ایک استاد کی یاد

Dilkash

محفلین
ایک استاد کی یاد

دل پشوری۔
تحریر ڈاکٹر ظہور احمد اعوان ۔۔۔۔۔بشکریہ روزنامہ آج پشاور

یہ 1960-61ء کی بات ہے‘ میرے ایک استاد تھے‘ چائے بہت پیتے تھے ٹھنڈی کر کے پیتے اور ایک غڑپ کر کے پی جاتے تھے‘ نام تھا ٹھاکر داس‘ نام ہندوانہ مذہب عیسائیت مگر وہ کسی اور ہی دین کے اللہ لوک قسم کے آدمی تھے‘ بس کاغذ‘ کتاب‘ قلم سے رابطہ و رشتہ۔ ایک بغل میں کتاب و اخبار اور دوسری میں ٹینس کا ریکٹ‘ دبلے پتلے دھان پان مگر کمزور و منحنی آدمی تھے۔ صرف انگریزی بولتے تھے‘ پیشے کے لحاظ سے وکیل‘ شوق کے لحاظ سے موسیقی کے رسیا‘ طبلہ و ستار تک بجاتے اور بجا لیتے تھے۔

کپڑے ہمیشہ سوٹ بوٹ پہنتے تھے مگر انتہائی میلے کچیلے۔ جب سے ان کی محبوب بیوی کا انتقال ہوا تھا انہوں نے دھلے ہوئے کپڑے پہننے ہی چھوڑ دیئے تھے۔ ہمیں انگریزی پڑھاتے تھے ایک پرائیویٹ کالج میں‘ انہیں غرض نہ تھی کہ کلاس میں کتنے طلباء ہیں بس ایک کا ہونا ضروری تھا شاید ایک کی بھی ضرورت نہ ہو مگر خدا شاہد ہے ہم نے یہ منظر نہیں دیکھا کیونکہ اکثر واحد طالب علم کے طور پر ہم خود ہی حاضر رہتے تھے۔

مجھے سب سے زیادہ انہوں نے پڑھایا کہ میں نے سب سے زیادہ کلاسیں اٹینڈ کیں مگر وہ میرے نام سے واقف نہ تھے بلکہ کسی کے بھی نہیں‘ بس انہیں پڑھانے کا شوق تھا۔ وکالت ان کی دو روپے والی کہلاتی تھی کہ دو روپے لے کر ملزم کی ضمانت کروا دیتے تھے۔ مجسٹریٹ ان کی انگریزی سے ڈر کر پہلی ہی پیشی میں ضمانت کر دیتا تھا مگر پھر بھی وہ اس پر مصر کہ میرے دلائل سنو‘ تم نے ایسے ہی رہا نہیں کیا‘ اب مجسٹریٹ ہاتھ جوڑیں کہ حضور جانے دیں آپ کا ملزم رہا ہو گیا مگر ٹھاکر داس اپنا لیکچر سنا کر آتے تھے۔ عدالتوں سے نکلنے کے بعد وہ صرف پروفیسر تھے کتابوں کے گرویدہ‘ نصاب کی ایک ایک کتاب کو سینکڑوں مرتبہ پڑھ رکھا تھا مگر جی نہیں بھرتا تھا۔

اپنے علم کو اپ ڈیٹ رکھنے کیلئے نئی نئی کتابیں پڑھتے تھے۔ انگریزی میں پی ایچ ڈی کا تھیسس لکھ کر بھی برطانیہ بھجوایا تھا مگر وہ ڈگریوں کے دم چھلوں سے بے نیاز تھے۔ گرمی ہو یا سردی ہمیشہ ململ کی قمیص پہنتے جس کا آخری بٹن بالعموم ٹوٹا ہوتا تھا اور اس کمی کو سیفٹی پن سے پورا کرتے تھے۔ ایک کالا کوٹ مستقل پہنتے ہر موسم میں‘ یہ کوٹ ٹھنڈا ہوتا تھا اور غالباً اس کے ساتھ ہی سوتے بھی تھے کہ ایسا مچڑا مچڑا کوٹ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔

کورس کی ساری کتابیں انہیں زبانی یاد تھیں‘ شیکسپیئر کے سارے ڈراموں کے علاوہ‘ وہ کلاس میں کتاب لے کر نہیں آتے تھے بس آ کر کہتے فلاں کتاب کا فلاں باب اور اس کا فلاں صفحہ نکالیں اور پھر آنکھیں بند کر پڑھانا شروع کر دیتے‘ صرف چائے غڑپ کرنے کیلئے آنکھیں کھولتے۔ اس زمانے میں دس روپے فیس ہوتی تھی‘ کسی نے پیسے دے دیئے تو اس کی مہربانی ورنہ ویسے ہی کام چلتا رہتا تھا‘ انہیں پڑھنے کا کریز تھا۔

رات کو ایک کیفے ٹیریا میں جا کر بیٹھتے ٹھنڈی چائے پیتے اور کتابیں پڑھتے رہتے‘ بعض اوقات کیفے ٹیریا کے کارندے آ کر کہتے حضور! ہم دکان بڑھا رہے ہیں آپ بھی گھر جا کر آرام کیجئے۔ وہ ایک پرانی سی سائیکل بطور ڈیکوریشن رکھتے جس کے اوپر بیٹھے وہ کم ہی نظر آتے‘ بس اس کے ساتھ چلتے رہتے یا ایک آدھ گھنٹی بجا دی۔ ان کا وکالتی دفتر سائیکل کے پیچھے بندھا ہوتا تھا‘ مستقل مقدمے کم ہی لیتے۔

ان سب باتوں کے باوجود وہ ماٹھے آدمی نہ تھے‘ کھیل کے میدان کے متحرک کھلاڑی‘ ٹینس کے پاکستانی چیمپئن اور کلر ہولڈر Colour holder۔ اتنا مختلف الجہات شخص کم ہی دیکھنے میں آتا ہے‘ اب تو ایسے سانچے ہی ٹوٹ گئے جن میں ایسے لوگ بنا کرتے تھے اور ٹھاکر داس تو لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ایک تھے۔ کچھ کم و کج فہم ان کو خبطی بھی کہتے تھے مگر وہ اس دنیا کی مخلوق ہی نظر نہیں آتے تھے Out of this world۔

ایک دن میں ان سے عید ملنے گیا‘ ان کی عید نہیں تھی ہماری تھی مگر ہم نے کبھی ان کے بارے میں کسی مذہب کے حوالے سے سوچا بھی نہیں تھا‘ انہوں نے مجھے بٹھا لیا اور طبلے پر میوزک سنایا پھر انگریزی پر لیکچر دیا‘ ایسا لگتا تھا کہ ان کے چہرے پر طمانیت کی لہر دوڑ گئی یا انسانیت نے اپنا ہالہ سا تان لیا ہے۔

مجھ سے بہت پیار کرتے تھے مگر میرا نام ان کو نہیں آتا تھا‘ کبھی اے ون کہہ دیتے۔ مجھ پر خاص مہربانی یہ تھی کہ میں ایک کلاس کی فیس دے کر ان کی تین کلاسیں یکے بعد دیگرے اٹینڈ کر لیتا تھا۔ انہیں چلتا پھرتا دیکھ کر معلوم ہوتا تھا صداقت چل پھر رہی ہے‘ امانت‘ محنت و دیانت متحرک ہے اور مروت و محبت کا بے لوث سرچشمہ رواں ہے۔

مجھے وہ ایک ایک لمحہ یاد آتا ہے جب میں ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے بیٹھتا تھا۔ آج میں اپنے آپ کو کتنا خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسے ایسے استاد میسر آئے تھے‘ میں بھر بھر جھولیاں ان سے علم حاصل کرتا رہا مگر میرا دامن و ظرف مختصر تھا۔ کاش! وہ بہت مدت زندہ رہتے‘ کاش! ہم اور زیادہ ان کے قریب بیٹھ کر نہ صرف انگریزی ادب بلکہ زندگی کا قرینہ بھی سیکھتے۔
 
Top