ایڈونچر کہوں یا کچھ اور کہوں۔

فہیم

لائبریرین
یہ پوسٹ‌ میں‌ نے اپنے بلاگ کے لیے لکھی تھی۔
لیکن ارود ٹیک کے بلاگ آج کل بند پڑے ہیں تو اسے اردو محفل میں پوسٹ‌ کررہا ہوں۔
 

فہیم

لائبریرین
بروزِ پیر 31 اگست 2009




بارش نے جب زور پکڑنا شروع کیا تو تبھی مجھے خدشہ لاحق ہوا تھا کہ کہیں گھر جانے میں کسی قسم کی دقت کا سامانہ نہ کرنا پڑ جائے۔
لیکن آج سے پہلے چونکہ تیز سے تیز بارش میں بھی گھر جانے میں کبھی کوئی خاص پرابلم نہیں ہوئی تھی اس لیے اس وقت بھی کوئی خیال نہیں کیا۔
لیکن مجھے یہ خیال ضرور کرنا چاہیے تھا کہ پہلے ناظم آباد سے صرف لیاقت آباد تک جانا ہوتا تھا۔
جبکہ اب ناظم آباد سے نارتھ کراچی تک کا سفر کرنا ہے۔

ایک خیال یہ بھی تھا کہ ابھی بارش تیز ہے جیسے ہی رکے گی گھر کی راہ لی جائے گی۔
اور جب تک نہیں رکتی تب تک اس کے برسنے کے منظر سے لطف اندوز ہوا جائے۔ اور میں لطف اندوز ہونے میں مصروف رہا:battingeyelashes:
لیکن بارش رک کر نہ دی البتہ تھوڑی ہلکی ضرور ہوگئی۔
اندازہ ہورہا تھا کہ بارش ابھی مزید برستی رہے گی اس لیے سوچا کہ یہی وقت بہتر ہے کہ بھاگ لیا جائے۔
اپنی بائیک(جس کو لیے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا)کے پلگ اور سوئچ پر ساتھ کام کرنے والے ایک لڑکے سے ڈھیر سارا گریس لگوایا اور یہ سوچتے ہوئے کہ آج پہلی بار بارش میں اتنا لمبا سفر بائیک پر کرنے کا لطف لیتے ہوئے گھر چلا جائے۔
کک لگائی اور گاڑی کو لے کر آگے بڑھے۔

بس یہیں سے اصل کہانی شروع ہوتی ہے۔

ابھی بائیک روڈ تک ہی پہنچی تھی کہ بھک بھک کرکے بند:confused:
ایک بار سوچا کہ ابھی زیادہ دور نہیں آنا ہوا کیوں نہ بائیک کو واپس آفس کی طرف چھوڑ کر کسی اور ذریعے سے گھر کا سفر کیا جائے۔ لیکن پھر وہی ایڈونچر دماغ پر چھاگیا:cowboy:
اس لیے بائیک کو واپس موڑا اور گھسیٹے ہوئے واپسی اسی راستے پر ہولیا۔ لیکن آفس جانے کے لیے نہیں بلکہ اس مکینک تک جانے کے لے جس تک جانے کے لیے یہی راستہ استعمال کرنا تھا۔
جس وقت مکینک تک پہنچا اس وقت عصر کی نماز کا وقت ہوچلا تھا۔
لیکن اس تھوڑے سے ہی سفر میں حلیہ کچھ ایسا ہوگیا تھا کہ نماز پڑھنے کا یہی سوچا جاسکتا تھا کہ گھر جاکر پڑھ لوں گا۔
اس مکینک کچھ انتظار کرایا پھر پلگ کی صفائی کی اور بائیک اسٹارٹ کرنے کو کہا۔ ہم نے کوشش تو کی لیکن وہ سسری اسٹارٹ ہوکر نہ دی۔
پھوڑی تھوڑی جدو جہد کے بعد معلوم پڑا کہ اس میں پیٹرول کی کمی بھی واقعی ہوئی وی ہے۔
خیر پھر اسی گھسیٹنے کا کام شروع کیا اور کچھ دور جاکر جہاں کے زمین دکھائی دے رہی تھی بائیک کو بچھاڑ دیا۔
ورنہ مکینک کے آگے تو پانی کا ایک بڑا تالاب بنا تھا اور وہاں بائیک کو بچھاڑ دینے کا رسک نہیں لیا جاسکتا تھا۔
آخر ہماری یہ محنت رنگ لائی اور بائیک اسٹارٹ ہوگئی۔
ہم پھر پانی اڑاتے روڈ پر آئے اور پیٹرول پمپ پر پہنچ بائیک میں موجود کمی کو پورا کیا۔
اور کک لگا کر خوشی خوشی اپنے گھر کی جانب سفر شروع کیا۔
اس وقت بارش کافی ہلکی پڑ رہی تھی اور بائیک چلانے کا الگ ہی لطف آرہا تھا۔ ٹریفک بھی کوئی بہت زیادہ نظر نہیں آرہا تھا۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔:skull:
جونہی ہم بورڈ آفس کراس کرکے کے ڈی اے چورنگی تک آئے تو ساری خوشی رخصت ہوگئی۔
وہاں تو لگتا تھا سیلاب آیا ہوا ہے:surprise:
ہماری بائیک انجن اور سائیلنسر سمیت پانی کے اندر تھی۔
ہم نے سوچا کہ قبل اس کے بائیک بند ہو اس کو خود ہی بند کردینا چاہیے۔
اب اسے ہماری عقل مندی کہیں یا عقل بندی کے ہم نے بائیک بند کی اور اس کو چند شریف لوگوں کی مدد سے فٹ پاتھ پر چڑھایا جہاں پہلے ہی بائیکوں کا ایک کارواں رواں تھا۔
لیکن وہ بائیکز اپنے سواروں کا بوجھ نہیں اٹھائے ہوئے تھیں بلکہ سوار ہی ان کا بوجھ گھسیٹنے میں مصروف تھے۔
خود ہماری حالت بھی ایسی ہی تھی۔
ہم بھی اس کارواں میں شامل چلتے رہے۔
حیدری مارکیٹ سے آگے اور 5 اسٹار چورنگی سے پہلے موجود موڑ سے ہم نے دوسروں کی تلقین کرتے ہوئے بائیک کو دوسرے روڈ پر لیا۔
جہاں کے پانی سیلابی شکل میں موجود نہیں تھا۔
وہاں پہنچ کر کارواں میں شامل تمام لوگ اپنی اپنی امیدوں یعنی بائیکوں کو اسٹارٹ کرنے کی جدو جہد میں مصروف تھے۔
کوئی اس میں کامیاب ہوکر خوشی کی قلقاریا ں مارتے ہوئے آگے بڑھتا جارہا تھا تو کوئی بچارہ پاؤں کو تکلیف دینے میں ہی مصروف تھا اور کوئی انجن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں۔
ہمارا شمار شاید ان لوگوں میں ہونا تھا جن کو فی الوقت کامیابی نہیں ملنی تھی:(
ہم تھوڑا سسپٹائے کہ یہ کیا ہوا۔
اچھی بھلی خود آپ سے بند کی تھی اب اسٹارٹ کیوں نہیں ہوکر دے رہی۔
یہاں وہاں نظریں دوڑائیں۔
سامنے کی طرف ایک درخت کے نیچے کچھ بائیکز کھڑی دکھائی دیں۔
اور یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہاں ایک عدد مکینک موجود ہے جو کہ نوٹ چھاپنے میں مصروف ہے۔
ہم نے بھی ناچار ادھر کا رخ کیا۔
جاکر مدعا بیان کیا تو آگے سے ناپسند آنے والے انداز میں جواب ملا کہ انتظار فرمائیں۔
مرتا کیا نہ کرتا ۔
انتظار ہی کرنا پڑا۔ آخر ایک اچھا خاصہ وقت گزارنے کے بعد ہمارا نمبر آیا۔
اور ایک بار پھر پلگ کی صفائی ہوئی انجن میں گھس جانے والا پانی اڑایا گیا۔
اور بائیک اسٹارٹ ہوئی۔
اس دس یا بیس روپے والے کا م کی اجرت اُس وقت 50 روپے طلب کی گئی۔
ہم نے رقم ادا کرکے وقت پر نظر دوڑائی تو کوئی ساڑھے 7 کے اریب قریب کا وقت تھا۔
ہم نے سوچا چلو اب گھر کی راہ لی جائے اگر پہنچ گئے تو ٹھیک ورنہ روزہ تو کہیں راستے میں بھی کھولا جاسکتا ہے۔
وہاں سے ہم رونگ سائیڈ ہی 5 اسٹار تک آئے اور پھر دوسرے روڈ پر نظر ڈالی تو وہاں سیلابی شکل والا پانی موجود نہیں تھا۔
ہم نے ٹریفک قوانین پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بائیک اسی روڈ پر ڈالی اور اس کو اڑانا شروع کیا۔
ساتھ میں دل بھی دہل رہا تھا کہ اللہ نہ کرے کوئی حادثہ ہوجائے:praying:
بائیک دوڑاتے دوڑاتے ہم سخی حسن چورنگی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ناگن تک آئے۔
لیکن یہاں پچھلے کے مقابلے زیادہ بڑا سیلابی ریلا موجود تھا۔
دیکھا کہ بائیک والے حضرات اپنی بائیکوں کو فٹ پاتھ پر چڑھا کر سیلابی ریلے کے سائیڈ سے نکل رہے ہیں ہم نے بھی یہی کیا۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ کہ فٹ پاتھ تو ختم ہونے کے قریب آرہی تھی لیکن سیلابی ریلا کافی دور تک دکھائی دے رہا تھا۔
اور آگے جاکر تو فٹ پاتھ بھی پانی میں ڈوبی ہوئی تھی اس لیے معلوم ہی نہیں تھا کہ کہاں فٹ پاتھ ختم ہے:timeout:
جب دیکھا کہ اس سے آگے اسی طرح بڑھنا نقصان دہ ہوسکتا ہےتو ہم نے بائیک آہستہ کی لیکن اسے بند کرنے کا رسک نہیں لیا۔
اور قدم فٹ پاتھ پر رکھ کر آہستہ آہستہ آگے ہوتے گئے۔
اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک اگلا پہیا نیچے ہوا۔
ہم نے اس ڈر سے کہ بائیک بند نہ ہوا کلچ دبا کر پورا ایکسیلیڑ دے دیا۔
لیکن اس کے باوجود بھی وہ فوراً ہی بند ہوگئی:brokenheart:

یہاں پانی کی رفتار اتنی تیز تھی کہ بائیک کو آگے لے جانے کے لیے کافی قوت سے گھسیٹنا پڑ رہا تھا۔
صبح ہی موسم کو دیکھتے ہوئے ہم پیروں میں بجائے جوتوں کے چائنہ چپل پہن گئے تھے۔
یہاں پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے پاؤں اٹھا اٹھا کر آگے کرنے پڑرہے تھے۔
مطلب کہ پانی سے باہر نکال کر۔ اسی میں ایسا ہوا کہ ایک چپل ہی پیر سے نکل کر پانی میں بہہ پڑی۔
بوکھلائے ہوئے انداز میں اپنے ہاتھوں کے بوجھ کو اسی کی ایک ٹانگ پر ڈالا اور دوڑ کر اپنی چپل پر قبضہ کیا:timeout:
آگے ایسے حادثے سے بچنے کے لیے دونوں چپلوں کو اتار کر ٹنگی پر موجو د بیلٹ میں ٹھونسا اور پھر پیا پادہ چل پڑے۔
حلیہ کچھ ایسا ہوچکا تھا جینز پانی پی پی کر اپنے وزن کی تین گناہ معلوم ہورہی تھی۔
اللہ شکر یہ کہ نظر ابھی ایسی نہیں کہ چشمے کے بغیر گزارہ نہ ہو۔ ورنہ چشمہ لگا کر تو ہم مزید اندھے ہوئے جارہے تھے۔ اس لیے وہ چشمہ ہمارے گلے میں کسی پنڈال کی طرح لٹک رہا تھا۔
ہمیں سب سے زیادہ فکر روزے کی تھی کہ موسم سے اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ کیا وقت ہوا ہے:hurryup:
موبائل نکال کر ٹائم دیکھا تو معلوم ہوا کہ روزہ کھلنے میں بس کچھ ہی وقت باقی رہا جاتا ہے۔
لیکن فی الوقت ہمارے پاس صرف ایک کام تھاکہ بائیک کو گھسیٹے جائیں۔
سو بس گھسیٹے رہے۔
جب دیکھا کہ اب پانی کافی حد تک کم ہوا چلا ہے تو اس پر بیٹھ کر دونوں ٹانگوں سے اس کو دوڑاتے رہے۔
ناگن اور یوپی کے درمیان کی جگہ تھی اور ہمیں ایک سناٹا سا چھایا محسوس ہورہا تھا۔
ہم کوشش کررہے تھے کہ کچھ ایسا نظر آئے کہ ہم روزہ افطار کرسکیں۔
لیکن وہاں تو لگ رہا تھا کہ جیسے سناٹا سا ہی ہو۔
لیکن یوپی کے قریب پہنچ کر۔ ہمیں کچھ رونق نظر آئی۔
وہاں ہم نے ایک صاحب سے پوچھا کیا افطار کا وقت ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہاں وقت ہوگیا اور اپنا ہاتھ ہماری طرف بڑھایا جس پر بڑے انگور کے کچھ دانے موجود تھے۔
ہم نے ایک عدد دانہ اٹھایا اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ افطار کیا۔
اور دماغی طور پر پرسکون ہوگئے۔تھوڑا سا آگے چل کر بائیک روکی کہ ہم خود ہی کچھ مینا کاری کرکے دیکھیں کہ بائیک اسٹارٹ ہوجائے۔
لیکن قبل اس کے ہم کچھ کرتے وہاں کھڑے ایک بائیک والے بھائی صاحب نے بڑی محبت سے ہمیں کہا کہ آئیں میں"ٹو"کردوں۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہار ابہت۔
ہم نے ان کی یہ آفر بخوشی قبول کرلی۔
اور ہم بڑے مزے سے اپنی بائیک چلاتے رہے۔
لیکن پاور ہاؤس کی چورنگی تک آتے ہمارا ان سے تعلق ختم ہوچکا تھا۔
اور ایک بار پھر بائیک کے ساتھ زور آزمائی کا دور شروع ہوچکا تھا۔
لیکن شکر کہ یہ زور آزمائی زیادہ دیر جاری نہیں رہی۔ اور 5 سی 4 پر یہ ہمیں بائیک مکینکوں کی دکانیں کھلی نظر آگئیں:peacesign:
پھر زیادہ خاص بات نہیں بس کچھ دیر کے انتظار کے بعد ہماری بائیک اسٹارٹ ہوگئی۔
اور ہم نے گھر کی راہ لی اور بنا کسی نئے حادثے کے گھر پہنچ گئے۔

ویسے اس سفر کی خاص بات یہ کہ!
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ خود مجھے ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی۔
نہ پاؤں میں کچھ چھپا نہ کہیں کہنی سے رگڑ کھائی۔
اور نہ گھر پہنچ کر مجھے تھکاوٹ محسوس ہوئی۔
اور نہ راستے میں ہی کہیں ہمت نے جواب دیا کہ پیاس لگنے لگی ہو یا روزہ محسوس ہونا شروع ہوگیا ہو۔
شاید یہ سب رمضان کی برکت ہے کہ ابھی بھی میں پوری طرح چاق و چوبند ہوں نہ ہاتھ میں کہیں درد ہے نہ پیروں میں اور میں بالکل سکون سے بیٹھا یہ پوسٹ لکھ رہا ہوں۔

بلکہ لکھ چکا۔
 
بہت سبق آموز،دلچسپ اور ایمانی روداد ہے فہیم بھائی
سبق آموز ایسے کہ میں نے 5 بجے ہی چھوٹے بھائی کو منع کردیا تھا کہ واپس بائیک کی بجائے ٹیکسی میں آنا کیوں کہ میں خود یہ بھگت چکا ہوں۔
اس واقعے کو آپ کے طرزِ تحریر نے دلچسپ بنادیا ہے۔
اور ایمانی : روزہ نہ لگنے ،تھکاوٹ کااحساس نہ ہونے والے الفاظ کی وجہ سے
 

فہیم

لائبریرین
تعارف یہ کہ۔
جب تک ہم لیاقت آباد عرف لالوکھیت میں رہائش پذیر تھے تو بائیک کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
آفس والوں کی طرف سے ایک عدد بائیک ملی ہوئی تھی وہ بھی ہم نے واپس کردی تھی۔

لیکن جب گھر شفٹ کیا تو معلوم ہوا کہ اب بائیک کے بغیر گزارہ نہیں۔
تو اب بائیک لینی پڑی۔

تصویر ہی لگادیتا لیکن ابھی ممکن نہیں۔
اس لیے تفصیلات سے ہی گزارہ کیجئے۔

میک سپر اسٹار
ماڈل 2008
کوئی 9 مہینے چلی ہوئی تھی جب لی۔
کنڈیشن بالکل درست ہے۔
 

فہیم

لائبریرین
بہت سبق آموز،دلچسپ اور ایمانی روداد ہے فہیم بھائی
سبق آموز ایسے کہ میں نے 5 بجے ہی چھوٹے بھائی کو منع کردیا تھا کہ واپس بائیک کی بجائے ٹیکسی میں آنا کیوں کہ میں خود یہ بھگت چکا ہوں۔
اس واقعے کو آپ کے طرزِ تحریر نے دلچسپ بنادیا ہے۔
اور ایمانی : روزہ نہ لگنے ،تھکاوٹ کااحساس نہ ہونے والے الفاظ کی وجہ سے

شکریہ جناب:)

اور سب سے اچھی بات یہ کہ اس سفر میں مجھے جھلاہٹ‌ بھی محسوس نہیں ہوئی:)
 

عسکری

معطل
لو جی ایک ہم ہیں ہماری گاڑی تو نا کبھی بند ہوئی نا کوئی مسئلہ کرتی ہے شمشاد بھائی ایسا ایڈونچر ہمیں کہاں نصیب:(
 

فہیم

لائبریرین
لو جی ایک ہم ہیں ہماری گاڑی تو نا کبھی بند ہوئی نا کوئی مسئلہ کرتی ہے شمشاد بھائی ایسا ایڈونچر ہمیں کہاں نصیب:(

آپ کو اس سے الٹ ایڈونچر نصیب ہوسکتا ہے:rolleyes:

کسی دن نکل جائیں تیز گرمی اور دھوپ میں پہاڑوں کی طرف بنا کسی گاڑی واڑی کے:grin:
 

تیشہ

محفلین
مزے کی ہے ۔۔
chips.gif



پڑھکے مزا آیا :battingeyelashes: ۔۔
 

تیشہ

محفلین
شکریہ باجو:)

مجھے بھی ویسے مزہ آگیا تھا:grin:

:battingeyelashes:

میں نے مزے سے پڑھی اندازہ کرسکتی ہوں کیا حالت ہوئی ہوگی :chatterbox: پانی میں موٹر بائیک گھیسٹتے ہوئے ۔ اور جوتوں کا پڑھکے بہت ہنسی آئی ۔ کاش میں آنکھوں سے یہ سارا سین خود دیکھ سکتی :battingeyelashes: :grin:
اچھا جب میں کراچی آئی تو مجھے پھر سے یہ ایڈونچر کرکے دیکھانا :party:
 

فہیم

لائبریرین
:battingeyelashes:

میں نے مزے سے پڑھی اندازہ کرسکتی ہوں کیا حالت ہوئی ہوگی :chatterbox: پانی میں موٹر بائیک گھیسٹتے ہوئے ۔ اور جوتوں کا پڑھکے بہت ہنسی آئی ۔ کاش میں آنکھوں سے یہ سارا سین خود دیکھ سکتی :battingeyelashes: :grin:
اچھا جب میں کراچی آئی تو مجھے پھر سے یہ ایڈونچر کرکے دیکھانا :party:

لیکن آپ دیکھتیں کیسے بھلا:rolleyes:
دیکھنے کے چکر میں خود آپ نے بھی اس ایڈونچر کا حصہ بن جانا تھا:grin:


اور آپ آجائیں کراچی پھر ہم ایسا ایک مصنوعی ٹائپ ایڈونچر تشکیل دے لیں گے:)
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترم فہیم بھائی
کیا خوب عکاسی کی ہے عروسالبلاد کراچی کی
عام آدمی کس ایڈونچر میں گرفتار ہو جاتا ہے باران رحمت کے بعد
ایڈوینچر میں شامل کرنے کا شکریہ
ایسے ہی لگا جیسے یہ سب مجھ پر ہی بیتا۔
نایاب
 

فہیم

لائبریرین
السلام علیکم
محترم فہیم بھائی
کیا خوب عکاسی کی ہے عروسالبلاد کراچی کی
عام آدمی کس ایڈونچر میں گرفتار ہو جاتا ہے باران رحمت کے بعد
ایڈوینچر میں شامل کرنے کا شکریہ
ایسے ہی لگا جیسے یہ سب مجھ پر ہی بیتا۔
نایاب



وعلیکم السلام
شکریہ نایاب بھائی:)
ویسے ایسے ایڈونچر میں میں‌ اکیلا نہیں پتہ نہیں کتنے ہی شامل تھے۔
اب یہ معلوم نہیں کہ وہ اس کو بطور ایڈونچر ہی لے رہے تھے۔
یا بطور پریشانی:rolleyes:
 

تیلے شاہ

محفلین
اچھی تحریر تھی میں خود ایک بار اس ایڈونچر سے گزر چکا ہوں اور وہ بھی سردی کے موسم میں
مگر میں اکیلا نہیں تھا ہم 4 دوست تھے اور دو بائیک اس لئے ہم نے کافی انجوائے کیا تھا
 

فہیم

لائبریرین
اچھی تحریر تھی میں خود ایک بار اس ایڈونچر سے گزر چکا ہوں اور وہ بھی سردی کے موسم میں
مگر میں اکیلا نہیں تھا ہم 4 دوست تھے اور دو بائیک اس لئے ہم نے کافی انجوائے کیا تھا


شکریہ۔

ایسے وقت میں جتنے بھی ایسی صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں وہ سب ایک دوسرے کے دوست بلکہ بھائی معلوم ہورہے ہوتے ہیں:p
 
Top