ایڈز اور پاکستان

نعمان

محفلین
بھارت کے تقریبا تمام ٹی وی چینلز، اخبارات اور ریڈیو پر ایڈز آگاہی پروگرام چل رہے ہیں۔ ٹی وی پر جو اشتہارات دکھائے جاتے ہیں ان میں ماں باپ کو ایڈز کے بارے میں اپنے بچوں سے بات کرنے سے ڈرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت ان دنوں بری طرح ایڈز سے متاثر ہوچکا ہے اور ایسی اشتہاری مہمیں بہت پہلے وہاں چلنی چاہئیے تھی مگر نہیں چلیں۔

پاکستان میں ایک عرصہ پہلے ایڈز پہنچ چکا ہے۔ بی بی سی کے مطابق اقوام متحدہ نے پاکستان کو ایڈز کے خطرناک زون میں شامل کرلیا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں ایڈز کے معلوم کیسز کی تعداد اتنی زیادہ نہیں جتنی بھارت یا دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں ہے۔

گرچہ پاکستان میں شادی سے قبل جنسی تعلقات بہت زیادہ معیوب سمجھے جاتے ہیں اور جنسیات ایک ایسا موضوع ہے جس پر پاکستانی ذرائع ابلاغ تو درکنار لوگ ایکدوسرے سے بھی بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ مگر پھر بھی کئی غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق پاکستان کی نوجوان نسل جنسی طور پر فعال ہے۔ خصوصا نوجوان لڑکے اور شہری علاقوں میں لڑکیاں بھی۔ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اکثر نوجوان ایڈز اور جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے یا تو لا علم ہوتے ہیں یا پھر سنہری موقعوں کو کھو دینے کے ڈر سے حفاظتی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔ پاکستان میں ہم جنسیت بھی کافی عام ہے اور اس دوران بھی حفاظتی تدابیر اور محفوظ جنسی تعلق پر کوئی دھیان نہیں دیا جاتا۔

غیر سرکاری تنطیموں کے اندازوں کے مطابق اس وقت ہزاروں نہیں تو کم از کم سینکڑوں پاکستانی مرد ایچ آئی وی سے متاثر ہیں اور تقریبا وہ تمام ہی جنسی طور پر فعال ہیں۔ ایسے مردوں میں ایک بڑی تعداد ان مردوں کی ہی جو شادی شدہ بھی ہیں اور اپنی بیویوں کے ساتھ جنسی تعلق کے دوران حفاظتی تدابیر کو غیر اہم سمجھتے ہیں۔ اکثر خواتین اور لڑکیاں ایڈز سے بالکل لاعلم ہیں۔ ایسے مرد جنہیں ایچ آئی وی تشخیص بھی ہوجاتا ہے ان میں سے زیادہ تر علاج نہیں کراتے اور عین ممکن ہے کہ وہ بغیر کسی احتیاط کے یہ وائرس آگے پہنچانے کا سبب بن رہے ہوں۔

ایسی خواتین جنہیں اپنے خاوند کے دیگر خواتین یا مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات کا علم بھی ہوجاتا ہے وہ ان معاملات کی پردہ پوشی کرتی ہیں اور مصلحتا خاموش رہتی ہیں۔ ماں باپ اپنے نوجوان بچوں سے ایڈز کے بارے میں بات کرنا تو درکنار ان کی جنسی زندگی کے کسی پہلو پر بات نہیں کرتے۔ اسکولوں میں جنسیات یا ایس ٹی ڈی یا ایڈز کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوتی۔

کیا ہم اپنی معاشرتی اقدار پر کئی جانوں کو داؤ پر نہیں لگارہے؟ کیا آپ میں سے کوئی اپنے گھر میں، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں، اپنے رشتہ داروں یا دوست احباب کے درمیان ایڈز اور اس سے بچاؤ کے طریقوں پر بات کرتا ہے؟ کیا آپ کے خیال میں پاکستانی اسکولوں میں ایڈز اور جنسیات کے بارے میں طالبعلموں کو آگاہی دی جانی چاہئیے؟ کیا آپ کے خیال میں پاکستان میں گرین اسٹار کو کنڈوم کی مارکینگ سیف سیکس کے حوالے سے کرنی چاہئیے یا انہیں خاندانی منصوبہ بندی تک ہی بات کرنی چاہئیے؟

یقینا آپ میں سے کچھ یہ جواب دینے کی سوچ رہے ہونگے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ایڈز سے بچاجاسکتا ہے۔ ٹھیک، مگر پاکستان کی عوام کی اکثریت اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتی نہ ہی اسلام پاکستان کی ثقافت کا اتنا اسٹرانگ عنصر ہے کہ اسے ایڈز سے بچاؤ کا واحد حل مان لیا جائے۔ آپ کے خیال میں پاکستانیوں کو ایڈز کے عفریت سے کسطرح لڑنا چاہئیے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
دیکھیں اپ کی بات بالکل بجا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مولوی حضرات کو میں نے خود کنڈم خریدتے دیکھا ھے۔ مگر وہی مولوی جمعہ کی تقریر میں اس کے خلاف بات کر رہے ہوتے ہیں۔ جہاں تک معاشرتی اقدار کی بات ہے تو اس کا میں کیا کہوں۔ ڈیرہ غازی خان میں خیابان سرور میں ایک مسجد + مدرسہ ہے۔ مدرسہ امیر المومنین۔ اس میں‌کئی بار جمعہ کے خطبےسے قبل کی تقریرمیں مولوی صاحب عورت اور مرد کی شادی کے بعد کے ازداوجی تعلقات سے لیکر بچے کی پیدائش کے مراحل تک بتا رہے ہوتے ہیں۔ اور تقریر بھی ایسی مزے کی(اللہ تعالٰی معاف کریں)کہ آپ کو ویڈیو یا تصاویر کی ضرورت نہ پڑے۔ یہ ساری تقریر جمعہ کے دن عین نماز سے قبل لاؤڈ سپیکر پر ہوتی ہے۔ احتجاج کیا گیا تو جواب ملا کہ شریعت میں کوئی شرم نہیں۔ اب ان کو یہ بھی نہیں پتا کہ حیا جزو ایمان ہے۔ واقعی جب حیا مر جائے تو جو دل چاہے بندہ کرے۔ ان حالات میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر سکول میں آٹھویں جماعت میں تھوڑی سی جنسی آگاہی ہو تو کوئی بری بات نہیں۔ یہ اس حکومت کا اچھا اقدام ہے۔ ویسے سب جانتے ہیں کہ پرائمری سکول کے ٹائلٹ میں کیا کیا تصاویر بنی ہوتی ہیں۔ اور اکثر میرے اپنے ہم جماعت میٹرک سے قبل جنسی مراحل سے گزر چکے تھے۔ ان حالات میں جنسی تعلیم بہتری تو لاسکتی ہے مگر بدتری کی اندیشہ نہیں ہے۔ اسی طرح جب جنس پر بات کی جاتی ہے تو لازمی طور سے STD (Sexually Transmitted Diseases) بھی ذکر آئے گا۔
مزید باتوں کا انتظار رہے گا۔
قیصرانی
 

دوست

محفلین
کچھ مشہوریاں وغیرہ آج کل پی ٹی وی پر بھی نظر آتی ہیں۔اگر آپ نے بھی کبھی دیکھی ہوں وہ کیا ہے کہ ہمارے صرف پی ٹی وی چلتا ہے۔
کیبل شیبل کے ہم حق میں نہیں۔
واقعی شریعت میں کیسی شرم بات ان مولوی صاحب کی بھی ٹھیک ہے۔
باقی شہروں کی جب بات کرتے ہیں تو بڑے شہر ہی لیا کیجیے چھوٹے شہر ابھی ان سے زیادہ محفوظ ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ انھی بڑے شہروں میں آگہی بھی زیادہ موجود ہے ٹی وی ہو یا اور ذرائع یعنی صورت حال اتنی بھی خراب نہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
دوست نے کہا:
کچھ مشہوریاں وغیرہ آج کل پی ٹی وی پر بھی نظر آتی ہیں۔اگر آپ نے بھی کبھی دیکھی ہوں وہ کیا ہے کہ ہمارے صرف پی ٹی وی چلتا ہے۔
کیبل شیبل کے ہم حق میں نہیں۔
واقعی شریعت میں کیسی شرم بات ان مولوی صاحب کی بھی ٹھیک ہے۔
باقی شہروں کی جب بات کرتے ہیں تو بڑے شہر ہی لیا کیجیے چھوٹے شہر ابھی ان سے زیادہ محفوظ ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ انھی بڑے شہروں میں آگہی بھی زیادہ موجود ہے ٹی وی ہو یا اور ذرائع یعنی صورت حال اتنی بھی خراب نہیں۔
دوست بھائی،میرا پیغام پڑھیں‌پھر سے۔ اگر میرے گھر میں‌میری ماں اور بہن یا والد اور بھائی موجود ہیں اور ساتھ مسجد کے مولوی شادی کے بعد کے جنسی فعل کی تقریباً باتصویر وضاحت کرے، یا عورتوں کی پوشیدہ بیماریوں کی تفصیلی وضاحت کرے، تو میرا خیال ہے کہ شرع میں شرم نہ سہی مگر اتنی بے شرمی کی بھی اجازت نہیں‌ہے۔ ان مولوی کی اپنی بیوی بھی مولوانی ہیں۔ عورتیں ان سے بھی جا کر مشورہ کر سکتی ہیں۔ کیا خیال ہے؟
 
برادران من آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت یقینا ہے مگر صرف جنس کو ہی کیوں ۔ ایڈز تک پہنچانے کے دیگر تمام راستوں پر بھی بات ہونی چاہیئے ۔ مثلاََ استعمال شدہ سرنج کا دوبارہ استعمال (محلوں میں اگنے والے ڈاکٹر مہر دین برانڈز کے کلینک پر یہی کچھ ہوتا ہے) ۔ استعمال شدہ بلیڈز کا استعمال (کرمو نائی نے نیا بلیڈ لگانا کبھی سیکھا ہی نہیں) ۔ خون کا بغیر مناسب اسکریننگ کے استعمال ۔ نشہ بازوں کا ایک ہی سرنج سے ایک دوسرے کو منشیات کا استعمال کرنا اور کرانا ۔ ایڈز یقینا ایک خطرناک بیماری ہے مگر جنسی ذرائع سے اس کے پھیلنے کا تناسب (غیر مصدقہ ذرائع سے) بارہ فیصد ہے ۔ جبکہ دیگر ذرائع سے پھیلنے کا تناسب اندازاََ اٹھاسی فیصد ہے پھر صرف جنس پر ہی اتنا زور کیوں جبکہ ہمارے معاشرے میں اس موضوع پر کھل کر بات کم ازکم فی الوقت معیوب سمجھا جاتا ہے اور جیسے حالات چل رہے ہیں عوام میں جنسی آگاہی کے لئے بےتابی کے وہ وقت دور نہیں کہ یہ جھجک بھی بہت جلد دور ہو جائے گی پھر راوی عیش ہی عیش لکھے گا ۔ ایڈز سے بچاؤ ہو نا ہو ۔ کچھ لوگوں کو آزادی ضرور مل جائے گی ۔
 

hakimkhalid

محفلین
جنسی زندگی اور اسلام

عزیزان محترم!

بے تکی باتیں اور سوالات کرنے کی اسلام حوصلہ افزائی کرتا ہے۔اگر اس کے پیچھے مقصدیت بھی کارفرما ہو۔اس دوران اخلاقیات کوبھی پیش نظر رکھا جائےتو بہتر ہے ۔اور پھر مادر پدر آزادی کی بھی حدود متعین ہیں
مولوی اسلام نہیں۔اگر اس کا کوئی عمل خلاف اسلام ہے۔تو اسے اسلام کا حوالہ نہیں بنایاجا سکتا۔کیونکہ اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے حقیقی اعمال میں بہت فرق ہے۔اسلام دین فطرت اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔روز مرہ زندگی کا کو بھی مسلہء ہو آپ قرآن اور حدیث سے مدد لے سکتے ہیں۔
اسلام مسیحیت اور دیگر مذاہب کی طرح جنسی عمل کو گناہ کا عمل (sinful) یا حیوانی خواہش (antimallust)قرار نہیں دیتا۔اسلام جنسی اور شہوانی خواہش کو بطور ایک جسمانی ضرورت کے تسلیم کرتاہے مگر نہ صرف تسکین و تکمیل کے فطری وسائل کی طرف راہنمائی کرتاہے بلکہ شادی کے بعد جنسی ملاپ کو قانونی وشرعی طورپر جائز اورقابل ثواب قرار دینے کے ساتھ ساتھ مقصد پیدائش نوع انسان کے تابع بھی کردیتاہے۔ سیف سیکس کے حوالے سے ہمیں کسی ملٹی نیشنل کمپنی یا اس کے نمایندوں کی ضرورت نہیں ۔ اخلاقی اقدار کے حوالے سے یہ لوگ اپنی خبر لیں ۔امریکہ میں ہر تیسرا بچہ حرامی پیدا ہورہا ہے۔امریکی محکمہ دفاع کے ذیلی ادارے''نیشنل کرائم و کسٹمائیزیشن سروے بیورو'' کے مطابق ہر آدھے منٹ بعد ایک عصمت دری کا واقعہ ہوتا ہے۔جسکی روزانہ تعداد2,713وارداتیںبنتی ہیں۔لہذا جوسیکس ایجوکیشن ہمیں اسلام،قرآن اور احادیث سے میسر ہے۔اس کے بعد کسی اورجنسی تعلیم کی کسی صورت گنجاءش ہی نہیں نکلتی۔''سگمنڈ فرائڈ ''پڑھنے پڑھانے پر تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور اگر ایک مولانا ہمیں سورہ واقعہ کی درج ذیل آیات
58. أَفَرَأَيْتُم مَّا تُمْنُونَO
58. بھلا یہ بتاؤ جو نطفہ (تولیدی قطرہ) تم (رِحم میں) ٹپکاتے ہوo
59. أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَO
59. تو کیا اس (سے انسان) کو تم پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا فرمانے والے ہیںo
یا قرآن و حدیث میں موجود ہماری جنسی زندگی سے متعلق ہمیں کچھ بتاتے ہیں تو اعتراض کیوں؟
بہرحال ایڈز اور پاکستان کے موضوع کے حوالے سے مزید معلومات کےلیے میرا ایک مضمون جو روزنامہ جنگ ،نوائے وقت،پاکستان، ایکسپریس سمیت کم و بیش سو سے زائد اخبار و رسائل میں شایع ہو چکا ہے۔تھوڑی دیر تک پوسٹ کرتا ہوں۔
 

hakimkhalid

محفلین
ایڈز کے حوالے سے مضمون

ایڈز ایک خوفناک عفریت

تحریر :میڈیکل جرنلسٹ حکیم قاضی ایم اے خالد

اس وقت دنیا بھر میں جس مرض کی ہولناکی موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور ساری دنیا کے لوگ لرزہ براندام ہیں وہ عالمگیر مرض ایڈز ہے دنیا کا کوئی خطہ کوئی ملک اس مرض سے محفوظ نہیں ہے لیکن زیادہ تریورپی اور افریقی ممالک اس کا شکار ہیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگناءزیشن کے مطابق دنیا بھر میں چار کر وڑ بیس لاکھ سے زائد افراد ایڈز میںمبتلا ہیں صرف 2005ء میں اب تک تیس لاکھ افراد ایڈز سے ہلاک ہوچکے ہیں جن میں پانچ لاکھ سے زائدبچے ہیں۔جبکہ اقوام متحدہ کے ایچ آئی وی ایڈزپروگرام کی نئی ڈپٹی ڈائریکٹر' ڈےبورالینڈلے 'کے مطابق پاکستان میں ایڈز کی بیماری کا وباء کی صورت اختیار کرنے کاشدید خطرہ ہے۔بی بی سی کی ایک حالیہ سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی کے نشہ کرنے والوں میں سے 23فیصد ایچ آئی وی کا شکار پائے گئے جبکہ سات سال قبل ایسے ہی ایک سروے میں صرف ایک شخص اس وائرس کا شکار پایا گیا تھا ۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس وباء کا کراچی تک محدود رہنا ناممکن ہے کیونکہ بہت سے نشہ کرنےوالے کراچی آنے سے قبل ملک کے دیگر شہروں میں رہائش پذیرتھے اور وہاں بھی استعمال شدہ سرنج کے ذریعے نشہ کر چکے ہیں ۔
پاکستان میں عام افراد کو اس مرض کے بارے میں بہت کم آگاہی ہے حکومت پاکستان کے علاوہ میڈیکل،ہومیواور طبی اداروں ،یونانی، سماجی ورفاہی این جی اوزکی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اس مرض کے بارے میں بلاجھجھک عوام کو آگاہ کریں انہیں اس کے اسباب اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں بتائیں۔
اس بیماری کی چھوت لگنے سے انسان کے اندر موجود مدافعتی نظام مکمل طورپر تباہ ہوجاتاہے ایڈز ACOUIRED AIMMUNO DEFICENCY SYNDROME
کامخفف ہے۔قوت مدافعت کی کمی کے باعث انسان مختلف بیماریوں کاشکارہوجاتاہے۔تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق اس مرض کی علامات میں بعض مریض فساد خون میں مبتلاء ہوتے ہیں کچھ مریضوں کی جسمانی سافت تبدیل ہوجاتی ہے۔بعض کی شکلیں مسخ ہوکربندروں کے مماثل ہوجاتی ہیں جسم میں مختلف رسولیاں پیداہوجاتی ہیں۔غیرمعمولی تھکن ہوتی ہے رات کو پسینہ آتاہے بخار ہوجاتاہے بعض اوقات دست شروع ہوجاتے ہیں اور جب وائرس اعصابی نظام میں داخل ہوتاہے تو زبان لڑکھڑانے لگتی ہےیادداشت متاثر ہوجاتی ہے ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے ہیںاور موت واقع ہوجاتی ہے۔اس مرض کا بڑا سبب ہم جنسیتHOMO SEXUALTY
اور دیگر جنسی بے راہروی ہے جس سے ایڈز کاوائرس منتقل ہوجاتاہے دوسرا سبب ایڈزسے متاثرشخص کاخون یااس خون کی مصنوعات کسی صحت مند جسم میں داخل کردینے سے بھی ایڈز ہوجاتی ہے۔تیسرا سبب ایڈز شدہ خاتون کے ہاں بچے کی پیدائش ہوتو وہ رحم مادر سے ہی ایڈز کا وائرس لیکر آتاہے چوتھابڑاسبب ایک ہی سرنج کا باربار استعمال خاص طورپر ایڈز سے متاثرہ نشہ کرنے والے افراد کے استعمال شدہ سرنج کو استعمال کرنے سے اس شخص کوایڈز ہوسکتی ہے جسے ایڈز نہیں ہے۔یہ توتھاایڈز کا مختصرتعارف'اب اس کے علاج کا مسئلہ یہ ہے کہ تمام ترترقی کے باوجود موجودہ سائنس'کمپیوٹر اور ایٹم کے اس دور میں دنیا بھر کے جدید میڈیکل سائنس،ایلوپیتھک اور دیگر معالجین کے پاس ابھی تک اس مرض کاکوئی موثر علاج نہیں ہے اگرچہ طب مشرقی اسلامی کے پاس انسانی قوت مدافعت کو تقویت دینے والی بے شمار دوائیں موجود ہیں تاہم ایڈز کےوائرس کے خاتمے کے سلسلے میں ابھی اس فطری علاج کے معالجین بھی عاجز ہیں لیکن تحقیق کے دروازے بند نہیں۔حال ہی میں ایک تحقیق کے مطابق ایک خاص مشروم ''شی ٹیک ''اور لہسن سے ایڈز کے علاج میں کچھ پےش رفت ہوئی ہے یہ بات طے شدہ ہے کہ اس مرض کا علاج بھی اس فطری طب سے ہی وقوع پذیر ہوگا۔کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ دنیا میں کوئی مرض ایسی نہیں پیداکی گئی جس کا علاج نہ ہویہ علیحدہ بات ہے کہ انسانی عقل ابھی وہاں تک نہیں پہنچی فی الحال دنیابھر میں اس مرض کے علاج کے نام پر جو کچھ ہورہاہے وہ محض مختلف شکایات وعلامات کا روایتی علاج اورمریض کی عام دیکھ بھال اور حوصلہ افزائی ہے ۔پاکستان میں بھی ایڈز کے مریضوں میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے جس کی باقاعدہ تعداد کے بارے میں تو دعویٰ نہیں کیاجاسکتالیکن یہ بات باعث حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یورپی طرز معاشرت ہمارے ہاں بھی رواج پاچکا ہے یورپ کی کوئی بھی اچھی یابری چیز ہواسے اپنانے میں ذرہ برابربھی ترددنہیں کیاجاتا ویڈیو فلمز، ڈش انٹینا،کیبل اور عریانی وفحاشی کی یلغارنے ہمیں یورپ کے قریب تر کردیا ہے۔پاکستان کا کوئی شہرایسا نہیں جہاں جسم فروشی اور قحبہ گری کے اڈے نہ ہوں۔ کچھ سال قبل کیبات ہے کہ لاہور میں سوبچوں کے قاتل نے ان معصوموں کو ہلاک کرنے سے پہلے اسکے اپنے اعتراف کے مطابق ان سب کے ساتھ جو سلوک کیااس کی داستا نیں تمام اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں جنھیں چھوٹی عمر کے بچوں سے لیکر بڑی عمر کے خواندہ آدمیوں اور عورتوں تک سب ہی لوگ پڑھ چکے ہیں ہمارے معاشرے میں ایڈز جیسی مہلک اور جان لیوامرض کے پھیلاؤ کے تمام اسباب موجود ہیں،ہم جنسیت کے تمام ذرائع جو کہ سرعام تفریح گاہوں،بازاروں سڑکوں،اسٹیشنوں،سنیما گھروں اور معروف شاہراؤں پر مردطوائف کی حیثیت میں ترغیب گناہ دیتے ہوئے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔اس دور میں بھی بعض پسماندہ علاقوں میں ایک ہی سرنج انجیکشن کے سلسلے میں باربار استعمال ہورہی ہے بعض ڈینٹسٹ اپنے آلات مکمل طورپر سٹیریلائز نہیں کرتے۔اکثر باربر(حجام) ایک ہی بلیڈ سے کئی دفعہ شیو بناتے ہیں کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایڈز کے تمام اسباب ہمارے معاشرے میں بھی موجود ہیں لیکن ہمارے ہاں لوگوں،بچوں،نوجوانوں سے اس بارے میں گفتگو کرنااور اس ہولناک مرض کے اسباب کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا 'احتیاطی تدابیر سے متعلق کچھ بتانا'ایک معاشرتی جرم سمجھا جاتاہے۔جوانتہائی غلط ہے۔پاکستان کے لوگوں کے مذہبی عقائد کی وجہ سے ایڈز کے سلسلے میں وہ صورتحال تو پیش نہیں ہوسکتی جو افریقی ویورپی ممالک میں پیدا ہوچکی ہے تاہم یہ حقیقت پوری طرح اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان میں بھی یہ مرض پھیل رہی ہے اور اس پھیلاؤ میں اضافہ ہوگا اگر حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں تدارک کا اہتمام نہ کیاگیا اور عوام میں اس مرض سے متعلق شعور بیدار نہ کیا گیا۔ہم اگر ایڈز جو کہ سسکتی ہوئی موت ہے ، سے بچنا چاہتے ہیں تو اپنے معاشرے اور اپنی ثقافت سے عریانی وفحاشی نیزاخلاقی گندگی کو دور کرنا ہوگا اپنے آپ کو اسلامی آداب زندگی اور اخلاقی حدودو قیود کا پابند کرنا ہوگا'' روشن خیالی ''کی آڑ میںسیکولراور ملحدانہ عقائد سے بچنا ہوگا کیونکہ ایڈز کے سدباب کا یہی واحدطریقہ ہے یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ ایڈز مرض کم اور قہرالٰہی زیادہ ہے اسلام جنسی اور شہوانی خواہش کو بطور ایک جسمانی ضرورت کے تسلیم کرتاہے مگر نہ صرف تسکین و تکمیل کے فطری وسائل کی طرف راہنمائی کرتاہے بلکہ شادی کے بعد جنسی ملاپ کو قانونی وشرعی طورپر جائز اور قابل ثواب قرار دینے کے ساتھ ساتھ مقصد پیدائش نوع انسان کے تابع بھی کردیتاہے لہٰذا قربت کے لمحات ہمےشہ اپنے جیون ساتھی تک ہی محدود رکھنے چاہئیں۔خدانخواستہ خون کی ضرورت پڑے تو ایڈز ٹسٹ شدہ خون کا استعمال کیجئے۔انجیکشن کے لیے قابل اعتماد ڈسپوزایبل سرنج صرف ایک مرتبہ استعمال کیجئے۔ڈینٹسٹ حضرات اپنے آلات اچھی طرح سٹیریلائزڈ کرنے کے بعد استعمال کریں۔اسی طرح باربر حضرات اپنے آلات اور تولیے وغیرہ صاف ستھرے رکھیں۔صفائی کےلئے ٹشو پیپر اور شیو کےلئے ہمیشہ نیا بلیڈاستعمال کریں۔ان احتیاطی تدابیر پر عملدرآمدکریں اورخوبصورت زندگی کوہولناک ودہشت انگیز نہ بنائیں۔ہمارے نوجوانوں کاحق ہے کہ وہ اس مرض کے بارے میں جانیں اس کے اسباب اور احتیاطی تدابیر سے بہرہ ورہوں ہمیں اپنے بچوں اور نوجوانوں سے زندگی کی حقیقتوں کو چھپانانہیں چاہیے اسی صورت میں ہمارا اور پاکستان کا یہ مستقبل صحت مندمعاشرے کا باعث بنے گا۔
 
Top