر مجھ حقیر کی جانب سے ہدیہ تحسین پیش ہے ۔
گر وقبول افتد زہے عزو شرف
عاجز و احقر
م۔م۔مغل
 

مغزل

محفلین
وارث صاحب، مبارک ہو نئی غزل پر۔ غزل لاحاصلی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ عمدہ غزل ہے۔ ابھی تک بہت کم آرا آئی ہیں۔ چلیں ہم ہی سلسہ آگے بڑھاتے ہیں۔

آرزوئے بہار لاحاصِل
عشقِ ناپائدار لاحاصِل
( کیا عشق پائدار کا نا پائدار سے۔۔۔ اقبال یاد آرہا ہے)

قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے
تیرا ہونا نثار لاحاصِل
( یعنی پروانے کا نثار ہونا اس کی فطرت ہے۔ اس میں کوئی کمال کی بات نہیں؟ یہی مفہوم ہے غالبا۔ لیکن یہ فطرت بھی تو ہر اک کو نصیب نہیں ہوتی)

ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے
نیکیوں کا شمار لاحاصِل
( بہت خوب۔ اچھا مضمون باندھا ہے)
دلِ دنیا ہے سنگِ مرمر کا
لاکھ کر لو پکار، لاحاصِل
( سنگِ مر مر ہی کیوں؟عام پتھر کیوں نہیں۔ عام پتھر زیادہ سخت ہوتا ہے۔ شاید سنگِ مر مر خوبصورت بھی ہوتا ہے اور سخت بھی۔ اس لیے باندھا ہے؟)
شعر و گُل میں ڈھلے اسد لمحے
کب رہا انتظار لاحاصِل
( بہت خوب ۔ آخر لاحاصلی کا بھی کوئی حاصل نکل ہی آیا)

آصف شفیع صاحب ، آپ کا تفہیم کرنے کا رنگ خوب ہے ، جزاک اللہ ، سدا خوش رہیں جناب
 
Top