ایک بے رحم کہانی

”شہلا نے مجھے بتایا کہ تمہاری خالہ ٹھیک عورت نہیں ہے، اس لیے اگر تمہیں اپنی زندگی کو برباد ہونے سے بچانا ہے تو یہاں سے جانا ہوگا۔ میں سوچنے لگی کہ اب کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں بچا ہے۔ لیکن جاﺅں تو جاﺅں کہاں.... کراچی جیسے انسانوں کے اس جنگل میں میرا کوئی نہیں ہے۔“ 17 سے 18 سال عمر کی ایک دوشیزہ مجھے اپنی کہانی سنا رہی تھی۔ گزشتہ دنوں میں مولانا شفیق الرحمان اور راجہ ممتاز کے ساتھ محو گفتگو تھا کہ معراج محمد خان بھی تشریف لے آئے۔ دورانِ گفتگو معراج بھائی نے ایک لڑکی کا ذکر کیا جو حالات کی ستم ظریفیوں کا شکار ہوکر ان تک آپہنچی تھی۔ یہ مجھ جیسے شخص کے لیے ایک اچھا موقع تھا کہ میں اس لڑکی سے باضابطہ ملاقات کرکے اس سے وہ حالات معلوم کروں جن کی وجہ سے وہ اس مقام تک پہنچی۔

معراج بھائی سے وقت طے کیا اور رات 9 بجے ہم معراج بھائی کے گھر پہنچے۔ یہ 17سے 18 سال عمر کی ایک سہمی ہوئی لڑکی تھی جس کے لہجے کی سادگی اس بات کی غماز تھی کہ یہ دنیا کے جدید انداز و اطوار سے ناآشنا ہے۔ ”میرا نام میمونہ ہے، جب میں نے شعور سنبھالا تو مجھے بتایا گیا کہ میری ماں بچپن میں ہی وفات پاگئی تھی۔“ میمونہ نے اپنی روداد ہمیں سنانی شروع کردی: ”گھر میں ایک اجنبی سا ماحول تھا، میں جس گھر میں رہتی تھی وہ میری منہ بولی خالہ کا تھا۔ میری یہ خالہ سلیمہ کے نام سے مشہور تھی۔ ہم لوگ تنول میں ”پاٹھی“ گاﺅں کے رہنے والے تھے۔ میری خالہ نے مجھے بتایا کہ میری ماں نے اسے اپنی منہ بولی بہن بنایا تھا۔ میرا والد کون تھا؟ کہاں تھا؟ مجھے کچھ معلوم نہیں.... خالہ نے ایک دو دفعہ ذکر کیا کہ میرے والد راولپنڈی میں ہوتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی مڑ کر بھی اپنی اس بیٹی کے بارے میں نہیں سوچا جو اجنبیوں کی طرح ایک ملازمہ کی حیثیت سے اپنی خالہ کے ہاں رہتی تھی۔

میری خالہ صبح جاتی اور شام کو گھر واپس لوٹتی تھی۔ گاﺅں والے اسے ایک ”بری عورت“ کی حیثیت سے جانتے تھے۔ مجھے اس نے بچپن میں اسکول میں داخل کرایا۔ زندگی کٹھن اور دشوار تھی، وقت کبھی نہیں رکتا چاہے کوئی مظلوم ہو یا ظالم۔ وقت بے رحم بھی ہوتا ہے کہ اچھا وقت گزر جاتا ہے اور رحم دل بھی کہ برا وقت بھی گزر جاتا ہے۔ لیکن میرے لیے وقت بے رحم ہی رہا۔ میں نے بچپن کیسے گزارا.... مجھے کوئی خبر نہیں۔ باپ کی شفقت سے محرومی اور ماں کی گود کے لمس سے شناسائی نہ ہونے پر میں اندر سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ خالہ کو میری کوئی فکر نہیں تھی۔ جب میں نے پانچ جماعتیں پاس کرلیں تو خالہ نے مجھے اسکول سے ہی اٹھوالیا۔ میرا قد کاٹھ نکل چکا تھا.... خالہ مجھے بھی اپنی لائن میں لگانا چاہ رہی تھی مگر میں نے دل میں تہیہ کرلیا تھا کہ کچھ بھی ہو مجھے اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرنی ہے۔ یہ سرکشی تھی اور عَلم بغاوت بلند کرنا کوئی آسان کام نہ تھا لیکن ظلم و ناانصافی کے خلاف اور اپنی عزت و آبرو کے لیے میں کچھ بھی کرسکتی تھی۔ میں جانتی تھی کہ یہ وہ خالہ ہے جس نے مجھے بچپن سے اب تک پال پوس کر بڑا کیا ہے اور تحفظ بھی فراہم کیا ہے، لیکن اب وہ مجھ سے اس چیز کی توقع کررہی تھی جو ایک عورت کی سب سے قیمتی متاع ہوتی ہے۔

خالہ نے ایک دن مجھ سے کہا ”اب تم میرے ساتھ جایا کرو گی تاکہ ہم گھر کا خرچ چلا سکیں.... تمہیں میرے ساتھ کام کرنا ہوگا“۔
میں جانتی تھی کہ خالہ مجھ سے کیا کام کروانا چاہ رہی ہے۔ میں نے انکار کرتے ہوئے کہا ”میں گھر کے کام کاج کروں گی لیکن آپ کے ساتھ باہر کام پر نہیں جایا کروں گی“۔ میرا دوٹوک جواب سن کر خالہ سمجھ گئی کہ پانچ کلاسیں پڑھ کر اس میں اچھے برے کی تمیز ہوچلی ہے اور یہ اب اس طرح نہیں مانے گی۔ اب خالہ مجھ سے اکھڑی اکھڑی رہنے لگی تھی اور ایک دن اس نے مجھے اپنے ڈرائیور کے ساتھ کراچی میں اپنی دوسری بہن کے ساتھ رہنے کے لیے بھیج دیا۔ میں مجبور تھی، زبان سے کوئی شکوہ نہیں کرسکتی تھی۔ لیکن دل خوب رو رہا تھا، اندر کی ٹوٹ پھوٹ میں اضافہ ہوچکا تھا، بے بسی کا ایک ایسا احساس دل میں جاگزیں تھا جو شاید صرف ہم جیسی لڑکیوں کا ہی طرہ امتیاز تھا۔ باپ کا سائبان جس لڑکی کے سر پر نہ ہو اور جو اپنی ہر چھوٹی بڑی بات اپنی ماں کو بتاکر اپنے دل کا بوجھ ہلکا نہ کرسکے، ایسی لڑکی کے دل کی کیفیت کیا ہوگی، یہ یا تو خدا جانتا ہے یا پھر وہ لڑکی۔ باقی لفظوں کے ہیرپھیر بھی ان جذبات و احساسات کو قرطاس پر لانے کی ہمت نہیں کرسکتے۔

چھوٹی خالہ کراچی کے ایک مصروف علاقے میں رہتی تھی، یہاں آکر مجھ پر انکشافات کے جو در ”وا“ ہوئے وہ ایک شریف لڑکی کے لیے خاصے تکلیف دہ تھے۔ چھوٹی خالہ کا اصلی نام شاید مریم تھا لیکن وہ ”میڈم“ اور ”باجی“ کے نام سے مشہور تھی۔ یہ چار کمروں پر مشتمل مکان تھا جہاں روزانہ ”مردوں“ اور عورتوں کی ایک کثیر تعداد کی آمدورفت رہتی تھی جن میں ”پولیس“ والے بھی ہوتے تھے۔ مجھے پولیس والوں سے بہت ڈر لگتا تھا، بڑی بڑی مونچھیں رکھنے والے یہ پولیس والے شکل سے ہی خاصے ڈراﺅنے ہوتے تھے۔ اس دوران ماریہ نام کی ایک لڑکی جو کہ ہمارے گھر میں ایک لڑکے سے ملنے آیا کرتی تھی، میری دوست بن گئی۔ معلوم نہیں وہ ان لوگوں کے چنگل میں کیسے پھنسی لیکن میرے ساتھ اس کا رویہ کافی دوستانہ تھا۔ وہ مجھ سے ایک ایک بات شیئر کیا کرتی تھی۔ اس کے خیالات خالہ کے بارے میں اچھے نہیں تھے.... وہ خالہ کو ایک بدکردار عورت سمجھتی تھی، لیکن اپنے بارے میں اس نے کبھی نہیں بتایا، شاید اسے بلیک میل کیا جارہا تھا۔ خیر مجھے اس نے اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا۔ میں 4 سے 5 ماہ خالہ کے پاس رہی اور اس دوران میں یہ بات اچھی طرح سمجھ گئی کہ خالہ کا کافی اثرو رسوخ ہے۔

خالہ کا ایک منہ بولا بھائی اور میرا ماموں جس فیکٹری میں کام کرتا تھا وہاں سے روزانہ لڑکیوں کو لے کر آتا تھا، میں ابھی تک شاید اس کام کے لیے موزوں نہیں سمجھی گئی تھی.... لیکن آخر کب تک؟ ایک دن بالآخر مجھے بھی حکم صادر ہوا کہ آئے ہوئے مہمان کا استقبال کرو۔ لیکن مجھے اگر یہ گوارا ہوتا تو میں اپنی گاﺅں والی خالہ کی بات نہ مان لیتی! میں نے انکار کردیا، لیکن مجھے پہلے ہی اندازہ ہوجانا چاہیے تھا کہ میں کراچی میں ہوں، جہاں بات نہ ماننے پر ظلم کا ہر سلسلہ جانِ ناتواں پر آزمایا جاتا ہے۔ یہ خا لہ گاﺅں والی خالہ (سلیمہ) سے زیادہ ظالم نکلی۔ سلیمہ خالہ نے شاید مجھے کھل کر اس لیے نہ مارا کہ گاﺅں میں بات پھیل جاتی اور اس کے لیے مشکلات کا سبب بن جاتی۔ مجھے خوب مارا اور پیٹا گیا، میرے جسم کے کئی حصوں میں نیل پڑچکے تھے۔ اس موقع پر ماریہ نے میری ڈھارس بندھائی اور مجھے حوصلہ دیا۔ اب مجھے کوئی دوسری جائے پناہ
تلاش کرنی تھی تاکہ اپنی عزت و آبرو کو بچا سکوں، اور یہ معاشرہ مجھے اس کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔

معاشرے کے یہ ہوس کے پجاری مرد مجھے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ ماریہ نے مجھ سے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ تم یہاں سے بھاگ جاﺅ ورنہ آخر کب تک میڈم کی مار برداشت کروگی، ایک دن تھک جاﺅ گی اور پھر تم ہوگی اور ہوس کے پجاری یہ بے حس مرد.... وہ غالباً عصر کے بعد کا وقت تھا، ماریہ نے مجھے 1000 روپے پکڑائے اور بلال کوچ میں بیٹھ کر مل ایریا جانے کا مشورہ دیا۔ وہ شاید یہ سمجھ رہی تھی کہ اس طرف فیکٹریاں ہیں، وہاں مجھے کام وغیرہ بھی مل جائے گا، لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ صرف فیکٹریاں ہیں، ان میں جذبات و احساسات کی قدریں نہیں ہیں، اور نہ ہی کوئی شخص ایسا ہے جو مجھے حقیقتاً اچھے انداز میں پناہ دے۔ کیا عورت ہونا کوئی جرم ہے؟ یہ سوال میرے ذہن میں کچوکے لگاتا رہتا تھا۔ قلب اس حوالے سے مضطرب ہوتا۔ یہاں تک کہ سوچتے سوچتے دماغ کی چولیں ہل جاتی تھیں۔ مجھے اس اذیت خانے سے بہرحال نکلنا تھا، آگے کیا ہوگا؟ اس کا میں نے سوچا نہیں یا سوچنے کا موقع نہیں ملا۔ میں بلال کوچ میں بیٹھ کر ایک انجانی جگہ پہنچ گئی۔ شام کا اندھیرا چھا چکا تھا، مجھے ہر چہرہ ایسا لگتا کہ شاید وہ میرے ہی تعاقب میں ہے۔

اس بھرے شہر میں رات کیسے گزاروں، کہاں گزاروں، رات تو آخرکار گزارنی تھی۔ یہ گوشہ سنسان تھا، یہاں ایک قدآور درخت کے نیچے میں بیٹھ گئی۔ دل و دماغ میں خوف کا ایسا عنصر تھا کہ ختم ہی نہیں ہونے میں آرہا تھا۔ یااللہ! میرے حال پر رحم فرما، کوئی نجات دہندہ مل جائے اور میری صعوبتیں کم ہوں۔ میں دل ہی دل میں اپنے رب سے دعائیں مانگ رہی تھی اور پھر کب صبح ہوگئی پتا ہی نہیں چلا۔ ساری رات خوف کے مارے سو بھی نہ سکی تھی۔ سپیدہ سحر نمودار ہونے کے بعد دو لڑکے مجھے گھورتے ہوئے آگے نکل گئے لیکن تھوڑی دیر کے بعد ان میں سے ایک واپس آیا اور مجھ سے یہاں اکیلے بیٹھنے کی وجہ دریافت کرنے لگا۔ خوف اور دہشت کے مارے میری زبان گنگ تھی اور میں نے ان کی ایک بات کا بھی جواب نہیں دیا۔ وہ واپس چلے گئے۔ اتنے میں سامنے سے ایک ہوٹل والا اٹھ کر آیا، وہ شکل سے ہی ٹھیک قماش کا آدمی نہیں لگ رہا تھا۔ وہ مجھے کہنے لگا کہ میرے ساتھ میرے گھر چلو۔ میں انکاری تھی۔ اتنے میں ایک شخص آیا، مجھے صحیح یاد نہیں کہ میری آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں.... ان دونوں آدمیوں میں تکرار ہوئی، آنے والا دوسرا شخص تندور والے پر بھاری پڑا اور اس نے مجھے کہا: تم میرے ساتھ چلو.... میرے گھر میں میری ماں بہنیں ہیں۔ ماں بہنوں کے ذکر پر میں چونک گئی اور اس کے ساتھ جانے پر راضی ہوگئی۔ وہ شخص مجھے اپنے گھر لے گیا اور پھر اگلے دن معراج بھائی آئے اور مجھے اپنے گھر لے آئے۔ وہ دوسرا شخص معراج بھائی کا بھانجا تھا“۔

لڑکی کی کہانی ختم ہوئی تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اس وقت ”میمونہ“ ایک بیابان میں کھڑی ہے، اگرچہ اسے معراج بھائی نے پناہ دی ہے لیکن اسے اپنا مستقبل خود بنانا ہوگا۔ میمونہ کا سہما ہوا انداز اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ ”میڈم مریم“ واقعی اثرو رسوخ رکھنے والی شخصیت ہے۔ لیکن تعجب کی بات یہ تھی کہ یہ سارا کام پولیس کے زیرسایہ ہورہا ہے۔ جس چیز کو ختم کرنے کے لیے ہماری پولیس کا وجود عمل میں لایا گیا وہ
آج خود ان چیزوں کی سرپرستی کررہی ہو تو خلقِ خدا سوائے اپنے سر پیٹنے کے اور کیا کرسکتی ہے! یہ تو صرف ایک میمونہ کی کہانی تھی، نجانے معاشرے میں کتنی ”میمونائیں“ اس ظلم و ستم کا شکار ہیں اور ایک ایسے سائبان کی تلاش میں ہیں جہاں وہ عزت کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں۔ نجانے کتنی معصوم لڑکیاں رحم طلب نگاہوں سے اس معاشرے سے اپنی زندگی اور آبرو کی بھیک مانگ رہی ہیں۔
(نوٹ: اس کہانی کے تمام نام اور مقامات تبدیل کیے گئے ہیں۔)

http://www.karachiupdates.com/v2/in...-49-46&catid=99:2009-09-03-19-27-42&Itemid=15
 

احسان شاہ

محفلین
معراج صاحب خصوصی مبارکباد اور تعریف کے مستحق ہیں۔ لڑکی جسکے ساتھ یہ روداد پیش آئی، اسکی ہمت اور حوصلے کو سلام۔ ہمت کرے انساں تو کیا کچھ ہو نہیں سکتا۔ عفت و حیا کی پیکر اس بنت حوا کی کہانی پڑھ کر آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ اس بہن کی ہر منزل آسان کرے اور نصیب اچھے کرے۔ کاش معاشرے میں معراج صاحب اور تندور والے سے لڑو جھگڑ کر معراج صاحب کے ہاں پہنچانے والے بندے کی طرح ہم بے کس و مجبور خواتین کو عزت دینے والے بن جائیں
 
Top