ایک تاذہ واردات غزلیہ،'' جی اُٹھیں گے وہ سبھی جان بلب ، دیکھ ذرا''

جی اُٹھیں گے وہ سبھی، جان بلب، دیکھ ذرا
ماجرا ہے تو یہ مانا کہ عجب، دیکھ ذرا
جس سے ملنے کو جتن لاکھ کیے تھے میں نے
اُ س سے بچھڑا ہوں تو بس ایک سبب ، دیکھ ذرا
فائدہ کیا ہے جو دیکھے گا مرے بعد کبھی
دیر ہو جائے نہ انجان تو اب، دیکھ ذرا
مانگنا اور کسے کہتے ہیں، بتلاو سہی؟
ہاتھ پھیلائے کھڑا ہوں میں یہ رب، دیکھ ذرا
پوچھتے کیا ہو نگاہوں کو جھکانے کا سبب
جانتا ہوں میں مری حد ادب، دیکھ ذرا
دوستوں پر بھی بھروسہ میں کروں کیا اظہر؟
دشمنوں کے سے ہوئے یار کسب ، دیکھ ذرا
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہ
بہت خوب

جس سے ملنے کو جتن لاکھ کیے تھے میں نے
اُ س سے بچھڑا ہوں تو بس ایک سبب ، دیکھ ذرا
 

الف عین

لائبریرین
مجھے تمہاری اس قسم کی زمینیں پسند نہیں آتیں۔
جی اُٹھیں گے وہ سبھی، جان بلب، دیکھ ذرا
ماجرا ہے تو یہ مانا کہ عجب، دیکھ ذرا
÷÷ دوسرا مصرع وضاحت طلب ہے۔
جس سے ملنے کو جتن لاکھ کیے تھے میں نے
اُ س سے بچھڑا ہوں تو بس ایک سبب ، دیکھ ذرا
÷÷دوسرے مصرع میں ایک لفظ کی کمی ہے
اُ س سے بچھڑا ہوں تو ہے ایک سبب ، دیکھ ذرا
فائدہ کیا ہے جو دیکھے گا مرے بعد کبھی
دیر ہو جائے نہ انجان تو اب، دیکھ ذرا
۔۔دوسرا مصرع عجیب اوبڑ کھابڑ ہے۔ لفظ انجان بھرتی کا ہے۔
مانگنا اور کسے کہتے ہیں، بتلاو سہی؟
ہاتھ پھیلائے کھڑا ہوں میں یہ رب، دیکھ ذرا
÷÷درست
پوچھتے کیا ہو نگاہوں کو جھکانے کا سبب
جانتا ہوں میں مری حد ادب، دیکھ ذرا
÷÷درست
دوستوں پر بھی بھروسہ میں کروں کیا اظہر؟
دشمنوں کے سے ہوئے یار کسب ، دیکھ ذرا
یارِ کسب؟​
 
مجھے تمہاری اس قسم کی زمینیں پسند نہیں آتیں۔
جی اُٹھیں گے وہ سبھی، جان بلب، دیکھ ذرا​
ماجرا ہے تو یہ مانا کہ عجب، دیکھ ذرا​
÷÷ دوسرا مصرع وضاحت طلب ہے۔​
معذرت قبول کیجیے کہ زمین میں چنتا نہیں وارد ہوتی ہے ، کیا کروں؟ شعر مطلع کا تبدیل کیے دیتا ہوں جناب
عشق پر ہجر کا کیسا ہے غضب، دیکھ ذرا
مر مٹے ہیں پہ نہیں وصل کی شب، دیکھ ذرا
جس سے ملنے کو جتن لاکھ کیے تھے میں نے​
اُ س سے بچھڑا ہوں تو بس ایک سبب ، دیکھ ذرا​
÷÷دوسرے مصرع میں ایک لفظ کی کمی ہے​
اُ س سے بچھڑا ہوں تو ہے ایک سبب ، دیکھ ذرا​
جی بہتر
جس سے ملنے کو جتن لاکھ کیے تھے میں نے
اُ س سے بچھڑا ہوں تو ہے ایک سبب ، دیکھ ذرا
فائدہ کیا ہے جو دیکھے گا مرے بعد کبھی​
دیر ہو جائے نہ انجان تو اب، دیکھ ذرا​
۔۔دوسرا مصرع عجیب اوبڑ کھابڑ ہے۔ لفظ انجان بھرتی کا ہے۔​
جی یہ شعر تبدیل کیے دیتا ہوں
ساتھ مانگا ہے ترا، اور نہیں کچھ مطلوب
مدعا دیکھ سہی، میری طلب دیکھ ذرا
مانگنا اور کسے کہتے ہیں، بتلاو سہی؟​
ہاتھ پھیلائے کھڑا ہوں میں یہ رب، دیکھ ذرا​
÷÷درست​
پوچھتے کیا ہو نگاہوں کو جھکانے کا سبب​
جانتا ہوں میں مری حد ادب، دیکھ ذرا​
÷÷درست​
دوستوں پر بھی بھروسہ میں کروں کیا اظہر؟​
دشمنوں کے سے ہوئے یار کسب ، دیکھ ذرا​
یارِ کسب؟​
وہ یار کے بعد ، ڈالنا یاد نہیں رہا کسب یعنی کرتوت، پھر بھی تھوڑا تبدیل کیے دیتا جی
دوستوں پر بھی بھروسہ میں کروں کیا اظہر؟
دشمنوں کے سے ہیں اب اُن کےکسب ، دیکھ ذرا

گویا اب صورتحال کچھ یوں بنی جناب

عشق پر ہجر کا کیسا ہے غضب، دیکھ ذرا
مر مٹے ہیں پہ نہیں وصل کی شب، دیکھ ذرا
حسن کی ایک نظر پای قیامت ہو گی
جی اُٹھیں گے وہ سبھی، جان بلب، دیکھ ذرا
اُس کی نفرت نے محبت کو کبھی کم نہ کیا
ماجرا ہے تو یہ مانا کہ عجب، دیکھ ذرا
جس سے ملنے کو جتن لاکھ کیے تھے میں نے
اُ س سے بچھڑا ہوں تو ہے ایک سبب ، دیکھ ذرا
ساتھ مانگا ہے ترا، اور نہیں کچھ مطلوب
مدعا دیکھ سہی، میری طلب دیکھ ذرا
مانگتا ہوں میں محبت جو نہیں پاس مرے
ہاتھ پھیلائے کھڑا ہوں میں یہ رب، دیکھ ذرا
پوچھتے کیا ہو نگاہوں کو جھکانے کا سبب
میرا برتاو، مری حد ادب، دیکھ ذرا
دوستوں پر بھی بھروسہ میں کروں کیا اظہر؟
دشمنوں کے سے ہیں اب اُن کےکسب ، دیکھ ذرا
 
مزید کچھ تبدیلیاں

عشق پر ہجر کا کیسا ہے غضب، دیکھ ذرا
مر مٹے ہیں پہ نہیں وصل کی شب، دیکھ ذرا
حسن کی ایک نظر حشر بپا کردے گی
جی اُٹھیں گے وہ سبھی، جان بلب، دیکھ ذرا
اُس کی نفرت نے محبت کو کبھی کم نہ کیا
ماجرا کیا ہے یہ کیسا ہے عجب، دیکھ ذرا
جس سے ملنے کو جتن لاکھ کیے تھے میں نے
اُ س سے بچھڑا ہوں تو ہے ایک سبب ، دیکھ ذرا
ساتھ مانگا ہے ترا، اور نہیں کچھ مطلوب
مدعا دیکھ مرا، میری طلب دیکھ ذرا
ختم ہونے کو نہیں آٴے یہاں رنجُ الم
چھیڑ بیٹھا ہوں مگر بزم طرب دیکھ ذرا
پوچھتے کیا ہو نگاہوں کو جھکانے کا سبب
میرا برتاو، مری حد ادب، دیکھ ذرا
دوست دشمن میں نہیں فرق رہا اب کوٴی
سامنے دیکھ کے اظہر تُو عقب ، دیکھ ذرا
 

الف عین

لائبریرین
وارد تو پہلا شعر ہوتا ہے، اس کے بعد زیادہ تر یوں ہوتا ہے کہ زمین گونجتی رہتی ہے ذہن میں اور مزید آمد ہوتی رہتی ہے، کچھ آورد بھی۔ لیکن اس قسم کے شعر کا ورود ہو بھی تو زمین بدل دیا کرو، تاکہ خواہ مخواہ ’اٹھا پٹک‘ نہیں کرنی پڑے۔ اس غزل میں مستقل یہی احساس ہوتا ہے۔

عشق پر ہجر کا کیسا ہے غضب، دیکھ ذرا
مر مٹے ہیں پہ نہیں وصل کی شب، دیکھ ذرا
حسن کی ایک نظر حشر بپا کردے گی
جی اُٹھیں گے وہ سبھی، جان بلب، دیکھ ذرا
÷÷÷ پرانے مطلع کو دو اشعار میں بدلا گیا ہے۔ مطلع تو اب بھی واضح نہیں۔ دوسرا شعر درست ہے۔
اُس کی نفرت نے محبت کو کبھی کم نہ کیا
ماجرا کیا ہے یہ کیسا ہے عجب، دیکھ ذرا
÷÷نیا شعر ہے۔ اور ’حسبِ معمول‘ واضح نہیں۔
’کیسا ہے عجب‘ کیا محاورہ ہے؟ لیکن جب ’ماجرا کیا ہے‘ سے معلوم ہوا کہ یہ معلوم ہی نہیں کہ ماجرا کیا ہے، تو یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کیسا عجب ہے؟
جس سے ملنے کو جتن لاکھ کیے تھے میں نے
اُ س سے بچھڑا ہوں تو ہے ایک سبب ، دیکھ ذرا
ساتھ مانگا ہے ترا، اور نہیں کچھ مطلوب
مدعا دیکھ مرا، میری طلب دیکھ ذرا
ختم ہونے کو نہیں آٴے یہاں رنجُ الم
چھیڑ بیٹھا ہوں مگر بزم طرب دیکھ ذرا
÷÷ نیا شعر ہے، بزمِ طرب نہیں، سازِ طرب چھیڑا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ املا کی طرف بھی اشارہ کروں۔ یہ واو عطف ہے، پیش کی جگہ نہیں۔ یعنی رنج و الم۔ تین الفاظ ہیں۔ اس کے علاوہ درمیانی ہمزہ کے لئے یہ اوپر والی ہمزہ کا استعمال مت کیا کرو، ’ئ‘ استعمال کی جاتی ہے یونی کوڈ میں، جو یو کی کنجی پر ہے، ’آئے‘۔
پوچھتے کیا ہو نگاہوں کو جھکانے کا سبب
میرا برتاو، مری حد ادب، دیکھ ذرا
÷÷درست، اگرچہ تبدیلی کی ضرورت نہیں تھی۔
دوست دشمن میں نہیں فرق رہا اب کوٴی
سامنے دیکھ کے اظہر تُو عقب ، دیکھ ذرا
÷÷ دوسرا مصرع رواں نہیں، اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے
دوست دشمن میں نہیں فرق رہا اب اظہر
وہ ترے پیش نظر ہو کہ عقب ، دیکھ ذرا
یہ محض ایک نا پختہ کوشش ہے، شعر اب بھی رواں نہیں ہے، کچھ اور بہتر سوچا جا سکتا ہے۔
 
وارد تو پہلا شعر ہوتا ہے، اس کے بعد زیادہ تر یوں ہوتا ہے کہ زمین گونجتی رہتی ہے ذہن میں اور مزید آمد ہوتی رہتی ہے، کچھ آورد بھی۔ لیکن اس قسم کے شعر کا ورود ہو بھی تو زمین بدل دیا کرو، تاکہ خواہ مخواہ ’اٹھا پٹک‘ نہیں کرنی پڑے۔ اس غزل میں مستقل یہی احساس ہوتا ہے۔
جی بہتر ہے جناب آئندہ کوشش کروں گا

عشق پر ہجر کا کیسا ہے غضب، دیکھ ذرا
مر مٹے ہیں پہ نہیں وصل کی شب، دیکھ ذرا
حسن کی ایک نظر حشر بپا کردے گی
جی اُٹھیں گے وہ سبھی، جان بلب، دیکھ ذرا
÷÷÷ پرانے مطلع کو دو اشعار میں بدلا گیا ہے۔ مطلع تو اب بھی واضح نہیں۔ دوسرا شعر درست ہے۔
مطلع میں کہنا یہ تھا کہ ہجر نے عشق پر غضب ڈھا رکھا ہے، کہ مر مٹنے کی نوبت آ چکی پر وصل نصیب نہیں ہوا

اُس کی نفرت نے محبت کو کبھی کم نہ کیا
ماجرا کیا ہے یہ کیسا ہے عجب، دیکھ ذرا
÷÷نیا شعر ہے۔ اور ’حسبِ معمول‘ واضح نہیں۔
’کیسا ہے عجب‘ کیا محاورہ ہے؟ لیکن جب ’ماجرا کیا ہے‘ سے معلوم ہوا کہ یہ معلوم ہی نہیں کہ ماجرا کیا ہے، تو یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کیسا عجب ہے؟
جی تبدیل کیے دیتا ہوں
دیکھتا روز تماشا ہوں نیا میں بھی یہاں
میرا کچھ ساتھ تو دے، تُو بھی یہ سب دیکھ ذرا
جس سے ملنے کو جتن لاکھ کیے تھے میں نے
اُ س سے بچھڑا ہوں تو ہے ایک سبب ، دیکھ ذرا
ساتھ مانگا ہے ترا، اور نہیں کچھ مطلوب
مدعا دیکھ مرا، میری طلب دیکھ ذرا
ختم ہونے کو نہیں آٴے یہاں رنجُ الم
چھیڑ بیٹھا ہوں مگر بزم طرب دیکھ ذرا
÷÷ نیا شعر ہے، بزمِ طرب نہیں، سازِ طرب چھیڑا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ املا کی طرف بھی اشارہ کروں۔ یہ واو عطف ہے، پیش کی جگہ نہیں۔ یعنی رنج و الم۔ تین الفاظ ہیں۔ اس کے علاوہ درمیانی ہمزہ کے لئے یہ اوپر والی ہمزہ کا استعمال مت کیا کرو، ’ئ‘ استعمال کی جاتی ہے یونی کوڈ میں، جو یو کی کنجی پر ہے، ’آئے‘۔
جی بہتر تبدیل کیے دیتا ہوں جناب
ختم ہونے کو نہیں آے ابھی میرے الم
چھیڑ بیٹھا ہوں مگر ساز طرب دیکھ ذرا
پوچھتے کیا ہو نگاہوں کو جھکانے کا سبب
میرا برتاو، مری حد ادب، دیکھ ذرا
÷÷درست، اگرچہ تبدیلی کی ضرورت نہیں تھی۔
دوست دشمن میں نہیں فرق رہا اب کوٴی
سامنے دیکھ کے اظہر تُو عقب ، دیکھ ذرا
÷÷ دوسرا مصرع رواں نہیں، اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے
دوست دشمن میں نہیں فرق رہا اب اظہر
وہ ترے پیش نظر ہو کہ عقب ، دیکھ ذرا
یہ محض ایک نا پختہ کوشش ہے، شعر اب بھی رواں نہیں ہے، کچھ اور بہتر سوچا جا سکتا ہے۔
بہتر جناب اسے تبدیل کیے دیتا جی
تاک میں دوست بھی دشمن بھی ہیں تیرے اظہر
اب ترے پیش نظر ہو کہ عقب، دیکھ ذرا

گویا اب کچھ یوں ہے جناب

عشق پر ہجر کا کیسا ہے غضب، دیکھ ذرا
مر مٹے ہیں پہ نہیں وصل کی شب، دیکھ ذرا
حسن کی ایک نظر حشر بپا کردے گی
جی اُٹھیں گے وہ سبھی، جان بلب، دیکھ ذرا
دیکھتا روز تماشا ہوں نیا میں بھی یہاں
میرا کچھ ساتھ تو دے، تُو بھی یہ سب دیکھ ذرا
جس سے ملنے کو جتن لاکھ کیے تھے میں نے
اُ س سے بچھڑا ہوں تو ہے ایک سبب ، دیکھ ذرا
ساتھ مانگا ہے ترا، اور نہیں کچھ مطلوب
مدعا دیکھ مرا، میری طلب دیکھ ذرا
ختم ہونے کو نہیں آے ابھی میرے الم
چھیڑ بیٹھا ہوں مگر ساز طرب دیکھ ذرا
پوچھتے کیا ہو نگاہوں کو جھکانے کا سبب
میرا برتاو، مری حد ادب، دیکھ ذرا
تاک میں دوست بھی دشمن بھی ہیں تیرے اظہر
اب ترے پیش نظر ہو کہ عقب، دیکھ ذرا
 

الف عین

لائبریرین
گویا اب کچھ یوں ہے جناب

عشق پر ہجر کا کیسا ہے غضب، دیکھ ذرا
مر مٹے ہیں پہ نہیں وصل کی شب، دیکھ ذرا
÷÷ یوں واضح ہو سکتا ہے:
مر مٹے پر نہ ملی وصل کی شب، دیکھ ذرا
اگرچہ ’دیکھ ذرا‘ تب بھی بھرتی کا ہی محسوس ہوتا ہے۔

دیکھتا روز تماشا ہوں نیا میں بھی یہاں
میرا کچھ ساتھ تو دے، تُو بھی یہ سب دیکھ ذرا
÷÷ مکمل نیا شعر ہے، اور واضح نہیں۔ محبوب ساتھ دے کر کیا کرے گا؟​

ساتھ مانگا ہے ترا، اور نہیں کچھ مطلوب
مدعا دیکھ مرا، میری طلب دیکھ ذرا
÷÷ یہ بھی نیا شعر ہے۔ مگر درست ہے
ختم ہونے کو نہیں آے ابھی میرے الم
چھیڑ بیٹھا ہوں مگر ساز طرب دیکھ ذرا
÷÷ درست
تاک میں دوست بھی دشمن بھی ہیں تیرے اظہر
اب ترے پیش نظر ہو کہ عقب، دیکھ ذرا
بہتر رواں ہو سکتا ہے، مثلاً
تاک میں دوست بھی ہیں اور عدو بھی اظہر
 
Top