ایک افسانہ "بابا دینا" از خرم ابن شبیر

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
http://nawaiadab.com/khurram/ایک-افسانہ-بابا-دینا-از-خرم-ابن-شبیر/
“بابا دِینا”

کندھے پر بیلچا اٹھائے ہوئے کھیتوں کے بیچ و بیچ پگڈنڈیوں پر سے ہوتا ہوا “بابا دینا” دوسرے گاؤں کی طرف جا رہا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرانگی ہوئی کہ صبح ہی صبح بابا دینا کس طرف جا رہا ہے اور کیوں۔ تجسس کو کم کرنے کے لیے میں نے موٹر سائکل بابا دینا کے پاس جا کر روک دی

“سلام بابا دینا”

“وعلیکم السلام پُتر کام پر چل پڑے ہو، اللہ خیری لے کے جائے “

“جی ہاں میں تو کام پر جا رہا ہوں لیکن تم صبح صبح کہاں جا رہے ہو بیلچا لے کر”

“پُتر ساتھ والے گاؤں میں مرگ ہوگئی ہے، قبر کھودنے جا رہا ہوں”

“اچھا بابا ! کون فوت ہوگیا ہے”

“پُتر میں جانتا تو نہیں ہوں، مجھے حنیفے نے بتایا تھا بس چل نکلا ہوں، ثواب کا کام ہے، ثواب کے کام کرنے چائیں۔ جا پُتر تو کم پر جا دیر ہو جائے گی”

بابا دینا بات ختم کرتے ہوئے آگے کی روانہ ہوا اور میں اس کے بارے میں سوچنے لگا۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں بابا دینا جیسا انسان نہیں دیکھا۔ ہر کسی کے کام آتا اور خاص طور پر ہر کسی کی مرگ پر ضرور پہنچتا۔ گاؤں میں جب بھی کوئی مر جاتا تو قبر کھودنے کے لیے سب سے پہلے بابا دینا ہی قبرستان پہنچا ہوتا۔ گاؤں کے بڑے قبرستان کی ہر قبر میں بابا دینے کا حصہ ضرور ہے۔

مجھے اکثر بابے دینے کی باتیں یاد آتی ہیں۔ وہ کہا کرتا تھا ہمیشہ ثواب حاصل کرنے کی کوشش کیا کرو اور ثواب دوسروں کی مدد کرنے سے ہی حاصل ہوتا ہے اور مدد بھی ایسی کے جس کے صلے کی خواہش نہ ہو۔ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ بابا دینا ثواب حاصل کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا۔ میں اپنی زندگی کی مصروفیات میں لگا رہتا۔ گاؤں میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو شہر میں سرکاری نوکری کرتے ہیں۔ ان میں میرا نام بھی آتا ہے۔ گاؤں کے بہت سے لوگ مجھے بابو کہتے ہیں۔ کیونکہ میں شہر میں نوکری کرتا ہوں اور پینٹ شرٹ پہنتا ہوں لیکن بابا مجھے پُتر ہی کہتا تھا وہ ہر ایک کو پُتر ہی کہتا ۔

ایک دفعہ بہت بارش ہوئی خالہ رشیدہ کے گھر کی پچھلی دیوار گَر گئی۔ میں جب صبح شہر جانے کے لیے نکلا تو اس وقت بابا دینا خالہ رشیدہ کے گھر کی دیوار بنا رہا تھا۔ خالہ رشیدہ کا کوئی رشتہ دار نہیں ہے وہ بیچاری گاؤں میں اکیلی ہی ہے ہماری دادی کی عمر کی ہو گئی ہیں لیکن سب ابھی بھی خالہ ہی کہتے ہیں۔ بابا دینا گاؤں کے چھوٹے موٹے کام تو کرتا ہی تھا لیکن جب کہیں مرگ ہو جائے تو پھر سارے کام چھوڑ کر قبر ستان چلا جاتا اور گاؤں والوں کے ساتھ مل کر قبر بناتا۔ یہ گاؤں کی ریت رہی ہے کہ گاؤں والے مل کر ہی قبر بناتے ہیں۔ کچھ لوگ صرف اس لیے جاتے کہ ان کی مرگ پر بھی لوگ قبر بنانے آئیں اور کچھ لوگ رشتہ داری نبھانے کے لیے جاتے۔ لیکن بابا دینا خالص ثواب کے لیے ہی جاتا۔

میں اکثر بابا دینا کے بارے میں سوچتا رہتا ۔ میرا دل چاہتا کہ میں بابا دینا کے لیے کچھ کروں جس سے بابا دینا سکون حاصل ہو ،لیکن اس کو لوگوں کے کام کر کے ہی سکون آتا ۔ ایک دن جب میں شہر پہنچا تو میں نے وہاں حنیفے کو دیکھا میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ حنیفہ یہاں کیا کر رہا ہے اس نے بھی مجھے دیکھ لیا وہ میرے پاس آیا ارو بولا۔

“بابو آج بھی کام پر آئے ہوئے ہو”۔

میں نے حیران ہو کر پوچھا “کیوں آج کوئی خاص دن ہے”

تو حنیفے نے کہا” تم کو نہیں پتہ”۔

مجھے اور حیرت ہوئی ایسا کیا ہوا جو مجھے نہیں پتہ۔ میں نے اپنی حیرت کم کرنے کے لیے پوچھا” حنیفے بتائے گا بھی یا حیران ہی کرتا جائے گا”۔

حنیفے نے افسردہ لہجے میں کہا” وہ بابا دینا ہے نا”

میں نے جلدی سے پوچھا “کیا ہوا اسے”

تو حنیفہ نے تقریباََ روتے ہوئے بتایا “وہ مر گیا ہے”

یہ سن کر مجھے ایک زور کا جھٹکا لگا اور میں سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ گیا مجھے بہت افسوس ہوا میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ لیکن حنیفہ بولتا ہی رہا” شہر میں ان کا ایک رشتہ دار ہے جو کافی عرصہ پہلے گاؤں چھوڑ کر شہر آباد ہو گیا تھا اسی کو خبر دینے آیا ہوں”

میں نے حنیفے کی باقی باتوں کی طرف دھیان نہیں دیا اور میں نے ارادہ کیا آج آفس نہیں جاؤں گا اور سیدھا قبرستان جاؤں گا۔ بابا دینا سب کی قبریں بناتا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا یہ ثواب کا کام ہے اور بابے دینے کی قبر بنانا تو اور بھی زیادہ ثواب کا کام ہو گا میں نے نیت کی اور گاؤں کی طرف چل پڑا۔ گاؤں میں داخل ہوا تو ہر شخص کو افسُردہ دیکھا ہر کوئی بابا کی باتیں کر رہا تھا۔ میں نے سب سے ہاتھ ملایا اور قبرستان کی طرف چل پڑا ۔ مجھے قبرستان کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر لطیف نے پوچھا!

”کہاں جا رہے ہو بابو جی”

میں نے کہا” قبرستان جا رہا ہوں قبر کھودنے کے لیے”

میری بات سن کر لطیف نے کہا ” بابو تم کیا کرو گے وہاں جا کر ، وہاں تو بہت سے لوگ ہونگے بابے کی قبر بنانے کو اور تُو تو ہے ہی بابو شابو تم سے یہ کام نہیں ہونے والا”۔

لطیف کی بات کسی حد تک درست تھی کہ وہاں بہت سے لوگ ہونگے لیکن میرے ذہن میں بابے کی ہی بات تھی کہ ثواب دوسروں کی خدمت کر کے ہی حاصل ہوتا ہے اور ایسے کام سے زیادہ ثواب ملتا ہے جس سے صلے کی امید نہ رکھی جائے۔ مجھے بھی کوئی صلہ نہیں چاہے تھا مجھے بابے دینے کی قبر بنا کر ثواب چاہیے تھا۔ قبرستان پہنچنے تک ہر کسی نے مجھے یہی کہا وہاں تو بہت لوگ ہوں گے تم کیا کرو گے جا کر۔ لیکن میں نے نیت کی ہوئی تھی اور میں قبرستان کی طرف چلتا رہا۔ جب میں قبر ستان پہنچا تو میرے پاؤں تلے سے زمین ہی نکل گئی۔ ہر کوئی یہی سوچتا رہا کہ وہاں بہت لوگ ہونگے لیکن بابا دینا جو سب کی قبریں کھودا کرتا تھا لیکن اس کی قبر کھودنے کے لیے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔

خرم ابن شبیر
 

سید زبیر

محفلین
ایک ایسی ہی ہستی کوہاٹ میں تھی نام اُس کا جہانگیر تھا ، سردیوں میں سیخی تکے لگایا کرتا اور گرمیں میں لیموں کی سکنجبیں ، لیکن کہیں سے بھی کسی فوتگی کی اطلاع اُسے پہنچتی تو وہ بیلچہ ، کدال رسی وغیرہ لے کر پہنچ جاتا۔ اور پہاڑی علاقے میں لحد بنانا بہت مشکل کام ہوتا ، اچھے اچھے جفادری ہمت نہیں کرتے ، کھودتے وقت اندر سے چٹانیں ، بڑے بڑے پتھر نکلتے ، مگر یہ کام جہانگیر مشینی انداز میں رضائے الٰہی میں کرتا کوئی معاوضہ نہ مانگتا اور نہ ہی کبھی کسی پر احسان جتاتا ۔ خاموش صفت شخص تھا ۔ اللہ کریم اُس کے درجات بلند فرمائے (آمین)
 
Top